نیورالنک کی ترقی اور خطرات
یہ ایک جادوئی دنیا ہے، یہاں کچھ بھی ممکن ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ مستقبل میں آپ صرف اپنی سوچ کے ذریعے کمپیوٹر چلا سکیں گے؟ یہ بہت ہی حیرت انگیز بات ہے کہ نہ کی بورڈ، نہ ماؤس اور نہ ہی آواز، بس آپ نے سوچنا ہے اور اپنے خیالات سے کمانڈ دینی ہے جس کے بعد آپ جیسا سوچتے جائیں گے کمپیوٹر ویسا ہی کام انجام دیتا جائے گا۔ کچھ عرصہ پہلے تک ایسا سوچنا دیوانے کی بڑ تھی یا ایسا ہوتا ہوا صرف سائنس فکشن کی فلموں میں دیکھا جا سکتا تھا، مگر اب یہ خواب حقیقت بن کر عام انسانوں کے استعمال میں آنے کے لیئے کچھ ہی فاصلے پر ہے۔
اس کوانٹم قسم کے دور کو نیورالنک کا عہد کہا جاتا ہے اور اس خواب کو پورا کرنے کے لیئے عام انسانوں کے دماغوں میں منی چپس لگائی جائیں گی جس کے ذریعے وہ نہ صرف اپنی سوچ اور خیالات کے ذریعے کمپیوٹر اور دیگر برقی آلات وغیرہ استعمال کر سکیں گے، بلکہ وہ ان الیکٹرانک چپس کے ذریعے اپنے جیسے دوسرے عام انسانوں سے بھی بات چیت کر سکیں گے، بلکہ اپنے خیالات بھی دوسروں میں ٹرانسفر کر سکیں گے۔ اس سے بھی بڑھ کر ان دماغی چپس کے ذریعے جس طرح عام کمپیوٹر سے ایک فائل ڈاؤن لوڈ کر کے دوسرے کمپیوٹر میں ٹرانسفر کی جاتی ہے، اسی طرح آپ اپنی کوئی پوری کہانی، فلم یا یاداشت وغیرہ بھی دوسروں میں منتقل کر سکیں گے۔
مشہور برطانوی سائنس دان اور "بلیک ہولز تھیوری” کے موجد سٹیفن ہاکنگ جو کہ پیدائشی طور پر سننے اور بولنے سے معذور تھے وہ بات چیت کرنے کے لیئے اور لیکچر دیتے وقت اسی قسم کی "مائنڈ چپ” استعمال کرتے تھے جو ان کے خیالات اور سوچ کو کمپیوٹر پر منتقل کرتی تھی۔ اب نیورالنک کی یہ چپس کمرشل بنیادوں پر تیار کی جائیں گی جن کو نہ صرف معذور اور پارکنسنز وغیرہ کے مریض استعمال کر سکیں گے، بلکہ ان چپس کو صحت مند عام انسان بھی خفیہ قسم کی بات چیت یا دور دراز کی کمیونیکیشن کے لیئے استعمال میں لا سکیں گے۔ دماغی چپس کا یہ پراجیکٹ ایلون مسک کی کمپنی نیورالنک نے شروع کیا ہے جس کا بنیادی مقصد انسان کے دماغ اور مشین کے درمیان براہِ راست ایک غیر مرئی قسم کا رابطہ قائم کرنا ہے۔
نیورالنک کہانی کی شروعات ایسے حیرت انگیز میگا کمپیوٹر سے ہوتی ہے جو 86ارب نیورونز (عصبی خلیات) پر مشتمل ہے، جس کا ہر نیورون (انسان کے دماغ کی طرح) دوسرے نیورون سے برقی سگنلز کے ذریعے بات کرتا ہے، نیورالنک انسانی دماغ کے ان سگنلز کو "پکڑ” کر کمپیوٹر کو "بتاتا” ہے کہ آدمی کا دماغ کیا چاہتا ہے اور اس کی خواہش اور خیال کو کیسے پورا کرنا ہے۔ یہ ایسا ہی جادوئی قسم کا الیکٹرانک نظام ہے کہ ایک طرف آپ نے بس کچھ سوچنا ہے اور دوسری طرف اسے ایک خودکار طریقے سے اور کوئی وقت ضائع کیئے بغیر ہو جانا یے۔
اب تک، یہ تجربات صرف جانوروں پر کئے گئے تھے جس میں بندر صرف اپنی سوچ کے ذریعے ویڈیو گیم وغیرہ کھیل سکتے تھے جو انتہائی کامیاب رہے، اور اب ایسا پہلا تجربہ کامیابی کے ساتھ انسانوں پر بھی ہو چکا ہے، مثال کے طور پر ایک ایسا شخص جو ہاتھ نہیں ہلا سکتا ہے، وہ صرف اپنی سوچ سے کمپیوٹر کو چلا سکتا ہے۔
یہ محیرالعقول لگتا ہے، اور ہے بھی! لیکن اس کے پیچھے استعمال ہونے والی سائنس نہایت پیچیدہ ہے۔ دماغ میں ایک چھوٹی سی چپ لگائی جاتی ہے۔ اس چپ کو باریک تاروں کے ذریعے دماغ کے ایک مخصوص حصے سے جوڑا جاتا ہے۔ یہ تاریں نیورونز کے سگنلز کو پڑھتی ہیں، پھر ایک سافٹ ویئر ان سگنلز کا "ترجمہ” کر کے کمپیوٹر کو بتاتا ہے کہ کیا کرنا ہے۔
یہ چپ 1,024 چھوٹے الیکٹروڈز سے منسلک ہو گی جو کہ انسانی بالوں سے زیادہ موٹی نہیں ہے اور یہ ایک بیٹری سے منسلک ہو گی جسے وائرلیس کے ذریعے سے چارج کیا جا سکتا ہے۔ یہ چپ ایک بیرونی کمپیوٹر کے ساتھ ایک انٹرفیس یعنی ربط بنائے گی اور اس طرح اسے سگنل بھیجنے اور وصول کرنے کی اجازت دے گی۔
تصور کریں کہ وہ افراد جو فالج کا شکار ہیں، وہ دوبارہ بات کر سکیں گے یا جو دیکھ نہیں سکتے، وہ دنیا کو ورچوئل ریلیٹی کے ذریعے دوبارہ دیکھ سکیں گے اور محسوس بھی کر سکیں گے۔ حتیٰ کہ انسانوں کی کھوئی ہوئی یادداشت بحال کرنا، شیزوفرینیا (دماغی خلل)، فالج، افسردگی یا پارکنسنز جیسے دماغی امراض کا علاج کرنے جیسا یہ سب کچھ ممکن ہو سکے گا!
لیکن کیا انسان اور مشین کے اس تعلق میں خطرات نہیں ہیں؟ اگر کوئی چپ ہمارے خیالات پڑھ سکتی ہے، تو کیا اس سے ہماری "پرائیویسی” بچ سکے گی؟ کیا ایک دن مصنوعی ذہانت ہمارے دماغ کو بھی "ہیک” کر سکتی ہے؟ اگر دماغی چپس میں ترقی کی دوڑ لگ گئی اور ان کے جدید سے جدید ماڈل آنے لگے اور ان کا استعمال عام ہو گیا تو خود انسان غلامی کے ایک نئے دور میں داخل ہو جائے گا، اور پھر کیا عام انسانوں کے دماغوں تک کو "ہیک” نہیں کیا جانے لگے گا؟
یہ ایک اہم سوال ہے اور اس خطرے کی طرف یہ اشارہ دنیا کے اس عظیم سائنس دان سٹیفن ہاکنگ نے بھی کیا تھا۔ ترقی کے اگلے دور میں داخل ہونے کے لیئے نیورالنک ایک عظیم چھلانگ ضرور ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کا جواب آنے والا وقت دے گا، بہت سی چیزوں کو انسان صرف سوچتا ہے اور وہ اگلے لمحہ حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں۔ لیکن جو چیزیں جتنے کم وقت اور آسانی سے حاصل ہوتی ہیں وہ اتنی ہی خطرناک بھی ہوتی ہیں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |