فارم پنتالیس ، چھیالیس اور سنتالیس “ جمہوری تماشا یا جنتا کا حق”

فارم پنتالیس ، چھیالیس اور سنتالیس “ جمہوری تماشا یا جنتا کا حق”


تحریر/چوہدری زاہد شکور
جمہوریت کیا ہے؟ ایک ایسا سراب جس کے پیچھے ہم بھاگتے رہتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ یہ ہمیں انصاف، حقوق اور خوشحال مستقبل دے گا۔ مگر افسوس، حقیقت میں تو جمہوریت کا یہ خواب پاکستان جیسے ملکوں میں صرف کتابی بات بن کر رہ گیا ہے۔ اور انتخابات ہمارے یہاں بس ایک شوشہ بن گئے ہیں۔ فارم ۴۵، ۴۶ اور ۴۷ جیسے موٹے نمبروں والے کاغذات کا کھیل ہماری جمہوریت کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں۔
یہ ساری باتیں لکھنے سے پہلے کچھ ریفرنسز پیشِ خدمت ہیں جنکی وجہ سے میں اپنی بات آپ تک پہچانے کی جسارت کر رہا ہوں۔ ان میں

ریفرنس نمبر 1. الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کی ویب سائٹ پر فارم ۴۵، ۴۶ اور ۴۷ کے متعلق مکمل معلومات دستیاب ہیں۔جہاں سے آپ کو ان فارمز کی افادیت کا پتہ چلتا ہے۔
ریفرنس نمبر 2. دی ڈان اخبار میں شائع شدہ مختلف آرٹیکلز پڑھیں جو پاکستان میں انتخابات اور سیاسی نظام کی خامیوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔
ریفرنس نمبر 3. بریویر آف ڈیموکریسی” از جان ڈن،یہ کتاب جمہوریت کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے اور جان ڈن کی عمیق تحقیق کا نتیجہ ہے اس کتاب میں جان ڈن قدیم یونان سے شروع ہونے والی جمہوری نظام کی تاریخ بیان کرتے ہیں جس میں جمہوریت کے فوائد، (جیسے کے عوام کی شمولیت)، اور اس کے ممکنہ مسائل، (جیسے پولیٹکل انسٹیبلٹی)۔بات لمبی ہو جائے گی مدعے پہ آتے ہوئے فارم ۴۵ کی بات کریں تو بنیادی طور پر یہ وہ فارم ہوتا ہے جس پر پولنگ افسران ہر پولنگ اسٹیشن کی تفصیلات لکھتے ہیں، یعنی کتنے ووٹ ڈالے گئے اور کس کو کتنے ملے۔ یہ فارم مہر لگا کر باقاعدہ طور پر جاری کیا جاتا ہے۔

فارم پنتالیس ، چھیالیس اور سنتالیس “ جمہوری تماشا یا جنتا کا حق”

اب اگر فارم ۴۵ ہمارے انتخابات کی سچائی کی عکاسی کرتا ہے، تو فارم ۴۶ اور ۴۷ کشمیر کی خوبصورتی کی مانند خوابیدہ ہوتے ہیں، جنہیں نظر انداز کرنا بھول جائیں ۔ فارم ۴۶ ریٹرننگ افسر کے ذریعہ تصدیق کیا جاتا ہے اور فارم ۴۷ پر مجموعی نتائج شائع کیے جاتے ہیں۔ مگر افسوس، ان فارمز کا حشر بھی وہی ہوتا ہے جو کسی غیر ضروری دستاویز کا۔

پاکستان میں جمہوریت کا عالم شاید سب سے بڑا مذاق ہے۔ جسطرح مظفر آباد کی سوغاتیں یا لاہور کی فلودے والی فائل مشہور ہیں، (“لاہور کی فلودے والی فائل” ایک وائس میمو ہے جو 2005 کے زلزلے کے دوران میڈیا کی دلچسپ رپورٹنگ پر طنز کرتی ہے۔ وائس میمو ایک رپورٹر کے کردار میں بنا گیا ہے جو ایک خاص “فلودے والی” خاتون کی داستان سناتا ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو ہنسانا ہے اور میڈیا کی عجیب و خاص رپورٹنگ سٹائل پر روشنی ڈالنا ہے۔ یہ میمو سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر بے حد مقبول ہوا۔)اسی طرح یہاں جمہوریت کی سوغاتیں بھی ہیں۔ ایک اور دلچسپ بات یہ کہ بہت سے لوگوں کی روزی روٹی، اور پورے پورے خاندانوں کی معیشت، اسی سیاسی تماشے کے بل بوتے پر چلتی ہے۔

اب مثال کے طور پر مقرر کی گئی کہ آدھی رات کو فارم ۴۵ کے غائب ہونے کی خبریں، یا پھر فارم ۴۶ پر بے شمار دستخط، کبھی سوچا ہے کہ یہ دستخط اتنے ضروری ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ پولنگ بوتھ کے بجائے شادی کے دعوت نامے پہ دستخط کر رہے ہیں۔

دوستو، یہاں مسئلہ صرف فارم اور الیکشن کا نہیں، بلکہ یہاں مسئلہ اس سسٹم کا ہے جو خانوادوں کی کرپشن اور بد عنوانیوں کو چھوڑ کر عام عوام کی سنوائی میں ناکامی کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا نظام ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو جمہوریت کو فقط نام کی جمہوریت سمجھتے ہیں اور اسی نام کے بل بوتے پر اپنی سیاست کرتے ہیں۔

جمہوری نظام کی ان خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے، ہم ایک اور حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ یہاں بنیادی تبدیلی اس وقت ممکن ہوگی جب عام عوام خواب خرگوش سے بیدار ہو اور ان مسائل کا سامنا کریں۔

آخر میں، ہمیں سمجھنا ہوگا کہ فارم ۴۵، فارم ۴۶ اور فارم ۴۷ جیسے کاغذی شہکار صرف وہ آئینہ ہوتے ہیں جس میں ہماری جمہوریت کا اصل چہرہ نظر آتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم ملک کی حقیقی جمہوریت کی تلاش کریں ورنہ ہمیں آئینے میں بس وہی پرانا چہرہ دیکھنے کو ملے گا۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

تعلیم یا جہالت

جمعہ ستمبر 27 , 2024
تعلیم یا علم جیسے جیسے بڑھتا جاتا ہے، انسان میں ویسے ویسے عاجزی کا مادہ بھی بڑھتا جاتا ہے
تعلیم یا جہالت

مزید دلچسپ تحریریں