عاصم بخاری سے پہلی ملاقات ہی ان کی شخصیت سے محبت کا باعث بنی۔اردوادب سے ان کی محبت قابلِ صد رشک ہے۔جہاں ان کامطالعہ وسیع ہے وہاں ان کی تخلیقی صلاحیتیں بھی گاہے گاہے منظرِ عام پہ آتی رہتی ہیں۔اب میرے سامنے ان کی کتاب”فردیاتِ عاصم بخاری” ہے۔فردیات کا مطالعہ کرنے پر یہ بات اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ انھوں نے سادہ بیانی اور سہل الممتنع کو مدِ نظر رکھا ہے۔پیچیدہ اور گنجلک انداز بیاں سے کوسوں دور ہیں۔ان کی شاعری خال و خدِ محبوب کی تازہ کاری نہیں ہے بل کہ سماج کےبدلتے رنگوں کی عکاس بھی ہے اور جذبات کی بے کلی اور احساس کی کمیابی کا نوحہ بھی۔اس لیے اسے روایتی اندازِ تکلم نہیں کہ سکتے۔محبت کا تعلق محبوب سے نہیں ہے،بل کہ محبت کو ایک آفاقی رنگ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔عاصم کسی خاص نظریے کے اسیر نہیں ہیں اس لیے ان پہ کسی قسم کی مہر نہیں لگائی جاسکتی۔پہلا شعر جو مجھے بھاگیا اس میں دھرتی اور احساس کا امتزاج ہے۔لیکن اس میں ایک طرح کی کسک ہے جو گنجان آبادی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے
نہیں پہچان اب اک دوسرے کی
مراگاؤں ترقی کرگیا ہے
ادب اور خاص طور پراردو سے محبت ہر پاکستانی کرتا ہے۔اس میں ہمارے ادیب اور شعرا سرِفہرست ہیں۔مگراردو سے کمزرو ہوتا ہوا ناتا ادیب اور شاعر کو حساس کرتا ہے،اس لیے عاصم کہتے ہیں
قومی زبان دیس کی ہونے کے باوجود
اردو کو آج بھی ہے ضرورت رواج کی
رویوں کی بات کی جائے تو ہمارا انداز فکر یک رخا ہوتا ہےاور ہم دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔مگر اس کے برعکس شاعر نے کہا ہے
محسوس ہوں عاصم رویے دوسروں کے ترش تو
غورکچھ اپنے رویوں پر بھی کرنا چاہیے
موت اور زندگی کو دیکھنے اور سمجھنے کا انداز ہر کسی کا اپنا ہے۔عاصم کا انداز تلمیحاتی بھی ہے اور پاکیزہ بھی۔زندگی کو کربلا سے منسوب کردیا جو اہل بیت سے محبت کا بھی ایک اندازہے۔
موت کا مفہوم بھی میری سمجھ میں آگیا
کربلا سے میں نے پایا ہے سراغِ زندگی
اشعار میں تضاد کے ذریعے حقیقت کو بیان کرنا ان کے کلام کا خاصہ ہے۔
کہیں رشتے ہیں عاصم مسئلہ تو
کہیں رشتوں کا عاصم مسئلہ ہے
کار والوں کی تو قسمت میں یہ سعادت نہ تھی
کام آیا باپ کے بے کار بیٹا ہی فقط
(کار اور بے کار نے جہاں تضاد کو نمایاں کیا ہے،وہیں دولت مند اولاد پہ طنز بھی ہے)
بیچ رہا ہے گردہ کوئی گھر کی خاطر
اور کوئی گردہ کی خاطر گھر عاصم
(یہاں بھی تضاد سے طبقاتی نظام کی مجبوریوں اور تن آسانیوں کو بیان کیا گیا ہے۔یہاں امالہ(گردہ کی بجائے گردے) کیا جاتا تو بہتر تھا۔۔بہ ہرحال خیال سے اختلاف ممکن نہیں۔بہت خوب کہا گیا ہے۔)
دھرتی سے قربت ہندی روایت ہے۔اجتماع،میلا ٹھیلا،محفلیں اس کا خاص نمایاں وصف ہیں جس کا ذکر بخاری صاحب نے کیا ہے۔یہ سب دیہاتی ماحول میں مل جاتا ہے۔
ابھی مہمان کی آمد پہ خوش ہوتے ہیں یہ سارے
تمھارے گاؤں میں عاصم ابھی اخلاص باقی ہے
ابھی لوگ مل بیٹھتے ہیں یہاں
ابھی تک ہیں آباد،یاں بیٹھکیں
سچ کہنا ہردور میں مشکل تھا،اب تو میڈیا اسے فورًا منظر عام پہ لے آتا ہے۔اس لیے اب مزید مشکل ہے۔شاعر نے اس کی عکاسی یوں کی ہے
روشن دن کو چوراہے میں قتل اسے ہونا ہی تھا
بات وہ انسانیت کی کرتا تھاعاصم،مجرم تھا
ہرخطے کا اپنا حسن وجمال ہوتا ہے۔میانوالی کے لوگ گورے چٹے اور بلند قامت ہوتے ہیں۔اسی کا اظہار شاعر نے یوں کیا ہے
جن کو دیکھ کے خوش ہوتا ہےہراک کا دل عاصم
قد آورو سرخ وسفید میانوالی کے گبھرو
فطرت کا قرب ہی ہمیں فطرت کے حسن سے آشنا کرتا اور محظوظ ہونے کا موقع عطا کرتا ہے۔مگر یہ دیہاتوں سے مخصوص ہے۔
یادآتی ہے بوکائن اور شہتوتوں کی چھاؤں
شہر کے اے سی کمروں میں بھول نہ پاؤں گاؤں
آپا دھاپی کے اس دور میں نظریۂ ضرورت کو مشکل کشا سمجھا جاتا ہے،جو ہماری روایت کے برعکس ہے، اس روایت سے بیگانگی عروج پہ ہے
تمھیں یاد آنا،کہیں نہ کہیں پر،کسی نہ کسی کا
اسی کو تو کہتے ہیں سماجی ضرورت
(اس شعر کا دوسرا پہلو عمرانیاتی ہے کہ انسان تفاعل(interaction)کے بغیر نہیں رہ سکتا۔سماج یا اجتماع ہی انسان کی بنیادی ضرورت کی طرح ہے۔تنہا رہنا ناممکنات میں سے ہے۔ورنہ عمرانیات کی رو سے عدم مطابقت(maladjusment)ہی مقدر ہوتی ہےجو دھیرے دھیرے موت پر منتج ہوتی ہے۔)
آتا ہےجس کے گھر سے ہمیں روزِ عید گوشت
ہم بھی فقط اسی ہی کے گھر بھیجتے ہیں گوشت
کچھ روایات بری بھی ہوتی ہیں۔یہ اجتماعات اور معاشروں کا رخِ تاریک ہوتا ہے۔اس کی مثال صرف عورت کو ہی گناہ گار تصور کرنا ہے۔اس کےڈانڈے عرب کے عہدِ جاہلیت سے بھی ملتے ہیں اور ہندوستانی روایت سے بھی۔
بیٹے کو قتل کرتا نہیں کوئی کس لیے
بیٹی ہی قتل ہوتی ہے غیرت کے نام پر
جمالیات انسانی ضرورت ہے،مگر آج کے کمرشل دور میں اس ضرورت کو کو ئی نیا رنگ دیا گیا ہے جو مشرقی روایات کےبرعکس ہے۔
اور بڑھا دیتے ہیں عاصم عریانی
آج کے ملبوسات نہ جانے کیسے ہیں
تخلیق کا تعلق الہام سے ہے،جسے امروز و فردا کے پیمانوں سے نہیں ناپا جاتا۔یہ کیفیت اِس ناسوتی دنیا سے ماورا ہوتی ہے۔یہ دماغ کے اس تعدد کی حامل ہوتی ہے جو جیتی جاگتی دنیا میں نہیں ہوتا۔اور نہ انسانی جذبات و احساسات کو سائنسی انداز میں حتمی طور پر پرکھا جا سکتا ہے۔اگر انسان جذبات سے عاری ہوجائے تواسے زندگی نہیں کہتے
الہامی کیفیت طاری ہوتو شعر ہوجاتا ہے
آمد وآورد کیا ہے،یہ مجھے تو معلوم نہیں
اسکیل سے نہ ناپتے عاصم شہر کے لوگ
انسان کو وہ ناپتے انسانیت سے اے کاش!
بڑھ چڑھ کے فیس بک پہ منانا ہے ماں کا دن
کس حال میں ماں کوئی،اس سے غرض نہیں
فیمینزم نے ایک تحریک کی صورت اختیار کی تو کیا مرد،کیا عورت سب اس میدان میں کود پڑے مگر شاعر کا انداز فکر مختلف ہے
عورت ہی کو عورت کا نمائندہ بناؤ
عورت ہی سمجھ سکتی ہے عورت کے مسائل
اکبری اور اصغری کو تلمیح کے طور پر استعمال کرنا نادر تجربہ ہے۔جس کا اظہار بہت خوب کیا گیا ہے
اکبری مزاجوں سے پالا رہا مدام
اصغری مزاج کی خواہش ہی بس رہی
ناسٹلجیا کا شکار کون نہیں ہوتا۔ماضی ایک حسین یاد ہے،خاص طور پہ بچپن؛ اس لیے اسے شعری تجربے میں یوں سمویا گیا۔
سنتا ہوں جب بھی آواز گلی میں قلفی والے کی
سامنے میری آنکھوں کے میرا بچپن آجاتا ہے
الغرض عاصم بخاری کے فردیات تنوع کا حسین مرقع ہیں۔شاعرنے زندگی کے اکثر رنگوں کو مصرع تر کی صورت دی ہے۔یہی ان کی انفرادیت ہے۔ڈھیروں دعائیں!!
ظہوراحمد ترگوی
میانوالی, پنجاب، پاکستان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔