پھول سے لپٹی آگ کا شاعر
(بلا تامل، شاہد اعوان)
شاعر عام آدمی سے مختلف، منفرد اور حساس انسان ہوتا ہے اور یہ اختلاف اس کی تخیلاتی صلاحیتوں کی وجہ سے رونما ہوتا ہے وہ مناظر جنہیں عام آنکھ کے نزدیک اکثر اوقات درخو اعتنا نہیں سمجھا جاتا ہے شاعر کے لئے بدلتی، بگڑتی، بنتی اور سنورتی ہوئی نئی دنیائوں کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں ۔ انسان کے اندر احساس کی پرتیں کھلتی اور لمحہ بہ لحہ اپنی ہیئت تبدیل کرتی رہتی ہیں اور احساس کی یہی پرتیں کائنات کے نئے نئے جہاں آشکار کرتی چلی جاتی ہیں اسی لئے علامہ اقبالؒ ’دما دم صدائے کن فیکون‘ کی صدائوں کی سماعتوں کا برملا اظہار کرتے ہیں ۔ شاعری جہاں کائنات کے حسین مناظر کے ساتھ باہم وارد ہوتی ہے وہاں انسان کے شخصی جواہر کائناتی مناظر سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ اس بات کو دوسرے زاویے سے یوں کہا جا سکتا ہے کہ طبیعاتی اور مابعد طبیعاتی عناصر ایک دوسرے میں ورود کرتے ہی یا پھر ایک زاویے سے یوں کہہ لیجئے کہ مادی اشیاء اپنے جواہر میں ظہور پذیر ہوتی نظر آتی ہیں ان مناظر کی ظہور پذیری فکری سطح پر ایک برتر اظہاریہ میں ڈھل کر داخل و خارج کو باہم یکجا کر دیتی ہے ۔ مذکورہ اسلوب میں ملکہ ہمارے بینکار دوست خالد محمود ملک کے حصے میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ملک خالد کے ساتھ ایک عرصہ سے تعلق اور احترام کا رشتہ تو پہلے سے موجود تھا مگر ان کے اندر کی حساسیت اور ادب پروری کا راز اس وقت کھلا جب ان کی شاعری کی کتاب ’’پھول سے لپٹی آگ‘‘ میرے سامنے آئی ان کی کتاب کی خوشبو چار وانگ عالم پھیلی اور رنگوں نے بقائے دوام سے آنکھوں کو تراوت بخشی تو آبِ حیات اس پر شبنم بن کر برسا۔ منیرؔ نیازی کہاکرتے تھے ’’جس غزل پر ہم قلم اٹھائیں اس زمین پر کون قدم رکھ سکتا ہے! ‘‘ خالد محمود ہر گز ایسا کوئی دعویٰ نہیں کرتے وہ خاموش طبع اور مرنجاں مرنج انسان واقع ہوئے ہیں تاہم ان کی شاعری عہد حاضر کے بیشتر ’’شعراء‘‘ سے بہت آگے ہے۔ بقول شاعر
یاں کے آنے کا مقرر قاصد وہ دن کرے
جو تو مانگے گا وہی دوں گا، خدا وہ دن کرے
سودوزیاں کے پیشہ سے منسلک ہمارے اور بھی دوست ہیں ان میں راجہ بشارت علی بھی ہیں جو نیشنل بنک سے ایک سینئر عہدے سے فراغت پا کر آج کل گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں وہ بھی شعرو ادب کے خوب دلدادہ ہیں اور اب بھی اپنا ’’رانجھا‘‘ راضی کرنے کے لئے شغل کی کوئی نہ کوئی سبیل نکال ہی لیتے ہیں۔ اسی طرح خوبصورت علاقہ خان پور سے تعلق رکھنے والے ہمارے بینکار دوست راجہ عارف زمان اکثر کہا کرتے تھے کہ بنک میں کام کرنے والا جب دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور اس کے نماز جنازہ کا اعلان کیا جاتا ہے تو لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ مرنے والا شخص کون تھا ؟؟؟ وہ کہتے کہ بینکار کے دن رات تو بنک کی چار دیواری ہی میں بسر ہو جاتے ہیں ، بلکہ زندہ دل راجہ صاحب یوں کہا کرتے کہ بنک والوں کو تو ان کے بچے بھی نہیں پہچانتے کہ ان کی گھر آمد اور رخصت کے اوقات میں بچے سو رہے ہوتے ہیں۔ سو اس قدر مصروف اور اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں غرق ملازمت سے وابستہ ہونے کے باوجود خالد محمود نے حیرت انگیز طور پر اپنے اندر کے حساس انسان کو بہرحال زندہ رکھا ہوا ہے اور قدرت سے ودیعت کردہ اظہارِ سخن کو کبھی ماند نہ پڑنے دیا ہے بلکہ اپنی شعری تخلیق ’’پھول سے لپٹی آگ‘‘ کومنظر عام پر لا کر جہاں انہوں نے اپنے بنک کے دوستوں کو ورطہ حیرت میں ڈالا ہے وہاں بینک صارفین بھی موصوف کی اس ’’حرکت ‘‘ پر خوشگوار حیرت میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔ خالد محمود نے کتاب کا انتساب اپنے والد مرحوم محمد اسلم خان کے نام کیا ہے جو شعبہ تعلیم میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصہ’عقیدت‘ میں دعا، حمد، نعت اور منقبت سے آغاز کیا گیا ہے، دوسرا حصہ ’غزلیات‘ 52غزلوں پر مشتمل ہے جبکہ آخری حصہ ’نظمیں‘ کے زیر عنوان 20نظموں کا مجموعہ ہے۔ قارئین کے ذوقِ سخن کے لئے شعری مجموعہ میں سے چند اشعار پیش خد مت ہیں:
؎ رنگ محفل کا بے مزہ ہے کیا؟
شہر سے وہ چلا ہے کیا؟
شہر میں ڈاکو دندنا رہے ہیں
کوتوال ان سے مل گیا ہے کیا؟
؎ نہیں خوف تاریکیوں کا مجھے اب
مرے دل کی دنیا کے تم چاند ہو نا!
؎ تیرگی چھوتی ہے جب احساس کو
اپنی لو میں جلنے لگتے ہیں چراغ
میں نے چھیڑی ہی نہیں بات تمہاری ورنہ
کہکشاں ٹوٹ کے گرتی مرے ویرانے میں
؎ ہاں ترے عشق نے مشکل مری آساں کر دی
راستے خود ہی نکل آئے ہیں صحرائوں میں
اسی غزل میں ماں کے حوالے سے کیا لازوال شعر کہتے ہیں:
رہ کے خود دھوپ میں رکھتی ہے ہمیں چھائوں میں
کس قدر حوصلہ رکھتا ہے خدا مائوں میں
ایک اور غزل میں ان کا اندازِسخن دیکھئے:
کس کی مجال کون ترے دل میں گھر کرے
مارے ہیں تیر تیرے یہ نیناں بھرے بھرے
اسی غزل میں خالد محمودؔ اپنی فطری خاموشی کا جواز یوں پیش کرتے ہیں:
فطرت میں خامشی ہے مری شاید اس لئے
ہنگامہ و ہجوم سے رہتا ہوں میں پرے
مولا علی کرم اللہ وجہہ کا منظوم قول یوں بیان کرتے ہیں:
وقت اے جان سب کو ملتا ہے
اپنے حالات کے بدلنے کو
ہاں مگر زندگی نہیں ملتی
اپنے اوقات کے بدلنے کو
امام عالی مقام سیدنا امام حسینؑ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں:
اقلیمِ کائنات کا قالب حسینؑ ہے
مغلوب ہے یزید تو غالب حسینؑ ہے
چند روز قبل ملک خالد محمود ؔ کی کتاب کی تقریب پذیرائی واہ کینٹ کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی جس کا اہتمام واہ کینٹ کے ہمارے ایک ادب نواز دوست اور تقریبات کی جان عابد حسین کی تنظیم ’پاکستان یوتھ لیگ‘، جن کی شرارتی آنکھوں اور دورانِ گفتگو برجستہ چٹکلے حاضرین خوب مزے لے کر سنتے ہیں۔ ’قندیل‘ کے علائوالدین اور ’پاکستان نیشنل سرکل‘ کے جاوید مرزا بھی اس تقریب کے انعقاد میں عابد حسین کے معاون تھے اور دونوں صاحبان خود بھی واہ کے ادبی حلقوں میں خاصے معروف و سرگرم ہیں۔ تقریب کی صدارت ایوارڈ یافتہ ڈرامہ نویس، استاد و شاعر پروفیسر فضل حسین صمیم نے کی جبکہ مہمانانِ خاص میں ڈاکٹر عارف فرہاد، ڈاکٹر شیر علی اور فرحین چوہدری کے علاوہ دیگر نمایاں شخصیات میں ماہر آثار شناسی راجہ نور محمد نظامی، شاعر ہاشم ہمدم، شفیق شہزاد، شاہد سلیم، شفقت حیات شفق ، ممتاز کالم نگار ملک نجیب الرحمٰن ارشد، راجہ اعجاز گوہر شامل تھے۔ ایک عرصے بعد اتنی خوبصورت ادبی محفل میں شرکت کا موقع ملا اور خوب لطف اٹھایا۔ آخر میں صاحبِ کتاب کی جانب سے شرکائے محفل کو پرتکلف عشائیہ کا خصوصی اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔