از قلم
بینش احمد اٹک
پاکستان ہمارے آباؤاجداد کی بے تحاشا قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ آج جس طرح ہم اپنے پیارے وطن میں آزادی سے سانس لے رہے ہیں اس آزادی کے لئے ہمارے بزرگوں نے بہت کچھ سہا ہے- سر کٹائے ، جاگیریں نیلام ہوئیں، لاکھوں بچے یتیم ہوئے، لاکھوں عورتیں بیوہ ہوئیں-خاندان کے خاندان دُنیا سے مٹ گئے صرف اور صرف دنیا کے نقشے پر اس پاک وطن کو لانے کےلئے۔ لیکن جو حال آج ہمارے مُلک کا ہے اگر اب قائد زندہ ہوتے اور دیکھتے تو بہت غمگین ہوتے-
سیاست اپنی جگہ ہے لیکن ہمیں پاکستانی ہونے کے ناطے سب سے پہلے اپنے ملک کا سوچنا چاہیے- سیاست دان ہوں یا عوام، سب کو پاکستان کے بارے میں اپنی ذات سے بالاتر ہو کر سوچنا ہوگا. لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں سیاست ملکی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد پر کی جاتی ہے۔ ہر کوئی اپنے ذاتی مفاد کے لئے کام کر رہا ہے- ہر کوئی اسی ٹوہ میں رہتا ہے کہ کس طرح اپنا فائدہ نکالیں مُلک جائے بھاڑ میں- مُلک کی تو کسی کو پرواہ ہی نہیں ہے- سیاسی بُت پرستی میں لوگ اِس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ آئے روز مُلک میں مار دھاڑ، ہڑتالیں، قتل و غارت ہو رہی ہوتی ہے- خاندانوں کے خاندان سیاسی مخالفت میں ایک دوسرے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتے ہیں-
پاکستان میں سیاسی تلخی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ دو دوستوں کے بیچ اگر سیاست پر بحث چِھڑ جائے تو وہ چند ہی لمحوں میں ایک دوسرے کو مارنے کے درپے ہو جائیں گے- اِن سب چیزوں میں نقصان ہو رہا ہے تو صرف ہمارے مُلک کا-
اللہ تعالی ہمارے ملک کو ایسے سیاستدانوں کے شر سے محفوظ فرمائے جن کو اپنی ذات کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا، ہم ان کی اندھی تقلید میں ملک کو نقصان پہنچائے جا رہے ہیں ۔ جب تک مُلک سے یہ سیاسی پیچیدگیاں اور لڑائیاں ختم نہیں ہوں گی تب تک ہمارے مُلک میں امن و سکون قائم نہیں رہے گا- ہمیں سب سے پہلے پاکستان کا سوچنا چاہیے نہ کہ ان سیاسی بتوں کے بارے میں سوچنا چاہیے جو ہمارے اس پیارے مُلک کو گِدھوں کی طرح نوچتے جا رہے ہیں-
ہمیں چاہیے کہ پاکستان کی قدر کریں اور تمام ترجیحات کو ایک طرف رکھ کر سب سے پہلے اپنے مُلک کا سوچیں-پاکستان کوئی معمولی ریاست نہیں ہے۔ یہ دنیائے اسلام کا وہ واحد ملک ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کےلئے نہ صرف آواز اٹھاتا ہے بلکہ جو ممکن ہو، کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔