رباب عائشہ کی لاجواب کتاب
تحریر. محمد اکبر خان
خاک کے آس پاس محترمہ رباب عائشہ کے گیارہ افسانوں اور سترہ کالمز پر مشتمل ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کو پڑھ کر یہ فیصلہ کرنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے کہ ان کے افسانے زیادہ بہتر ہیں یا ان کے کالمز فن تحریر کا اعلی نمونہ کیونکہ جس طرح ان کی افسانہ نگاری بے مثل اور لاجواب ہے بعینہ ان کے کالم اعلی و ارفع نثری فن پاروں میں شمار کرنے کے لائق ہیں .
ان کی اس کتاب میں شامل تقریباً تمام کے تمام کالمز گزشتہ دنوں کی یادوں پر مبنی ہیں زیادہ تر کالموں میں راولپنڈی شہر کی اس عظمت رفتہ، خوبصورتی نفاست،اور حسن ترتیب کا ذکر ہے جو اب عنقا ہو چکی ہے. بے ہنگم تعمیرات، آبادی میں بے تحاشا اضافہ، درختوں کی کٹائی ،بدعنوانی، متعلقہ اداروں کی کام چوری،حکومتی عدم توجہی عوامی لاپرواہی، فضائی، آبی اور صوتی آلودگی نے اس شہر کا حلیہ جس طرح بگاڑ رکھا ہے وہ سب کے سامنے ہے ایسے میں ایک درد دل رکھنے والی بے خوف و بے باک صحافی نے اہلیان شہر کے دم توڑتے ضمیر کو بیدار کرنے کی سعی بلیغ فرمائی ہے.
محترمہ رباب عائشہ جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہیں وہ وطن سے سچی محبت کرتی ہیں اسی جذبے کے مہک ان کے کالموں میں کثرت سے موجود ہے. "کہاں گیا وہ جذبہ” اداسی بال کھولے رو رہی ہے، یہ وہ پاکستان نہیں اور بانی پاکستان کی تصویر ایسے ہی کالمز ہیں جن کو پڑھ کر ہر محب وطن پاکستانی کی آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں اور وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے.
وہ خود اپنی کتاب کے آغاز میں لکھتی ہیں "
مجھے اپنے وطن کی مٹی جان سے زیادہ عزیز ہے میں کبھی نہیں چاہوں گی کہ مرنے کے بعد یہ مٹی مجھے نصیب نہ ہو کاش ہم اس مٹی کی قدر کریں اس کو گل گلزار بنانے کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کریں”
رباب عائشہ ایک کہنہ مشق صحافی ہیں جن کا صحافتی تجربہ کئی دہائیوں بلکہ نصف صدی پر محیط ہے ان کے طرز تحریر میں خصوصیت کے ساتھ سادگی، روانی، شیرینی اور گھلاوٹ کی آمیزش ہے انھوں نے کالم نگاری کو ادبی چاشنی سے ہم آہنگ کر کے ایک نئی طرح ڈالی ہے.
اس کتاب میں شامل ان کے افسانے بھی قارئین کو متوجہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں.
ان کے افسانے تلکف، تصنع یا بناوٹ کے بغیر رواں، سادہ اور عام فہم زبان و بیان کے حامل ہیں.
کتاب میں شامل افسانہ پتلی گھر ہمارے معاشرے کی اس عمومی خودغرض کیفیت کا عکاس ہے جو آپ کو سماج میں جابجا بکھری دکھائی دیتی ہے، انسان دوستی، خدمت، اور ہمدردی کا فقدان اس کے نمایاں خد و خال ہیں.
ان کے افسانوں میں جزئیات نگاری اور منظر نگاری لاجواب ہے جس کی مثال ان کی اس کتاب میں موجود افسانہ "جذبے کا سفر” میں بآسانی دیکھی جا سکتی ہے.
وہ انسانی جذبات احساسات و محسوسات کو کہانیوں میں سمونا جانتی ہیں.
ان کے افسانوں میں پیکر تراشی اور کردار نگاری کے عمدہ نقوش ملتے ہیں جو ان کی ادبی مہارت اور ادبی امور پر ان کی گہری دسترس اور کامل عبور کو ظاہر کرتے ہیں.
ہمارے ملک کی آبادی کا غالب حصہ خواتین پر مشتمل ہے مصنفہ کے افسانوں میں خواتین کرداروں اور ان سے منسلک معاشرتی مسائل کا منفرد اظہار ملتا ہے جو کہ ان کے افسانوں "خاک کے آس پاس، خمیازہ، اور عکس در عکس میں جلوہ نما ہے تلاش میں ہے سحر، سکہ ، بے سبب جینے کی خواہش میں مرے جاتے ہیں لوگ اور پچھتاوا بھی خواتین کی ہی کہانیاں ہیں جن میں صنف نازک کے جذبات، خیالات و محسوسات کو عمدگی سے قلمبند کیا گیا ہے اور معاشرے کی سچی عکاسی کی گئی ہے.
ان کی اس کتاب میں زندگی کے کچھ ناقابل فراموش واقعات اور کرداروں کا بھی نہایت دلچسپ تذکرہ بھی شامل ہے انھوں نے زندگی کے سفر میں ملنے والے افراد کا اعلی و دل نشین تذکرہ لکھا ہے ان کی یہ کتاب معنوی خوبیوں کے ساتھ ساتھ صوری حسن سے بھی آراستہ ہے جس کا کریڈٹ پریس فار پیس فاونڈیشن کو جاتا ہے جس نے نہایت اہتمام سے اس کتاب کو اشاعت کے مراحل سے گزار کر قارئین تک پہنچایا.
محمد اکبر خان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔