سیرت نہ ہو تو عارض و رُخسار سب غلط

انسان کی قدر و منزلت عمل کے حُسن سے ہے , فرد ہو یا قوم , جس کی زندگی عمل کے سوز سے خالی ہو , وہ ایک لفظِ بے معنی ہے , ایک جسم ہے جو بے رُوح ہے …… ایک گُفتار ہے جو کردار کی قوت سے خالی ہے….  کردار و عمل کی خُوبی کے بغیر پُرشِکوہ الفاظ کی شان اور گُفتار کا حُسن بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے ,

عمل افراد اور قوموں کے اندر جوش اور ولولہ , آگے بڑھنے کا جذبہ اور لگن پیدا کرتا ہے , رواں دواں پانی تازہ رہتا ہے , ساکن پانی میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے , عمل سیرت و کردار سے اُبھرتا اور نکھرتا ہے ,

               جوشِ کردار سے کُھل جاتے ہیں تقدیر کے راز

اور کردار کے لئے اللہ تعالیٰ نے راہنمائی کُچھ یُوں فرما دی ہے کہ

لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللہِ اُسوَۃُُ حَسَنَۃُُ (الاحزاب ۲۱ )

بے شک تمہارے لیئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ,

مَن یُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَد اَطَاعَ اللہ ِ

جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی پس بے شک اس نے اللہ کی اطاعت کی

اللہ تعالیٰ واضح اور صریح الفاظ میں ارشاد فرما رہا ہے  کہ اگر تم کامیاب زندگی گزارنا چاہتے ہو تو ! دنیا اور آخرت کی کامیابی کے خواہشمند ہو تو ! اپنے پیارے نبی صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلو ان کی کامل و اکمل زندگی کو اپنے لیئے نمونہ بناؤ ، اُسوہءِ حَسَنہ ہے کیا ؟

اُسوہءِ حَسنہ خُلقِ عظیم ہے :: عفو و درگزر ہے :: پیار و محبت ہے. ، شفقت و مہربانی ہے  نہ صرف انسانوں سے حتیٰ کہ جانوروں سے بھی

اُسوہءِحَسنہ استقامت و صبر و تحمل اور ایثار و قربانی ہے , ایفائے عہد ہے :: اخلاص و تقویٰ ہے :: عدل و انصاف و احسان ہے :: خشتِ اِلٰہی ہے

اُسوہءِ حَسنہ تربیت و تبلیغ ہے :: امر بِالمعروف ہے :: نہی عن المنکر ہے :: نظم و ضبط اور قانون کا احترام ہے :: اتحادِ مِلّی ہے 

اُسوہءِ حَسنہ امانت و دیانت ہے :: کسبِ حلال ہے :: حرام سے اجتناب ہے :: گھریلو اور معاشرتی زندگی میں راہنما ہے :: منافقت سے نفرت ہے :: عبادت و ریاضت ہے :: ریاکاری سے اجتناب ہے :: اور سب سے بڑھ کر فکرِ دنیا و آخرت  ہے

                        دعوت و تبلیغ کے لیئے جس بلند ترین اخلاق و شفقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ سرکارِ رسالتمآب صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم میں اس حد تک موجود تھی کہ اللہ تعالیٰ کو سورۃ یٰسین میں  قُرآن کی قسم کھا کر کہنا پڑا کہ

اِنَّکَ لَعلٰی خُلُقٍ عَظِیمٍ ہ بےشک آپ حُسنِ اخلاق کی اعلیٰ ترین منزل پر فائز ہیں ,

اور کہا یہ جاتا ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں تو کیا وراثت میں سرکار کا اُسوہءِ حسنہ مکمل طور  پر نہیں لینا چاہیئے ؟ کیا آج ہمارے علماء اخلاقی نقطہءِ نظر سے وارث کہلانے کے حقدار ہیں ؟ ,

  28 رجب  , جب امام حسین علیہ السلام کو بیعت پر مجبور کیا جا رہا تھا, اور امامِ مظلوم اپنے بچوں , عورتوں , جوانوں , بوڑھوں غرضیکہ تمام خانوادہءِ رسالت کو لے کر اپنے نانا کے وطن مدینہ سے ہجرت پر مجبور کیئے جا رہے تھے تو کیا مدینہ بالخصوص اور عالمِ اسلام بالعموم علماء و عاشقانِ رسول صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم سے بھرا ہوا نہ تھا ؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ مسلمان 1400 سال سے کم ہی اسوہءِ رسول صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم , پر کاربند رہے ہیں

رحمتِ عالم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کے عفوودرگزر کا عالم یہ تھا کہ ایک شخص قتل کا ارادہ لے کر آیا , مگر جب چہرہءِ اقدس پر نگاہ پڑی تو مرعوب ہو کر تلوار ہاتھ سے گر پڑی , آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم ,نے آگے بڑھ کر تلوار اُٹھا لی , چاہتے تو قتل فرما سکتے تھے مگر کمال مہربانی سے معاف فرما دیا , اسی وقت اس شخص نے اسلام قبول کر لیا , اپنے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ, کے قاتل وحشی کو معاف فرما دیا اور اس نے اسلام قبول کر لیا , اللہ کے رسول ,ص, کے ذمہ ایک شخص کا قرض تھا , ایک دن آکر نہایت سخت الفاظ میں اپنے قرض کا مطالبہ کیا ,اور اپنی چادر آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم, کی گردن مبارک میں ڈالی , صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم, آگے بڑھے مگر رحمتِ مجسم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے روک دیا اور فرمایا اسے ایسا کرنے کا حق ہے , اس نبی کی امت ہو , عالم ہوں , عاشقانِ مصطفےٰ ہونے کے دعویدا ہوں , اسی نبی کی حُرمت کے نام پر وحشی اور درندے بن جائیں ؟ مجھے بتائیے نا کہ وہ عاشقانِ رسول صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم, کیسے ہوئے  ؟, جس نبی کی نرمیِ طبیعت اور حُسنِ سلوک کی گواہی  اور تذکرے قُرآن جا بہ جا کرے اس کے وارث اور امتی اس قدر ظالم ہوں کہ انسانوں کو اللہ کے برحق اور سچے دین سے اپنے عمل کی وجہ سے متنفر کر رہے ہوں سورۃ آلِ عمران آیت 159 میں ارشادِ ربانی ہے کہ

فَبِمَا رَحمَۃٍ مّنَ اللہِ لِنتَ لَھُم وَلَو کُنتَ فَظًا غَلِیظَ القَلبِ لاَنفَضُّوامِن حَولِکَ

پس اللہ کی رحمت کے سبب سے آپ اُن کے لیئے نرم دل ہوئے , اور اگر آپ مزاج کے اکھڑ اور دل کے سخت ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو گئے ہوتے ,

بدلہ نہ لینے والے رسول ,ص, عفو و درگزر کے عملی نمونہ نبی صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم, حُسنِ اخلاق کی اعلیٰ ترین منزل پر فائز رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وارث اور امتی کیا اپنے عمل سے لوگوں کو اسلام سے منتشر اور متنفر نہیں کر رہے ؟ , ذرا دیر کو رک کر ہمیں سوچنا ہو گا , ورنہ یہ جنت کا لالچ یہ حور و قصور کی ہوس کہیں ہمیں دین و دنیا میں تباہ و برباد نہ کر دے

وَمَا اَرسَلنٰکَ اِلَّا رَحمَۃًلِلعَالَمِین کی امت آئیے  اپنے گھر کے لیے ، اپنے محلے ، شہر ، وطن اور پوری دنیا کے لیے سراپا محبت و رحمت بن جائیں ، تا کہ بہترین اُمت قرار پائیں ، وگرنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بروز محشر آقائے نامدار صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم ہمارے بارے میں ہی فرما رہے ہوں کہ

وَقَالَ ٱلرَّسُولُ يَٰرَبِّ إِنَّ قَوْمِى ٱتَّخَذُوا۟ هَٰذَا ٱلْقُرْءَانَ مَهْجُورًا

اور رسول صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم فرمائیں گے کہ اے پالنے والے بےشک میری اُمت نے تو اس قُرآن کو چھوڑ ہی دیا تھا،

از قلم : مُونِس رضا

نوائے مونس
نوائے مونس- مونس رضا صاحب کی تمام تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

رُوٹھ جاؤں تو مناتا ہے وہی

منگل دسمبر 8 , 2020
رُوٹھ جاؤں تو مناتا ہے وہی
رُوٹھ جاؤں تو مناتا ہے وہی

مزید دلچسپ تحریریں