شاہداعوان، بلاتامل
ممتاز مفتی رقمطراز ہیں ’’انسان کی شخصیت ایک گورکھ دھندا ہے ایک ایسا الجھائو جس کا سرا نہیں ملتا۔ میری دانست میں انسانی شخصیت کو پیاز سے تشبیہ دی جا سکتی ہے فرد کی حیثیت چھلکے کی سی ہے چھلکے ہی چھلکے ، ایک دوسرے سے نہیں ملتا اگر چہ بظاہر وہ ایک جیسے نظر آتے ہیں بظاہر سپاٹ مگر غور سے دیکھو تو ان میں رنگوں کی دھاریاں ہیں ہلکے مگرواضح خطوط ہیں اگر آپ ان چھلکوں کے پاس جائیں تو اشکبار ہو جائیں گے ۔ چونکہ ان چھلکوں میں دکھ کی تلخی ہے، دکھ انسانی شخصیت کا جزوِاعظم ہے دکھ انسانیت کا پایہ ستون ہے انسان کی مسکراہٹیں ، مسرتیں، قہقہے گویا آنسوئوں کی جھیل میں اُگے ہوئے کنول ہیں۔‘‘
فقیر کو گزشتہ تین دہائیوں میں صحافت کی صحرا نوردی کے دوران زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ شخصیات سے میل جول کے مواقع میسر رہے ہیں ان میں سیاسی، سماجی، کاروباری، بیوروکریسی، عسکری، پولیس اور عام لوگوں سے ملنے اور سیکھنے کو بہت کچھ ملا ہے اگر میں اپنے ضلع اٹک کی بات کروں تو لگ بھگ درجنوں ڈپٹی کمشنر صاحبان ، ڈی پی اوز، ایس پیز، اسسٹنٹ کمشنرز اور مجسٹریٹ صاحبان کو دور و نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملتا رہا ہے ان میں اکثریت کا دل عوام الناس کی مشکلات اور مسائل کے حل سے سرشار پایا ایسے ایسے بیوروکریٹس بھی دیکھے جن کے روز وشب عوامی فلاح و بہبود میں اس قدر مصروف رہتے کہ ان کے لئے اپنے گھر والوں کو وقت دینا دشوار ہوتا۔ یار لوگ تنقید کے کوڑے برسانے میں ذرا توقف نہیں کرتے مگر فقیر کو ہمیشہ ان سرکاری افسران کے اندر اچھائیاں تلاش کرنے کی جستجو رہی ہے اس ضمن میں مختلف اخبارات میں ہزاروں کی تعداد میں شائع ہونے والے میرے کالم اس بات کی دلیل ہیں اور یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ مذکورہ افسران کے دفاتر کے با ر بار ’’طواف‘‘ سے بھی فقیر محروم ہی رہا۔ بقول پروین شاکرؔ:
’کب کہا تھا وہ خو ش بدن ہمارا ہو‘ کے مصداق چند دنوں یا چند گھنٹوں کا مشاہدہ میری صحافتی تشنگی مٹانے کے بہت کام آیا عموماٌ خلقِ خدا کی زبان سے استفادہ کیا کہ وہی دراصل نقارہ خدا ہوتی ہے۔ ان گوہرِ نایاب میں جناب عظمت حسین رانجھا، مخدوم سجاد بھٹہ، کیپٹن ثاقب ظفر، رانا اکبر حیات، علی عنان قمر، عمران حامد، اور 100روز گزار کر جانے والے حالیہ ڈی سی جناب محمد نعیم سندھو قابل ذکر ہیں جبکہ ضلعی پولیس سربراہان میں جناب ناصر خان درانی، محترم حسین اصغر، کیپٹن ظفر اعوان، سید شہزاد ندیم بخاری، سید خالد ہمدانی، رانا شعیب محمود نمایاں ہیں۔ سابقہ اے ڈی سی آرز میں اکرام اللہ نیازی، شہریار عارف اور اسسٹنٹ کمشنرز میں ملک محمد بشیر اعوان، صاحبزادہ فیض محمود فیضی، عدنان انجم راجہ شامل ہیں۔
بات ہو رہی تھی اٹک کی تو تقریباٌ ایک ماہ قبل چارج سنبھالنے والے ڈی سی اٹک محمد ذوالقرنین سے چند روز قبل ٹی ایچ کیو ہسپتال حسن ابدال میں چند سیکنڈ کا تعارفی مصافحہ ہوا ۔ گزشتہ روز بیوروکریسی پر اپنی تصنیف کردہ کتاب ’’کہکشاں‘‘ پیش کرنے ان کے دفتر پہنچا تو بناء کسی توقف کے اندر جانے کی اجازت مل گئی سو بات سمجھ میں آگئی کہ نئے ضلعی سربراہ پروٹوکول کے عادی نہیں۔ اندر داخل ہوا تو مجھ سے قبل چند ماتحت اہلکار اور تین سائلین تشریف فرما تھے ایک اہلکار نے اٹھ کر وضاحت دینا چاہی تو صاحب نے انتہائی شائستگی کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کا کہا پھر باری باری سائلین کی جانب متوجہ ہوئے اور جس قدر ان کی تشفی ہوتی وہ باربار انہیں تمام پہلوئوں سے مطمئن کرتے رہے ۔ یہ کسی بھی ضلع کے ’’مالک‘‘ کا منفرد انداز ہوتا ہے ورنہ بعض افسران تو ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتے ۔ خیر میری باری آئی تو کہنے لگے آپ کے ساتھ ہسپتال میں ملاقات ہوئی تھی جس پر مجھے ان کی چہرہ شناسی پر انتہائی حیرت ہوئی مگر اس غیرمعمولی یادداشت پر حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہوئی کہ یہ بھی اللہ کی اپنے بندوں پر خاص عطا کردہ عنایت ہوتی ہے کہ وہ ہزاروں افراد کو اپنی ’میموری‘ میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ دوست سید ارشاد حسین شاہ مرحوم میں ایک وصف ایسا تھا جو لاکھوں میں کسی ایک میں ہوتا ہے مجھے جب بھی پنجاب کے کسی ڈپٹی کمشنر یا ایس پی کا نمبر لینا ہوتا تو فوراٌ بتا دیتے کہ انہیں تمام افسران کے نمبر زبانی یاد تھے۔ اسی طرح کیڈٹ کالج حسن ابدال کے موجودہ پرنسپل برگیڈیئر (ر) ناصر سعید خٹک جب کالج میں نئے نئے تعینات ہوئے تو انہیںملنے گیا انہوں نے کیڈٹس کی تصاویر اپنے سامنے رکھی ہوئی تھیں جن کی تعداد سینکڑوں میں تھی، مجھ سے رہا نہ گیا پوچھا یہ فوٹو کس لئے؟ کہنے لگے جب ہمارے استاد سینکڑوں بچوں میں ہمارا نام لے کر پکارتے تو ہمارا سینہ فخر سے پھول جاتا تھا وہ بھی کوشش کر رہے ہیں کہ ان بچوں کے نام اپنے ذہن کی تختی پر نقش کر لیں۔ یہ خداداد صلاحیت بھی بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے کہ وہ ایک ملاقات میں کسی کا چہرہ اپنی یادداشت میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ ڈی سی محمد ذوالقرنین کے بارے ان کے ماتحتوں سے لے کر عوام تک عمومی تاثر انتہائی مثبت اور حوصلہ افزا ہے کہ وہ عوامی ڈپٹی کمشنر ہیں۔ دلوں پر حکومت کرنا بڑا مشکل کام ہے اللہ کرے وہ ثابت قدم رہیں اور لوگوں کے لئے آسانیوں کا باعث بنے رہیں۔ ان کے دفتر سے ملحقہ کمرہ اے ڈی سی آر ڈاکٹر وقار علی خان کا ہے جو انتہائی قابل اور پڑھے لکھے آفیسر ہیں جن کے کام کی’’ دھوم‘‘ ہر خاص و عام میں ہے۔ اللہ کرے یہ لوگ اسی طرح مخلوق کے دکھوں کا مداوا کرتے رہیں اور ان کی دعائیں لیتے رہیں۔
شاہداعوان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔