بہاول پور (چو لستا ن ) کے قلعے
تحریر و تحقیق :
محمد یوسف وحید
مدیر: شعوروادراک ( خان پور)
پنجاب کا فن ِتعمیر
کسی علاقے یا خطے کافن ِتعمیر کبھی ساقط نہیں رہتا یہ تغیر پذیر ہوتا ہے ۔ حالات کے پیش ِنظر کسی ایک خصوصیت کی جگہ دوسری خصوصیت لے لیتی ہے عمو می طور پر فن ِتعمیر میںیہ تبدیلیاں ارضیاتی ، مو سمی ، مذہبی ، سماجی ، معاشی اور تاریخی نقطہ نظرسے آتی ہیں جب مذہبی ، سماجی اور معاش تبدیلیاں رو نما ہوتی ہیں تو فن ِتعمیر بھی تغیر پذیر ہو تا ہے ۔
پنجاب کے فن ِتعمیر کے مطالعہ سے پہلے بہتر ہو گا کہ ہم اس خطے کی سماجی ، مذہبی ، معاشی تاریخ کی تبدیلیوں پر ایک نظر ڈال لیں ۔ پنجاب میں ایک بھی ایسا علاقہ نہیں کہ جہاں داخلے کے لیے حملہ آوروں کو مشکات کا سامنا کر نا پڑے ہر حملہ آور اپنے خطے کے فن ِتعمیر ، لباس ، سماجی و ثقافتی اثرات لئے شمال مغربی دروں سے یہاں آتا رہا ۔ جس کے ذریع نت نئے خیالات اور نظریے یہاں وارد ہوئے مگر ثقافتی لحاظ سے پنجاب کی سر حدیں عمومی طور پر کھلی رہیں حتٰی کہ زمانہ امن میں لوگ سر حدوں پر رہنے والے لوگوں کے اثرات سماجی اور معاشی طور پر ایک دوسرے سے لیتے رہے ان لوگوں کو جنوبی ایشیا کی ذرخیر زمینوں نے ہمیشہ متاثر کیا جہاں ایک مستقل کشش تھی جس نے اس علاقے کے لوگوںکی زندگیوںپر فنِ تعمیر کے حوالے سے خو شگوار اثرات چھوڑے ۔ یہ خطہ جغرافیائی سر حدوںکے حوالے سے بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ علاقائی تمدن کے حوالے سے اس خطے میں ایک جیسی خصوصیات نہیں ۔ حتٰی کہ زبان بھی کچھ فاصلہ پر جاکر تبدیل ہو جاتی ہے بے شک تاریخی عمل سے ہر جگہ یہی محسوس کیا جاتا ہے ۔ اسی طر ح یہاں کا فن ِ تعمیر بہت سے فن ِتعمیر کا مجمو عہ ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی واضح نشاندہی قریبا ً ناممکن ہے ۔
اس پر مستزاد یہ کہ پنجاب میں ارضیاتی طور پر پہاڑ ، سطح مر تفع میدان ، صحرا ور دریائی گز ر گاہیں، دو آبے ہیں ۔
یہاں دو آب کی زندگی دوسرے علاقوں سے یکسر چھوٹے علاقوں کے علاوہ پنجاب کا موسم گر میوں میں گرم بہ مر طوب مگر سر دیوں میں سرد اور موسم خزاں اور بہار میں موافق ہو تا ہے۔ یہاں کا فن ِ تعمیر یہاں کے باسیوں کے دل کی طرح وسیع اور روشن ہے ۔
ندی نالوں دریائوں کے گز ر گاہ ہو نے کی بنا ء پر اس سر زمین کے میدانی علاقوں میں مٹی اور ریت کے بے شمار ذخائر مو جود ہیں اور اینٹوں کے لیے وافر مٹی مہیا ہو تی ہے ،سورج کی تپش اور بھٹی سے ٹائلیں اور اینٹیں پکانے کے لیے بنیادی سامان موجود ہے اور پہاڑوں سے علاقائی پتھر بھی میسر ہے ۔ جہاں پر اس کی کٹائی ا ور کھدائی کے لیے بہتر ین ہنر مند مو جود ہیں ۔ ایسے علاقوں میں ٹیکسلا ، اٹک ، رہتاس ، نندنہ ، کٹاس ، روات جیسے علاقے شامل ہیں ۔ بہت کم جگہیں ایسی ہیں جہاں سر خ ، نیلا پتھر اور سنگ ِمر مر کسی دوسری جگہ سے لا کر عمار ت میں لگایا گیا ہو ۔ ایسا عمومی طور پر شاہی سر پرستی میں بننے والی عمارتوں کے سلسلہ میں کیا گیا ہے ۔
پنجاب کو یو نانی زبان میں Pentepotamos(پانچ دریائوںکی سر زمین )اور سنسکرت میں پنجند کہا گیا ہے ۔ یہ علاقہ حملہ آوروں کے لیے ہمیشہ سے کشش رکھتا ہے ۔ ہر نیا حملہ اور اپنے ساتھ نت نئے خیالات اور فن تعمیر کے مختلف طریقے لایا جس سے یہاں ایک نئی روایات کا اضافہ ہوا یہاں پرانے اور نئے کی جنگ ہمیشہ رہی اور فاتح ، مفتوح ایک دوسرے میں مدغم رہے ۔
دوسری طرف پنجاب ایک ایسا خطہ ہے یہاں بہت سے مذاہب کے لوگ آباد ہیں ۔ اس سر زمین نے ویدک دور سے پہلے کے آباد کار بھی دیکھے ویدک دور ، ہندو مت ، جین مت اور بد ھ مت کے زمانے بھی دیکھے ۔ یہاں تک کہ یو نانی اوران کے پیرو کار ۔ کشان آسمانی بجلی کی پوجا کر نے والے اور ایرانی آگ اور سورج کی پو جا کر نے والے دیکھے ۔ ان کے بعد مسلمان سکھ اور عیسائی آئے ۔ اس خطہ میں ایک ہی وقت میں مختلف مذاہب کے لوگ بھی رہے جو فن تمعیر میں اپنی اپنی عبادت گاہوں کے لحاظ سے اگر چہ منفرد خصو صیات کے حامل تھے ۔ مسجد ، مندر ، گردوارہ ، گر جا کے فن تعمیر کو ایک انجان بھی محسوس کر سکتاہے اسی طر ح مدرسہ ، پاٹ شالہ ، سرائے ، دھرم شالہ ، سمادھ ،مقبرہ ، قبرستان ، شمشان بھومی ، تکیہ ویہار کو مذہبی نقطہ نگاہ سے ایک دوسرے سے منفرد رنگ میں دیکھا جاسکتا ہے ۔اس نقطہ نظر سے بھی پنجاب کا ایک یہ پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ کسی اور جگہ کے مقابلے میں یہاں بہت سے مذاہب ثقافتی پہلو ، مذہبی پہلو ، سماجی اور معاشی پہلو ایک ہی جگہ نظر آتے ہیں ۔ نعیدک سے قبل کا دور ہمیں ہڑپہ سے ملتا ہے۔ پہلا یو نانی معبد ٹیکسلا میں بنایا گیا جبکہ پہلا پارسی معبد بھی ٹیکسلا ہی میں قائم ہوا ۔ گند ھارا پنجاب میں بد ھ ازم کے حوالے سے ایک متبر ک جگہ ہے اور اسلام کے پھیلائو کے لیے اس خطہ کا اہم مقام ہے ۔ پورے ہندوستان میں اسلام اُ چ شریف ، ملتان اور لاہور کے راستے پھیلا دوسرے نقطہ نظر سیبھی پنجاب ایک منفرد تجر بے سے گزرا ۔ اس کے جغرافیائی خدو خال کی بناء پر پنجاب ہزاروں سال سے انسانی تحریکوں کا درواز رہا ہے۔ وسطی ایشیا ء ایران اور مغرب کی طرف سے آنے والی یلغاروں کی زد میں رہا ہے ۔ اگر چہ اس دروازے سے حملہ آور ، علاقائی تمدجی جمیعت ، قافلے ، تاجر ، عالم اور سچائی کے متلاشی بھی آئے ۔ یہ آمدو رفت پنجاب میں ہمیشہ جاری و ساری رہی ۔یہاں دریائوں سے آبپاشی کے نظام کوہمیشہ بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ۔ سڑکیں ، بحری کشتی ،قلعوں کی تعمیر ، رباط ، سرائے ، بائو لیاں ، کو س مینار اور پڑاؤ وغیر ہ ۔ ایسی عمارتوں نے یہاں ایک خاص فن تعمیر کی بنیاد رکھی ۔ ایسی عمارتوں کی پنجاب میں کوئی کمی نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے ایسی متنوع فنی مہارت پاکستان میں صرف پنجاب ہی میں دیکھنے میں آتی ہے ۔
پرانے وقتوں میں اور ایندھن سے چلنے والے انجنوں کے ساتھ دریائی ٹریفک اور پن چکیوں نے پانی کے ذخائر کے قریب رہنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ تمام اہم شہروںاور قصبوں کی تعمیر پانی کے ذخائر دریائی کناروں کے قرب و جوار میں کوئی پنجاب اس سلسلہ میں خاصا خوش نصیب ہے کہ یہاں کافی چھوٹے بڑے دریا مو جود ہیں ۔ ماضی میں یہاں شہری آبادیوں کے لئے خاصے موافق حالات تھے یہاں اکثر تہذیبوں کا ارتقا ء ممکن تھا ایسے شہرو ں میں ٹیکسلا ، ہڑ پہ ، لاہور ، اُچ ، ملتان ،سو دھرہ، چنیوٹ،بھیرہ ، خوشاب ، اٹک ،شور کوٹ ، جھنگ ، وزیر آباد قابل ِذکر ہیں ۔ شہروں میں عمارتوں کا بھر مار کا مطلب فن تعمیر کی ترقی ہی ہے آج کی تحقیق کے مطابق یہ ثابت ہے کہ ہڑپہ تہذیت کا مر کز اور اس کی معاشی مضبو طی دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا تھے ۔
شہری زندگی کی شروعات پنجاب میں ہڑپہ اور ٹیکسلا سے ہوئی بلکہ ٹیکسلا سے قبل Hippodameanٹائون پلاننگ سکندر نے پنجاب میں متعارف کروائی جہاں اس نے کئی تاریخی شہر اسکندریہ نام کے شہر بسائے ۔ اس کے بعد مسلمانوں کے دور ِ حکومت میں مسلمانوں کے فن تعمیر کے نقطہ نظر سے جو کردار لاہور ، ملتان، دیپالپور اور اُچ نے ادا کیا اس کی مثال آج بھی پاکستان کے کسی اور صوبے میں ملنی مشکل ہے ۔ بھنبھو ر اور منصورہ بلاشبہ ابتدائی اسلامی دور کے شہر ہیں لیکن بعد میں آنے والے ادوار میں ان کا کردار ابھی تک تحقیق طلب ہے ۔
شمال مغرب سے تمام اہم حملہ آور سب سے پہلے پنجاب سے نبر د آزما ہو تے تھے اور اگر پنجاب یہ جنگ ہار جاتا تو دہلی تک انہیں روکنے کی استطاعت کوئی نہ رکھتا تھا ۔ اس طر ح پنجاب پورے ہندوستان کے تحفظ کی ضمانت رہا ہر حملہ آور اپنے ساتھ تباہی ، بر بادی لاتا اور شہروں ، عمارتوں کے کھنڈرات میں نمایاں اضافہ کر تا چلا جاتا ہے ۔ ملتان ،اُچ ، دیپالپور اس کی روشن مثالیں ہیں ۔ پنجاب کی آبی گذر گاہیں خود پنجاب کے فن تعمیر کے لیے ایک مصیبت بن گئیں ان دریائی گذر گاہوں نے تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ راستے میں آنے والے شہروں ، عمارتوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر نے نمایاں کردار ادا کیا ۔ اسکندر کے زمانے میں چار شہر اسکندریہ ، بھیرہ ، خوشاب اور ملتان کے علاوہ لاہو رکی عمارتیں دریائی دستبر د کا بار بار شکار ہو تی رہیں مختلف ثقافتی یلغاروں نے بہت کم عمارتیں باقی چھوڑیں ۔ محکمہ آثار ِقدیمہ نے پنجاب کی عمارتوں کا ایک مکمل سروے کرایاجس سے پتہ چلا کہ پاکستان میں غزنوی دور کی کوئی عمارت مو جود نہیں ہے ۔ مگر آج کبیر والا ملتان کے نزدیک مقبرہ خالد بن ولید اس کے امکان کر رد کر تا ہے پنجاب کے ایک مکمل سر وے کے رپورٹ کی اشاعت کے بعد یہاں کے فن تعمیر کو سمجھنا اور ابھی آسان ہوجائے گا۔
جغرافیائی حالات اندرونی خلفشار اور بیرونی حملہ آوروں ور آبادی کی یلغار جھیلنے والے اس عظیم خطے نے باہر سے آنے والے اور اند ررہنے والوں نے اپنے بیرونی اثرات اور اندرونی اثرات سے مزین عمارتیں تعمیر کیں جو اپنے آفاقی خدو خال کی وجہ سے پاکستان بھر میں ممتا زہیں ۔ یہاں پر مو جود زبانوں میں پنجابی ، سندھی ، سرائیکی ، بلوچی ،ہندی ،عربی اور فارسی کا مطالعہ دوسروں کے اثرات کو کھلے بندوں کو قبول کرنا اور دوسری تہذیب کے اثرات اپنے اندر قبول کر نایا نظر انداز کر نا ضرورت کے مطابق تبدیلی کر نے کا انہیں کوئی دکھ نہیں۔ نئے لوگ نئے انداز نئی تحریکیں ، نئی لہریں ہر دم اپنا کر انہیں پنجاب میں تحفظ فراہم کیا گیا ۔ پنجاب میں رہنے والے لوگ دوسرے لو گوںکی امداد کے لئے ہر دم تیار رہتے ان کا مذہب اپنانے ان کی ثقافت اورانہی کے انداز کی عمارتیں بنانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ۔ وقت اس کا بہترین گواہ ہے کہ پنجاب کے لوگوں کا اپنا رشتہ اس مٹی سے استوار رکھنے کے لیے کیا کھو یا ، کیا پایا ۔ اس علاقہ میں ہر کسی کی اپنی پسند کا فن تعمیر ابھر تا اور ڈوبتا رہا ۔
مغلوں کے اعلی ترین عہد میں (1526ء 1761-ء ) مغل شہنشاہ بابر تعمیرات کا دلدادہ تھا ۔تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے ہمراہ دو زبر دست معمار یوسف ، اور عیٰسی کو یہاں لایا جو معروف تر کی معمار سنان کے شاگرد تھے انہوں نے بڑی اعلٰی عمارتیں اپنے ذوق کے مطابق بنائیں ۔نصیر الدین ہمایوں کی تیار کر دہ چند یادگاریں آگرہ ، حصار اور دیگر مقامات پر دیکھی جاسکتی ہیں ۔ تاہم لاہور میں میرزا کامران کی بار ہ دری اس کی عظیم یادگار ہے ۔
شہنشاہ اکبر 1555ء میں تخت نشین ہوا ۔ اس کی یادگاروں میں لاہور کا قلعہ دور جامع مسجد فتحپور سیکر ی ، شیخ سلیم چشتی کا مقبرہ ، لاہور کے قلعہ میں کچھ عمارات اکبر نے فتح پور سیکر ی کی طر ز پر تعمیر کیں ۔اسی طر ح گنگا اور جمنا کے سنگم پر واقع الہ آباد میں اکبر نے ایک محلاتی قلعہ (ارک ) بنایا ۔ اکبر کے بعد مغل بادشاہ جہانگیر کے عہد میں پنجاب میں قلعہ لاہور ،قلعہ شیخوپورہ ، ہرن مینار ، مقبرہ انار کلی ، واہ گارڈن اور کئی عمارات سینکڑوں کے حساب سے تعمیر ہوئیںجبکہ عہد شاہ جہانی میں تا ج محل کے معماروں میں استاد احمد اور حامد کے نام قابل ِ ذکر ہیں ۔ جنہیں شاہ جہاں نے دہلی کی عمارات کی تعمیر کے لیے 1638ء میں مامور کیا ۔ احمد کا پسر ثانی لطف اللہ تاج محل کی تعمیر اور عمارات دہلی کی تعمیر اپنے والد کے نام بتا تا ہے ۔ شاہ جہاں کے عہد میں پنجاب میں متعدد عمارات تعمیر ہوئیں ۔ جن میں قلعہ لاہور کی موتی مسجد ، شیش محل ، شالا مار باغ ، مقبرہ جہانگیر ، مقبرہ نو ر جہاں ، اور بے شمار مساجد و مقبرے اسی دور میں تعمیر کیے گئے ۔ مغلو ں کے ذوق کے نمونے پنجاب میں قدم بہ قدم آج بھی ان کی فن تعمیر سے وابستگی اور اعلیٰ ذوق کی نشانی ہیں ۔
ہم مسلمانوں کے دور کو چار حصوں میں تقسیم کر تے ہیں ۔ محمد بن قاسم کے دور سے محمود غزنوی کے دور تک بر صغیر میں پہلے ہی متعدد قلعے مو جود تھے ۔ پھر والا قلعہ کی صحیح تاریخ بنا 1002ء ہے ۔ محمد بن قاسم سے محمود غزنوی تک پرانے قلعوں کو ہی مضبوط بنایا گیا مگر کوئی قابل ذکر فن تعمیر کے لحاظ سے کارنامہ شاذ ہی میسر آتا ہے ۔ اس سلسلے میں مضبوط حوالہ ہمیں پٹھانوں کے دور سے میسر آتا ہے ۔ زمانہ تغلق میں خاندان ِغلاماں اور خلیجوں کے فن تعمیر کی خصوصیات ملتی ہیں جن پر ہندووانہ اثرات غالب ہیں ۔ہم عادل آباد میں دوہری دیوار پہلی مر تبہ 1337ء دیکھتے ہیں ۔ جو رائے پتھورا کی حوایلی کی دیوار تھی ۔
بیرونی چار دیواری سے مرصع شہر
ہیون سانگ کا ویہند جو اور بہت سے مختلف ناموں سے پہنچانا جاتاہے آج کا ے قصبہ ھجرو کے بالمقابل وادی چلاس دریائے سندھ کے دائیں کنارے سے ۱۶میل کے فاصلے پر ہے جہاں دریائے کابل دریائے سندھ سے ملتا ہے اس قصبے کے گردا گرد ۲۰فٹ اونچی دیواریں ہیں آج کل آثار کی شکل میں ہیں ان دیواروں میں چار دروازے ہیں جن کا کوئی محراب نہیں ہے ۔ یہ دیواریں بھٹی کی پکی ہوئی اینٹوں سے بنائی گئی ہیں مگر نیچے بنیادوں میں چو کور پتھر لگائے گئے ہیں ۔جو ظا ہر کر تا ہے کہ نیچے کا میڑیل مسلمانوں سے پہلے کا ہے ۔ دروازے کاپٹ ایک ہی ہے۔ یہ جگہ محمود غزنوی کے حملہ کے وقت سر دیوں میں ہندو شاہی دور کا دار لخلافہ تھی جس نے بہت سی جنگوں کا نظار ہ کیا ہے ۔ یہ ہندو فوجی نقطہ نگاہ سے تعمیر کی پہلی مثال ہے اس دیور میں بہت سے برج بنائے گئے ہیں جو ۵۰ گز کے فاصلے پر ہیں ۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگا کہ یہ دیوار محمود غزنوی کے دور میں دوبارہ تعمیر کی گئی ۔
سر کپ کے نام سے رہائشی کالونی ٹیکسلا کے قریب ہے ۔ مو جودہ کھدائی شاہ جگہ سیتھو پارتھین دور کا شہر تھا ۔ جو کئی مر تبہ اس قصبہ کے گرد ۲۱ فٹ بلند دیوار مو جود ہے ۔ جو بر جوں سے مکمل کی گئی ہے ۔ اس قصبہ میں محلات مندر اور عام لوگوں کے رہنے کے مکانات موجود ہیں ۔جن کے دروازے بازار کی طرف کھلتے ہیں ۔ یہ برج مستطیل بنائے گئے ہیں ۔اسی طرح کی چار دیواری والے قصبوں میں ڈیجی والی ٹکری (خیر پور میرس ) اور مو ئن جو دڑو اور ہڑ پہ آج بھی گوا ہ ہیں ۔
قصر
یہ محلات اسلام سے قبل بر صغیر اور یورپ میں بنائے جاتے ، رومنوں اور گایئتھوںنے اپنے اپنے علاقوں میں ایسے محلات تعمیر کیے ۔ البیرونی نے ہندوستان میں ایک ایسے قصر کی تعریف کی ہے جو کابل اور دریائے سند ھ کے قریب واقع تھا ۔ قصر امراء کے رہنے کی جگہ کو کہا گیا ہے ۔ ہنگامی حالات کے موقع پر ایک چھوٹی پلٹن اس کی حفاظت پر مامور ہوتی ۔ عربوں نے بھی ایسے محلات بنائے ۔ یہ محلات عمومی طور پر تاریخ میں بند مکان کے طور پر بنائے جاتے ہیں ۔
پاکستان میں ایسے محلات کی دوسری مثال قصر نواب سید خان جو پشاور کے نزدیک ہیں اس کی دیواریں ۱۴فٹ تک چوڑی ہیں جو پختہ مٹی کی ٹائلوں سے بنائی گئی ہیں ۔ اس کے علاوہ لاہور اور اسلام آباد میں کئی ایک قصر اُمرا ء رئو سا کے زیر استعمال ہیں ۔
رباط
یہ مختلف نو عیت کے چھوٹے قلعہ نما چو کیا ں ہیں جو شام اور سسلی میں موجو د ہیں اور اس کی مثالیں ہمیں مسلمانوں کے دور میں بر صغیر میں بھی ملتی ہیں ۔ بر صغیر میں اس کی بہترین مثال قلعہ روات ہے ۔ جہاں گکھڑ سلطان سارنگ خان کا مقبرہ ہے جو شیر شاہ سوری سے جنگ کے دوران مارا گیا تھا یہ ربا ط کی ایک عمد ہ مثا ل ہے ۔
رباط ایک اونچی دیواری سے گھری ہوئی عمارت جس کی دیواریں ۳۰ فٹ تک اونچی ہوسکتی ہیں ایک بڑے دروازے کے ساتھ ہوتی ہے جہاں سے آمدورفت پر نظر رکھی جاسکتی ہے ۔ اس کا ایک درواز ہ ہو تا ہے اور اس سے ملحق چند مکانات ہو تے ہیں جو مکانات سے زیادہ بیر کوں کا نمو نہ پیش کر تے ہیں مغربی کو نے میں ایک مسجد ہے سارنگ خان کا مقبرہ شمال مغربی کو نہ میں ہے ۔ ایسی رباط دو قلعوں کے درمیان درجنوں کے حساب سے تعمیر کی جاتیں جو ڈاک چوکیوں کا کام بھی دیتیں ۔
قلعے
شمال مغربی سر حد پر سکھوں اور بر طانوی سامراج نے چند قلعے بنائے ان میں میکن فورٹ ، شگئی فورٹ ، علی مسجد فورٹ ، لنڈی کو تل فورٹ ، اکوڑہ فورٹ یہ تمام قلعے مغربی طر ز ِتعمیر کو مد نظر رکھ کر بنائے گئے ۔ جن میں سے اکثر جمرود اور خیبر روڈ پر واقع ہیں ۔ یہ خیبر پاس کی حفاظت کے لیے بنائے گئے ۔ پشاور میں قلعہ بالا حصار پنجاب میں قلعہ اٹک ، پھر والا قلعہ ، قلعہ روہتاس ، قلعہ لاہور ، قلعہ شیخو پور ہ ، قلعہ ملتان ، قلعہ دیپالپور ، قلعہ سیالکوٹ ، قلعہ ڈرا وڑ مشہور قلعے ہیں ۔
قلعہ دراوڑ (843ء)
اس قلعہ کا اصل نام قلعہ ڈیور اول فورٹ ہے جو اس کے بانی کے نام پر ہے ۔ یہ قلعہ بھٹی راجپوت خاندان کے مو نر اچ اور دیوراج نے ۸۴۳ء میں بنانے کا حکم دیا ۔ راجپوت خاندارن کی تاریخ دیوراج کے دادا تنو سے شروع ہو تی ہے جو بجی رائے کا بیٹا تھا ۔ تنو کے پانچ بیٹے تھے ۔ تنو نے ۷۵۷ء میں بجنوٹ قلعہ کی تعمیر کی ۔ اس کے پوتے نے دیو گڑھ یا دیو رال میں مضبوط قلعہ تعمیرکرایا ۔ آج قلعہ کی جو شکل ہے وہ اصل نہیں ہے ۔ اگر چہ ایک مضبوط قلعہ ہے جو ٹیلے اور چار دیواری سے گھری آبادی کے ساتھ واقع ہے ۔ چولستان میں قلعہ درواڑ ایک خو بصورت عمارت ہے ۔ اس کے عظیم الشان برج ریت کے سمندر میں لنگر کی طر ح پڑے ہیں ۔یہ فوجی فن تعمیر کا ایک عظیم الشان شاہکار ہے ۔ جو اوائل اٹھارویں صدی کا ایک عمدہ نمو نہ ہے ۔ یہ آج بھی بہاو لپور کے نوابین کی ملکیت ہے ۔ جنہوںنے اس علاقے میں اپنے آپ کو محدود رکھا اور دراوڑ کو اپنی حکو مت کی بنیادی آماجگاہ بنایا ۔
مو جودہ قلعہ پرانی بنیادوںپر کھڑا ہے جو روایات کے مطابق اسلام سے پہلے کا ہے روایات کے مطابق اسے بھٹی یا بھائیہ حکمران ڈیرہ سدھ نے بنوایا جسے ڈیور اول کہا جاتا تھا نام بعد میں بگڑکر دراوڑ بن گیا ۔ جب یہ قلعہ بنایا گیا رو اس کے ۵۶ بر ج تھیں جو دیورا نے خود بنوائی اس نے جو جھیلیں بنوائیں ۔دوسری جھیل ٹنو ٹ کے مقام پر ہے ۔ ان جھیلوں کے نام اس نے خود رکھے ایک نام تنوسر ور دوسری دیوسر ۔ بھٹی راجپوت علائو الدین غوری کے ہاتھوں ختم ہوئے اس وقت سے آج تک یہ قلعہ مسلمانوں کے زیر تسلط رہا جنہوں نے اس قلعہ کو موجودہ شکل دی ۔
پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے جس میں تین اضلاع ہیں ۔ بہاول پور ، بہاولنگر اور رحیم یارخان جن کا رقبہ 26,617مر بع کلو میٹر ہے ۔ اس رقبے کا آدھا حصہ ریگزار پر مشتمل ہے جو چولستان کے نام جانا اور پہنچانا جاتا ہے اور عمومی طور پر اس علاقہ کو روہی بھی کہا جاتا (جو عظیم صوفی شاعر خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے ایک خو بصورت حوالہ رکھتی ) ہے ۔پرانے وقت میں چولستان کا موسم آج کے موسم سے مکمل طور پر مختلف تھا اس قلعے کے علاوہ چولستان میں کم و بیش 40سے زائد قلعے مٹی اور پختہ اینٹوں کے بنے ہوئے ہیں ۔ ان میں سے بعض پرانے خشک دریا ئے ہاکڑہ کے کنارے واقع ہیں اور کچھ معدوم ہو چکے ہیں ۔ ہندوستان میں اسے گھا گھر اور پاکستان میں ہاکڑہ کہتے ہیں ۔ جو ویدک دور میں دریا سر سوتی کے طور پر جانا جاتاتھا ۔تقر یباً1000ق ۔ م میں اس دریا کا پانی گنگا ، جمنا میں چلے جانے کی وجہ سے خشک ہوا گھکٹر ہاکڑہ دریااپنے طور پر جنوب مغرب کی طرف ہندوستانی ریاستوں بیکانیر اور جیسلمیر کی طرف بہتا رہا اور رن آف کچھ میں جا کر ختم ہو جاتا ۔ یہیں اس دریا کے اطراف و اکناف میں کا سراغ 400پرانی بستیوں کا کئی ایک سال پہلے لگایا جو 4000ق۔ م سے لے کر مسلمانوں کی آمد تک کی کہانی بیان کر رہی ہیں ۔
اس قلعہ کی پرانی تاریخ کے بارے میں اگر چہ کتب خاموش ہیں مگر اس کی تاریخ اس وقت سے ملتی ہے جب ریاست بہا و لپور کے پہلے نواب صاد ق محمد خان اول نے 1733ء میں اسے دوبارہ تعمیر کر ایا ۔ 6سال بعد نادر شاہ نے اسے نواب کا خطاب دیا اور اس کی مملکت کی حدود میں شکار پور ، لاڑکانہ ، سیوستان اور Chhatasکا علاقہ دراوڑ کے علاوہ شامل تھا ۔دوسرے نواب بہاول خان اول کے زمانہ میں یہ قلعہ 1747ء میں راو ل رائے سنگھ کے تصرف میں رہا یہ قلعہ 12سال بعد تیسرے نواب مبارک خان کو اس شرط پر دے دیا گیا کہ وہ قلعہ کی آدھی آمدنی دیگا ۔
بہا و لپور شہر اوردراوڑ قلعہ 1788ء میں پنجور شاہ کے قبضہ میں آیا اور مختصر مدت کے لئے شاہ محمد خان کے قبضہ میں رہا مگر جلد ہی یہ دونوں جگہیں چوتھے نواب ، نواب عادل خان دوم کے قبضہ میں چلے گئے یہ قلعہ 18ویں صدی کے آخری چوتھائی سے لے کر اب تک بہا و لپور ریاست کے ماتحت رہا ۔ شاہی قبرستان اور ایک سنگ ِمر مر کی مسجد قلعہ کے باہر واقع ہے کبھی یہ قلعہ ایک معروف تجارتی مر کز تھا ۔
قلعہ دراوڑ کے 40برج اور مینار ہیں قلعہ کے اندر ایک کنواں ہے اور مر کزی داخلی کے قریب ایک بڑا تالا ب ہے یہ ایک مستطیل عمارت ہے جو جنوبی طرف سے گیٹ سے 220میٹر ہیں یہی اس کا داخلہ دروازہ ہے جو ایک بڑے راستے سے پیوستہ ہے ۔ اس کے برج بڑی حد تک محفوظ ہیں ۔ جن کے اوپر زیادہ پکائی ہوئی اینٹوں سے مختلف جیومیٹریکل پیٹرن بنائے گئے ہیں ۔ قلعہ کی دیواریں 20میٹر تک بلند ہیں ۔ قلعہ کے شمال مشرقی کو نے میں ایک بڑا تالاب (ٹوبہ) مو جود ہے جس سے علاقہ کے مویشی اور لوگ پیاس بجھاتے ہیں ۔
قلعہ کی عمارت سطح زمین سے 20میٹر بلند ہے اور اس میں متعدد عمارات نواب کی فوج کے زیر ِ استعمال رہیں ۔ جبکہ شمال مشرقی برج کی پشت پر ایک خو بصورت مزین عمارت نواب کے لیے بنائی گئی ہے ۔
دراوڑ ، ڈیرہ نواب صاحب آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے ۔ ایک سڑک جنوب کی طر ف سے قلعہ کی طر ف جاتی ہے اور پکی سڑک سے آگے 15میل کچی سڑک قلعہ تک پہنچتی ہے اس جگہ پر ندے اور ہرن اکثر نظر آتے ہیں ۔ اس قلعہ کو دیکھنے کے لیے بہترین وقت نو مبر یا فر وری ہے مگر نواب صاحب کے خاندان سے اس کی اجازت لینا پڑتی ہے ۔
چولستان کے قلعے
چولستان قدیم قلعوں اور چار دیواری سے مر صع شہروں سے بھر ا پڑا ہے جو فوجی نقطہ نگاہ سے تعمیر کیے گئے ایک سروے کے مطابق بہت سے قلعوں کے آثار ملے جن کی تعداد 35کے قریب ہے ان میں سے بعض کے قلعے جو نسبتاً اچھی حالت میں ہیں ۔ ان کی بابت یہاں تحریر کیا جاتا ہے ۔
قلعہ بارہ
یہ ایک مستطیل نما اینٹوں سے بنا قلعہ ہے جو پیمائش میں 154فٹ جنوبی سمت ہے اور اس کے برج گو ل ہیں ان میں سے جنوب مغربی کو نہ کے بر ج اس کی اصلی حالت کو ظا ہر کرتے ہیں ۔ جس کا محیط 26فٹ ہے اس قلعہ کی حالت مخدوش ہے جبکہ گول نگہداشت کے لیے گول مینار ابھی تک مو جود ہے اور قلعہ کے باہر میٹھے پانی کا کنواں ہے ۔
قلعہ بجنوٹ
قلعہ بجنوٹ یا ونجھو رٹ ایک عدیم المثال قلعہ ہے جسے راجہ ونجھایا بھائیہ نے 757ء میں تعمیر کیا ۔ جسے شہاب الدین محمد غوری نے 1167ء میں تباہ و بر باد کیا اب یہ قلعہ کھنڈرات کی شکل میں ہے مگر اس کے بیشتر حصے اچھی حالت میں ہیں ۔ یہ قلعہ چونے کے پتھروں کے ٹکڑوں سے بنایا گیا ہے اس کی چار دیواری تقریبا ً مر بع ہے جو ہر طرف سے 300فٹ ہے ایک کونے پر 28محیط کا بر ج ہے جبکہ 3برج قدرے گول جو کو نے والے برج کے دونوں اطراف ہیں شمالی جانب 11فٹ کھلا ایک داخلی راستہ ہے جس کے اوپر تین کمر ے بنائے گئے ہیں ۔ جن کی پیمائش 19″x8″جن کی اونچائی 7فٹ تک ہے ۔
قلعہ کی دیواریں 21فٹ تک بلند ہیں جس کے اوپر پردہ دیوار علیٰحدہ ہے اور دیوار کی کل چوڑائی اوپر سے 7فٹ ہے اور بیدا سے اور زادہ چوڑی ہے شمالی دیوار کے اوپر 7کمروں پر مشتمل داخلی راستہ کے مغرب میں ہے ۔ جبکہ اس کی بیرونی چار دیواری میں ایک اور مر بع چار دیواری سے جس کی پیمائش 155فٹ لمبائی میں قدرے گولائی دار بر جوںکے درمیان ہے یہ برج 30فٹ کے محیط کے ہیں اور دیواریں ساڑھے 3فٹ چوڑی ہیں اور 10فٹ تک بلند ہیں ۔ اندرونی اور بیرونی دیوار کے درمیان ساڑھے 52فٹ کا فاصلہ ہے جبکہ اندرونی احاطہ کے داخلی رقبہ 8فٹ کھلا راستہ ہے ۔شمالی جانب جس کا ایک بڑا صحن 83×62.5فٹ ،پیمائش میں ہے ۔جس کا داخلی راستہ شمال کی جانب بیرونی چار دیواری کے قریب ہے ۔
قلعہ کے اندر دو پانی کے تالاب ہیں ۔جن کی پیمائش 21فٹ محیط میں ہیں اور 40فٹ گہرے ہیں اس علاقے میں میتھاون مویشی باڑہ میں تھا جو آج کل فیروزہ نزد خان پور منتقل ہو چکا ہے ۔
قلعہ جفا گلا
یہ قلعہ مٹی کی اینٹوں سے بنایا گیا ہے جس کی پیمائش شمال سے جنوب کی جانب 128فٹ اور مشرق سے مغرب کی طرف 192فٹ اور 11.50داخلی راستی جو شمال کی جانب ہے ۔ اس کی شمالی دیوار خمدار ہے اس کی بیرونی چار دیواری 7فٹ مو ٹائی میں ہے اور کو نوں پر بنے برج 91فٹ تک بلند ہیں اور قلعہ کی عمارتوں کے کھنڈرات قلعہ کے اند رموجودہیں یہ قلعہ 1767ء میں علی مراد خان پیر جانی نے تعمیر کرایا اس کے باہر میٹھے پانی کے چار کنویں مو جود ہیں ۔
دھوئیں والا قلعہ
یہ مٹی کی اینٹوں کا ایک چھوٹا قلعہ ہے جو مر بع شکل میں ہے جس کے چار بر ج ہیں ۔جو 18فٹ محیط میں ہیں اس قلعہ کے وسط میں مر بع عمارات مو جود ہیں ۔جو کھنڈرات کی شکل میں ہیں ۔ اس کی بیرونی چار دیواری ختم ہو چکی ہے ۔ا ب اس کی صرف 4فٹ اونچائی تک دیوار ہی باقی بچی ہے ۔یہ قلعہ 1772ء میں عاقل خان ولد کبیر خان اجیران نے بنوایا تھا ۔
خلجی قلعہ
منٹھار سے 3میل شمال کی جانب اس قلعہ کے آثار مو جود ہیںجو مستطیل ہے جو 240فٹ شمال سے جنوب کی جانب اور 160فٹ مشرق سے مغربی جانب ہے جس کے برج نہیں ہیں یہ کچی اینٹوں سے بنایا گیا ہے جبکہ بیرونی چار دیوری پکی اینٹوں سے کی گئی ہے جبکہ شمال مشرقی سمت 16فٹ اونچائی کے بر ج مو جود ہیں ۔ یہ قلعہ مخدوش حالت میں ہے آ ج یہ ٹیلے کی شکل میں ہیں ۔اس کی اینٹ کا سائز 9x6x1.6″ہے ۔
قلعہ اسلام گڑھ
قلعہ اسلام گڑھ یہ چولستان میںہندوستانی سر حد کے قریب واقع ہے یہ قلعہ بجائے خود اینٹوں کی ایک خو بصورت عمارت ہے جس کی دیواریں اونچی اور مخروطی ہیں جنہیں مضبوط بر جوں نے سہارا دے رکھا ہے یہاںمیٹھے پانی کی مو جودگی کی وجہ سے 1971ء تک آبادی قائم رہی ۔
یہ قلعہ راول بھیم سنگھ نے 1608ء میں تعمیر کیا جسے بھیم دار کیا گیا 1766ء کے بعد اس پر گڑھی اختیار خان منڈسانی سردار کا قبضہ ہو گیا پچھلے 100سال میں قلعہ کو ناقابل ِتلافی نقصان پہنچا یہ قلعہ مر بع شکل میں 315فٹ مشرق سے شمال کی جانب بر جوں کے ساتھ دونوں اطراف سے شمال کی جانب 5اور مشرقی جانب 8اور کو نے کے بر جوں کے ساتھ مو جود ہیں اور تین مغربی جانب اور جنوبی سمت ہیں ۔جو کہ 9فٹ کے محیط میں ہیں اور دونوں کناروںپر بر جوں کا محیط جنوب مشرق اور جنوب مغرب 50فٹ تک ہے مگر جو مشرق اور شمال کی جانب ہیں وہ 39اور 42فٹ کے محیط میں ہیں ۔جبکہ بیرونی چار دیواری 10سے 12فٹ مو ٹائی میں ہے اور 45فٹ تک اونچی ہے ۔قلعہ کے اند رپہنچنے کے لئے مشرقی جانب ایک داخلی راستہ 9فٹ کھلا ہے جس کے ساتھ دو بر ج تعمیر کئے گئے ہیں ۔
داخلی راستہ قائمہ زاویہ پر مڑ کر مشرقی دیوار تک جاتا ہے اور اپنی چوڑائی کم کر تے کر تے 5فٹ تک چلا جاتا ہے ۔ایک چھوٹی مسجد 49×28.50مشرقی سمت میں واقع ہے نزدیک ہی ایک دوہری دیوار ہے جو 4.50فٹ محیط میں ہیں جس کے بعد ایک اور دیوار سے جو11فٹ محیط میں ہے شمال مغربی کو نے میں مغربی دیوار کے اوپر کمروں کی ایک قطار ہے دیوار کے باہر 130فٹ گہرا کنواں جو 10فٹ محیط کا ہے جس کی تعمیر پر 7.50×5.50×1سائز کی اینٹیں لگائی گئی ہیں ۔
جام گڑھ
یہپکی اینٹوں کا ایک خو بصورت قلعہ صحرائے چولستان میں ایستادہ ہے ۔ یہ قلعہ 1788ء میں جام خان معروفانی نے تعمیر کر ایا یہ مر بع شکل میں ہے جو ہر طرف سے 114فٹ ہے ۔ اس کی چار دیواری کی اونچائی 28فٹ تک ہے جس کے کناروں پر گول بر ج ہیں ۔ جو 31سے 35فٹ پر محیط ہیں اس کا داخلی محرابی راستہ ہے جو 9فٹ وسیع ہے جو مشرقی دیوار میں سے قلعہ کے اطراف میں مٹی کو دیواروں سے ساتھ لگایا گیا ہے ۔
قلعہ کنڈیرا
یہ قلعہ کچی اینٹوں سے بنایا گیا ہے جبکہ اس کا ماتھا اور دونوں اطراف پکی اینٹیں لگائی گئی ہیں یہ قلعہ فضل خان ولد بھکر خان بیر جان نے 1754ء میں تعمیر کیا جسے محمد بہاول خان دوم نے 1805 میں تباہ کیا ۔آج یہاں کچی اینٹوں کی ایک چار دیواری ہے جو مربع شکل میں ہے اس کی پیمائش 162فٹ ہر طرف سے بر جوں کی پیمشائش اسکے علاوہ ہے جو دونوں اطراف 21فٹ محیط میں ہیں جو برج شمال مشرقی اور جنوب مشرقی سمت میں ہیں ان کی بلندی 21فٹ تک ہے اس کی چار دیواری 8فٹ تک چوڑی ہے جو پکی اینٹوں کے علاوہ ہے جبکہ دوسر ے برج 2.50فٹ ہوتے ہیں جبکہ کچھ بر ج آج مو جود نہیں ہیں اس کی پختہ اینٹوں کا سائز 9x6x1.50ہے ۔قلعہ کے ارد گرد جنگلی پودوں کی افزائش سے عمارت کو مناسب نمی مل رہی ہے جس سے معلو م ہو تا ہے کہ یہاں کبھی میٹھا پانی تھا ۔
قلعہ خیر گڑھ
ضلع بہاول پور بھٹہ شیخاں کے جنوب مشرقی جانب 12میل کے فاصلہ پر خیر گڑھ قلعہ ہے ۔جسے اختیار خان نے 1775میں مٹی کی اینٹوں اور پکی اینٹوں سے تعمیر کرایا ۔ یہ قلعہ مر بع کی شکل کا ہے جو 170فٹ اندرونی شائیڈ سے اور اس کے بر ج ہشت پہلو ہیں اور مٹی کی اینٹوں کی چار دیواری جو اوپر سے 3فٹ چوڑی اور 24فٹ اونچی اور مزید 5فٹ پر وہ دیوار ہے اس کے برج 46فٹ محیط میں ہیں ۔ جس میں 1.50مو ٹی پکی ہوئی اینٹو ں کی دیوار بھی ہے جبکہ بر جوں کے اندر ونی اطراف چھت والے کمرے ہیں جو 19فٹ محیط کے ہیں ،جو اوپر جانے کا راستہ ہموار کر تے ہیں ۔ اس قلعہ کا دروازہ مشرقی دیوار میں نمایاں ہے ۔جبکہ داخلی دروازہ بر جوں کے درمیان ہے جہاں ایک دیوار احاطہ سے پہنچا جا سکتا ہے داخلی دروازہ 6فٹ کھلا ہے ۔جس کے اندرونی سمت دو مستطیل کمرے ہیں ۔قلعہ کے اندرونی جانب ایک چڑھائی دار راستہ قلعہ کی چھت تک جاتا ہے ۔یہاں چند کمرے تعمریر کئے گئے ہیں جو شمال اور مغربی دیوار کے ساتھ ہیں ۔ شمال مغربی کو نہ کے باہر ایک پرانا کنواںہے ۔ جس کی اینٹ کا سائز 95×6,15″ہے ۔
قلعہ خان گڑھ
یہ قلعہ نواب محمد بہاول خان دوم نے 1783ء میں تعمیر کیا جو مر بع شکل میں ہے ۔ جس کے ہر کو نہ میں قدرے گول بر ج تعمیر کئے گئے ہیں یہ ہر طرف سے 128مر بع فٹ ہے ۔ دیوار اور برج جو کچی اینٹوں سے تعمیر کئے گئے ہیں اور سامنے کے حصے پر پکی اینٹیں لگائی گئی ہیں جو اب گر چکی ہیں ۔ اب صرف نشان رہ گئے ہیں اس کی دیور 10فٹ چوڑی اور اپکی اینٹ کا سائز 8.50×6.1.50ہے ۔تیسرے شمال مغربی کونہ میں ایک مر بع مینار پکی اینٹوں سے بنایا گیا ہے اور جنوب مشرقی جانب سے 80فٹ کے فاصلہ پر اینٹوں کا بھٹہ ہے ۔
قلعہ لاتیرا
یہ قلعہ 1780 میں بزل خان نے بنوایا جسے سیلاب نے 1804ء میں تباہ کر دیا یہ مر بع شکل کا قلعہ کا ہے جو مٹی کی اینٹوں سے بنایا گیا ہے ۔ شمال سے جنو ب کی طرف 121جبکہ مشرق سے مغرب کی طر 112فٹ ہے اور اس کے درمیان برج استیادہ ہیں ۔
اب مشرقی دیوار کی مو ٹائی 8فٹ تک ہے جہاں ایک دروازہ بھی ہے اب یہا ں 24فٹ کا ایک راستہ ہے ۔ جو پکی اینٹوں سے بنایا گیا ہے ۔ جنوبی سمت والی دیوار جو 21فٹ اونچی ہے جبکہ اندرونی طر ف سے یہ 16فٹ اونچی ہے ۔ اس کے کناروں کے برج 42فٹ محیط کے ہیں اور 42فٹ سے بھی اونچے ہیں ماسوائے ایک کے ، جو جنوب مغربی سمت واقع ہے اور اب کھنڈر کی صورت میں ہے ۔ پردہ دیوار تک پہنچنے کے لئے 4فٹ کھلا محرابی راستہ ہے اور ان بر جوں میں جانے کے لیے 14×16فٹ کی سیڑھیاں ہیں ،یہاں کبھی دیوار بھی مو جود تھی ۔
قلعہ چکی
پکی اینٹوں سے بنا یہ قلعہ لال خان ولد اختیار خان کہرانی نے 1777ء میں بنوایا ۔ کو نے کے بر جوں کے درمیان اس کی پیمائش 125فٹ ہے جس کی دیوار 6فٹ چوڑی اور 18فٹ اونچی ہے اور کونو ں کے برج 42فٹ کے محیط ہیں اور 40فٹ اونچے ہیں ۔قلعے تک رسائی مشرقی دیوار سے مہیا کی گئی ہے ۔جہاں 19.50فٹ محیط کے برج بنائے گئے ہیں اور داخلی راستہ 8فٹ ہے ۔ جس کے کمرے مو جود ہیں ۔ کو نے والے برج تباہ ہو چکے ہیں ۔ جہاں 3فٹ چوڑے سیڑ ھیوں کے ایک راستے سے پہنچا جاسکتا ہے اوپر 15فٹ محیط کے کمرے مو جود ہیں ۔
قلعہ مروٹ
کسی وقت مروٹ ایک مصروف تجارتی ، کاروباری مر کز تھا ۔ جو ملتان اور دہلی کے درمیان واقع ہے جہاں سر سہ اور ہانسی عہد و سطٰی میںجاتا تھا قلعہ مروٹ کے مو جودہ کھنڈرات روایات کے مطابق اسلام سے قبل چتوڑکے حکمرانوں کے ماتحت تھا ۔ یہاں مذہبی عمارت کی بھر مار ہے جن میں منادر اور تراشیدہ ستون جو زرد ریتلے پتھر سے بنائے گئے جو اس وقت بہاو ل پور میوزیم کی زینت ہیں ۔
12ویں صدی عیسوی میں مروٹ نہ صرف تجارتی مر کز بلکہ فوجی نقطہ نگاہ سے بھی اک اہم چیک پوسٹ رہی اُچ کا حکمران ناصر الدین قباچہ کچھ عر صہ اس جگہ رکا ۔ 1250ء معروف مٔو رخ منہاج سراج بھی یہاںآیا ۔ اکبر ی دور میں 200گھڑ سوار اور 1000پیدل سپاہی مو جود تھے ۔ ابو الفضل کے مطابق 54560بیگھہ زمین اس قلعہ کے ماتحت تھی ۔ جس کی سالانہ آمدنی 204000سکہ تھی ۔ ایک چھوٹی مسجد20.26فٹ مو جود ہے جسے محمد طاہر نامی شخص نے بنوایا یہان فارسی مکتبہ موجود ہے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ مسجد اکبری زمانہ 976ھ1568/ ء میں بنائی جو اب تک مو جود ہے ۔
مروٹ قلعہ مختلف اوقات میں مختلف لو گوں کے پاس رہا ۔ نوابمبارک خان نے اسے جیسلمیر کے راجہ سے 18ویں صدی میں لیا ۔ 1842ء میں چارلس میسن نے اپنے سفر افغانستان اور پنجاب کے دوران مروٹ کو بھی دیکھا جو اُس وقت ایک اہم تجارتی مر کز تھا ۔ آھ یہ قلعہ کھنڈرات کی شکل میں ہے اور اس کا بیشتر حصہ ٹو ٹ پھوٹ کا شکار ہے یہ مربع شکل کا قلعہ ہے ۔جو جنوبی سمت 464فٹ اور 820فٹ مغربی سمت سے ہے اس کے دو موجود برج جنوب مغربی سمت اور شمال مشرقی سمت میںجو 30فٹ محیط کے ہیں اور مغربی سمت میں دیواروں کی اونچائی 89فٹ ہے اس کی بیرونی چار دیواری میں استعمال ہو نے والی اینٹوں کا سائز 12.50×8.2اور 8×51.4×11/4ہے ۔
قلعہ میر گڑھ
یہ قلعہ نور محمد خان ولد جان خان نے 1799ء میں بنایا جو 3سال کی قلیل مدت میں مکمل ہوا یہ شخص اُچ کے گیلان مخدوم کا شاگر د تھا جبکہ قلعہ کے دروازہ 1872ء کے کتبے سے ظاہر ہو تا ہے یہ قلعہ پکی اینٹوں سے جن کا سائز 9.50×6.1.50ہے یہ مر بع شکل کا قلعہ ہے جو ہر طرف سے 92فٹ ہے اور داخلی دروازہ کے دو برج ملا کر کل سات برج ہیں ۔ جن ک ا محیط 38فٹ ہے اور یہ 39فٹ اونچے ہیں ۔مشرقی سمت میں 9.50کا داخلی راستہ ہے جو 47فٹ تک ہے اور اس پر کمرے جن کی چھت گنبد کی طر ح تھا اس کے اردگرد ابھی بھی مٹی پڑی ہے ۔ قلعہ کے اندر ایک کنوان ہے جو اب بھر چکا ہے اور اس کے علاوہ قلعہ کے باہر 6کنویں مو جود ہیں جن میں میٹھا پانی مو جود ہے ۔
قلعہ موج گڑھ
قلعہ مو ج گڑھ 1743ء میں محمد معروف خان کہرانی نے بنایا ۔ اس کا مقبرہ مربع شکل میں ٹائیلوں سے مزین ہے جس کے اوپر گنبد ہے جوقلعہ سے 400گز جنوبکی طر ف واقع ہے قلعہ کی تعمیر معروف خان کے بیٹے اور جانشین جان محمد خان کے زمانہ 1757ء میں ہوئی ۔ لو ہے کے مضبوط ٹکڑے قلعہ کے دروازہ پر لگائے گئے تھے جن میں سے ایک پر قلعہ کی تاریخ بنا فارسی میں 1797 ء1212.ھ در ج ہے اور اس کے بنانے والے کانام سری رام لو ہار درج ہے یہ قلعہ الفٹس اور میسن نے بھی دیکھا ۔
آج قلعہ انتہائی مخدوش حالت میں ہے اور ماتھے پر لگی پکی اینٹیں اپنی جگہ چھوڑ چکی ہیں اور اس کا میڑیل مقامی لوگ اپنی تعمیرات میں لگا رہے ہیں جو مر بع شکل کے اس قلعہ کی پیمائش 238,312,325فٹ جنوبی مغربی اور شمالی سمت سے ایک کونہ سے دوسرے کو نہ تک ہے ۔ اس کے شمال مشرقی حصے میںایک ٹوبہ ہے جہاں سے مقامی لوگ پانی پیتے ہیں ۔ قلعہ کی دیوار کی مضبوطی کے لئے قدرے گول برج بنانے کے لیے ان میں سے آٹھ شمالاً جنوباً درواز ے کے برجوں کو چھوڑ کر بنائے گئے ہیں اسی طرح مغربی سمت کے بر ج دروازوں کے برج کو شامل کر کے آٹھ بنتے ہیں جو ان بر جوں کا محیط 40سے 48فٹ تک ہے ۔
مشرقی سمت 10فٹ کھلا ایک داخلی محرابی راستہ ہے جو 72فٹ لمبی ایک راہداری سے جڑا ہے جو قلعہ کی جنوب مشرقی سمت سے آتا ہے اس کے ساتھ بھی ایک مسجد 54.50×33فٹ کی ہے قلعہ کی اندرونی طرف چار دیواری گر چکی ہے جس سے اب مٹی کی اینٹیں نظر آتی ہیں ۔
قلعہ مرید
یہ قلعہ مر بع شکل میں ہے جو اندر سے 87فٹ ہے اور اس کے کونوں پر 4بر ج ہیں ۔جن کا محیط 18فٹ تک ہے اور اس کی دیواریں 7فٹ مو ٹی ہیں اور 8فٹ تک اونچائی میں ہیں ۔13فٹ کھلا داخلی راستہ جنوبی سمت سے قلعہ کے اندر جاتا ہے ۔یہ قلعہ حاجی خان ولد اختیار خان نے 1777ء میں بنایا ۔ جو سیلاب کی وجہ سے 1805ء میں تباہ ہوا ۔
قلعہ نواں کوٹ
یہ قلعہ دریائے ہاکڑہ کی گز ر گاہ پر واقع ہے جا ابھی کچھ اصل حالت میں ہے ۔ قلعہ مٹی کی اینٹوں سے بنایا گیا جس کے چاروں کونوں پر مینار بنائے گئے ۔ باہر سے 156فٹ برجوں کے اندر ہے جس کی دیواریں 10فٹ چوڑی اور اس کے اوپر پردہ دیوار ہے ۔ جو ایک فٹ چوڑی ہے کو نے کے برج 45فٹ محیط کے ہیںجو 16.50فٹ محیط کے کمروں پر مشتمل ہیں ۔ پانچ کمروں کی قطار قلعہ کے وسط میں مغربی دیوار کے قریب تعمیر کی گئی ہیں ۔
شمال کی جانب سے 10فٹ واسیع داخلی دروازہ ہے جوسپا ئیوں جے لئے ہے اور پکی اینٹو ں سے تعمیر کیا گیا ہے یہاں قلعہ کے اردگرد ایک بیرونی دیوار بھی ہے جو 225فٹ دور تھی ۔ جس کے آثار اب بھی نظر آتے ہیں ۔
قلعہ پھلرا
قلعہ پھلرا کے آثار فورٹ عباس سے جنوب کی سمت ایک میل کے فاصلہ پر ہیں ۔ فورٹ عباس اسی قلعہ کے میٹریل سے بنایا گیا ہے ۔ اب پرانے قلعہ کا وہاں کچھ نہیں بچا ۔ یہ قلعہ روایتی طور پر لاکھ پھلائی سے منسوب کیا گیا ہے ۔ جبکہ ایک مٹی کی عمومی دیوار جو موجودہ کھنڈرات سے شمال مشرق سمت جاتی ہے ۔پھلر ا قلعہ کی نشاندہی ہو سکتی ہے ۔ مو جودہ حالت انتہائی مخدوش ہے ۔کہاجاتا ہے کہ اس کی تعمیر کرم خان اربانی ولد قاسم خان قائم پور والے کے دور میں 1752ء میں ہوئی ۔ یہ قلعہ مر بع شکل میں ہے ۔ جس کے کونوں پر برج ہیں جو شمالی سمت میں ہیں وہ ہشت پہلو بر ج میں شمال مشرق سمت کے کو نوں میں تباہ شدہ 3منزلہ محلات کے آثار ہیں ۔ جن پر اب بھی لکڑی کا کام بچا ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ اینٹوں کا ایک پختہ مینار ہے جو اچھی حالت میں ہے ۔
قلعہ ہڑند
تاریخی قلعہ ہڑند ضلع ڈیر ہ غازی خان میں قصبہ جام پو رکے مغرب میں 58کلو میٹر پر کو ہ ِ سلیمان کے دامن میں واقع ہے۔ پنجاب کے جنوب مغربی سر حد کے ساتھ اس سلسلہ پ رتین مشہور گز ر گاہیں چاچر، کاہا ، در گاہیں ہیں ۔یہ علاقہ بہت زر خیز ہے جسے کاہا نہ رسیراب کر تی ہے ۔ اس کے علاوہ واحد مشہور پانی کا ذریعہ ندی ہے جو کہ سندھ اور کو ہ ِسلیمان کے درمیان تونسہ سے سندھ کے بارڈر پر بہتا ہے ۔
یہ قلعہ بڑے ٹیلے پر بنایا گیا ہے جو کبھی نامعلوم لوگوں کی رہائش گاہ تھی ۔ مقامی لوگ اس قدیم جگہ کو یو نانی ، تباہ کاری سے ملاتے ہیں اور اسی لئے اس کا نام ہاری سے لیا گیا ہے جو کہ سکندر اعظم کا غلام تھا ۔ مقامی روایات کے مطابق اس قلعہ کی تعمیر کا حکم بادشاہ جہانگیر نے دیا تھا اور قلعہ کا موجودہ ڈھانچی قدیم مغل دور کی عکاسی کر تا ہے ۔ اس علاقہ کے بر طانوی ڈپٹی کمشنر سنڈیمین کو ایک مر تبہ درکھان سے کتبے ملے ۔ جن پر شہنشاہ ِ جہانگیر کے قیام کے بارے میں لکھاہوا تھا کہ اس نے دہلی سے قندھار جاتے ہوئے یہاں پر نماز ادا کی تھی ۔
مسٹر بروش ہڑند قلعہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ صدیوں پہلے جب مسلمانوں نے پہلا حملہ کیا تھا تو اسی وقت صرف تین قصبے ہڑند ، مادی اور ایسی تھے ۔
ہڑند کا قصبہ ملتان کے راجہ ہر نکس وائٹ کے پاس تھا جب وہ مرا تو اس کا بیٹا پارلڈتخت نشین ہوا جس کا مزار ملتان میں آج بھی ہے ۔ اٹھارویں صدی کے وسط میں ہڑند اور اس کے ارد گرد کے علاقے میں گو رجانی اور بٹی لنڈ قبائل آباد تھے ۔ تیمور شاہ درانی نے 1758ء میں یہ قلعہ ناصر خان بروہی خان آف قلات کو دے دیا ۔ یہ اُسی وقت تک اسی کے پاس رہا جب تک نواب بہاو لپو رنے 1827ء میں یہ قلعہ سکھوں کو سونپ دیا ۔ 1836ء میں ساون سے مل کر اِسے دوبارہ تعمیر کر وایا ۔ 1849ء میں سکھوں کی شکست کے بعد قلعہ پر بر طانیہ نے قبضہ کر لیا ۔ 1867ء کو قلعہ پر بگٹی قبیلہ نے حملہ کیا جو کیا گو رجانی اور بٹی لنڈ قبیلہ نے بڑٰ فوج کے ذریعے اُن کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی ۔ یہ قلعہ شاہکار ہے قدرے بیضوی ہے ۔ جس کی پیمائش مشرق مغرب کی طرف 350میٹ اور شمال جنوب کی طر ف 310میٹ ہے ۔ یہ پکی اینٹوں سے بنایا گیا ہے ۔اینٹ کا سائز 9x6x11/4کی چوڑائی 7فٹ ہے اور پھر اسی کو بر جوں سے اور زیادہ مضبو ط کیا گیا ہے ۔ بر ج کے نو کو نے ہیں جب پر تو پیں رکھنے کی جگہ ہے ۔ قلعے کے صرف دو داخلی درواز ے ہیں ۔
بڑا داخلی درواز ہ مشرق میں اور دوسرا مغرب میں ہے ۔ سامنے والی دفاعی دیوار کی مو جودہ بلندی 22فٹ ہے ۔ دوسری طرف دروازہ تراشی اینٹوں سے بنایا گیا ہے ۔ جس کے دو گنبد اور سامنے سے چو کور ہے ۔
قلعے کے اند ر پرانی پہاڑی ہے جس کی بلندی 20سے25فٹ ہے ۔ساتھ والی زمین سے پہاڑی دفاعی دیوار کے اندر نہیں آتی بلکہ قلعہ کی مقامی آبادی نے قلعہ کی اینٹوں سے بھی اپنے گھر تعمیر کئے ہیں قلعہ کے اندر ایک قدیم ٹیلہ 20×25فٹ کا ہے ۔ یہ ٹیلہ صرف قلعہ کی چار دیواری تک ہی محدود نہیں بلکہ شمالی مشرقی طرف سے قلعہ کے باہر تک نکل گیا ہے اسر اس کا بڑا حصہ کسانوں کو زراعت کے لئے کرائے پر دیا ہے ۔ اس ٹیلہ پر بڑی تعداد میں ٹھیکر یاں پائی جاتی ہیں ۔
٭٭٭
حوالہ جات:
1۔ دی ہسٹری آ ف بہاول پور ، شہامیت علی ، سنگِ میل پبلشرز لاہور ، 2012ء
2۔ بہاول پور ، ہسٹری اینڈ آرکی ٹیکچر ، میجر جنرل شیزڈر ، آکسفورڈ پریس لاہور ،2007ء
3۔ ریاست بہاول پور ، یاسر جواد ، گزیٹر آف بہاول پور 1904ء ،الفیصل ناشران لاہور ، 2013ء
4۔ چولستان ٹو بہاول پور ، احسان ایچ ندیم ، سنگِ میل پبلشرز لاہور ، 2009ء
5۔ گزیٹر آف بہاول پور 1904ء، ملک محمد دین ، الفصیل ناشران لاہور
6۔ بہاول پور میں معاشرہ اور ثقافت ، نوشابہ سمیع ، ایورنیو بک پیلس لاہور 2010ء
7۔ دی پرنسلی اسٹیٹ آف بہاول پور ، زینب جاوید ،ہلال اُردو ، 2019ء
8۔ دی امیریٹ آف بہاول پور ، کیپٹن یو اے جی ، سید عابد حسین
9۔ تاریخ ِ فورٹ عباس ، غریب اللہ غازی ، اظہار سنز لاہور ، 2004ء
٭٭٭
محمد یوسف وحید
مدیر: شعوروادراک ( خان پور)
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔