انسان کی گفتار اور کردار دو ایسی چیزیں ہیں جو اسے معراج تک لے جاتی ہیں ۔ گفتار کردار سے معرض وجود میں آتی ہے۔ جیسا کردار ہوگا ویسی ہی گفتار ہو گی جب کردار قرآن و سنت اور آئمہ معصومین کی ضیا افروز تعلیمات کی روشنی میں تعمیر ہوگا تو گفتار سے علم و آگہی کے موتی جھڑیں گے۔
لب جب بھی حرکت کریں گے۔ قرآن کی تفسیر بیان کریں گے۔ آنحضورﷺکا اسوہ حسنہ بیان کریں گے اور آئمہ طاہرین کی محبت سے لبریز بیان دیں گے۔ اور یہ ایسی صورت میں ممکن ہے۔ کہ جب انسان کے دل و روح اور عمل میں نماز شب رچ بس گئی ہو کیونکہ نماز شب معراج بندگی و انکساری و فروتنی ہے۔ اور اگر انسان سوچے اور قرآن پڑھے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ بندگی و تسبیح انسان کو کائنات میں پھیلی ہوئی نباتات و جمادات بھی سکھاتے ہیں جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل پارہ نمبر 15 کی آیت نمبر 44میں باری تعالٰی ارشاد فرماتا ہیں۔
وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ ؕ
یعنی کائنات کی ہر شے اسکی تسبیح بیان کرتی ہے مگر تم اسکی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔
جب کائنات کے تمام شجر و حجر پھول، کانٹے ، پرند چرند اور نباتات و جمادات اللہ رب العزت کی ثنا بیان کرتے ہیں ۔ تو انسان تو اشرف المخلوقات ہے اسے اشرف ہوتے ہوئے سب سے زیادہ ثناء بیان کرنی چاہیے اور نماز شب میں اپنے قیام و رکوع و سجود کو خشوع و خضوع سے طول دینا چاہیے۔ وقت سحر جب تسبیح خوان طیور انسان کے ضمیر کو جگانے کی سعی کرتے ہیں ۔ تو انسان اس وقت ہی اشرف المخلوقات کہلانے کا مستحق ہےکہ جب اسکی صدائے اللہ اکبر اور سبحان اللہ کا ورد پرندوں سے پہلے جاری ہو اور یہ ورد پرندوں کو جگائے۔ پرندوں کی چونچ "سبحان تیری قدرت انسان” کی صدائے لا الہ الا اللہ انسان کے بعد حرکت کرے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب عاجزی اور فقر حد سے بڑھے اور انسان اپنی جبیں نماز شب کے لیے رات کی تاریکیوں اور سناٹے میں خالق کائنات کے سامنے جھکا دے۔ تسبیح اور نماز تو پرندے بھی پڑھتے ہیں۔ اگر انسان صرف فرض نمازوں تک محدود ہو جائے تو اسکی بندگی بندگی تو ہے۔ لیکن اس میں اشرف المخلوقات ہونے کی قدرو منزل نہیں ۔ کیونکہ یہ نماز اور تسبیح (فرائض) تو پرندے بھی کرتے ہیں ۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم تیری
شجر،حجر،بھی خدا سے کلام کرتے ہیں
اشرف المخلوقات بننا ہے تو نماز شب ادا کیجیے۔ سورہ نور پارہ نمبر 18کی آیات نمبر 41سی چیز کا درس دے رہی ہے۔ ارشاد رب العزت ہے۔
اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الطَّیۡرُ صٰٓفّٰتٍ ؕ
"جتنے پرندے اڑتے ہیں تمام پرندے اللہ کی تسبیح کرتے ہیں ۔ ان پرندوں کو اپنی نماز کا بھی علم ہے اور اپنی اپنی تسبیح کا بھی”۔
قیامت کی ہولناکیوں اور عذابِ الٰہی کا خوف دامن گیر کیے نماز شب پڑھنے والے کی آنکھ اشکبار ہو ، دل غم سے فگار ہو اور سسکیوں اور آہوں کی بہتات ہو تو تقوٰی و راست بازی کا چراغ روشن ہو جاتا ہے اور علم و عمل کا آفتاب پوری آب و تاب سے جگمگانے لگتا ہے ۔ کیونکہ نماز شب انسان کے قلب و روح کو بصیرت افروز درس سکھاتی ہے۔
نماز شب کے متعلق ایک روایت ہے۔ جس کے راوی عباس ابن عباس ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ آنحضور نے ارشاد فرمایا میری امت کے اشراف حاملین قرآن اور شب ذندہ دار (تہجد گزار) ہیں ۔
نماز شب کی فضیلت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ نماز شب میں ریاکاری کو دخل نہیں یہ عمل اس وقت بجا لایا جاتا ہے جب بنی نوح انسان اپنے اپنے گھروں میں نیند کے مزے لے رہے ہوتے ہیں ۔
تہجد گزار کو چاہیے کہ نماز شب کو مخفی رکھے اور نماز شب پر غرور و تکبر سے گریز کرے کیونکہ ایسا کرنے سے عقل کی نورانیت کم ہوجاتی ہے۔ اسی کے متعلق مولا علیؑ ارشاد فرماتے ہیں ۔کہ انسان کا عجب میں مبتلا ہونا (یعنی نماز شب پڑھنے پر غرور کرنا) عقل کے حساد میں سے ہے عقل کے دشمنوں میں سے ہے
انسان دنیا میں رہتے ہوئے کئی قسم کے گناہوں کا ارتکاب کرتا ہےجھوٹ، مکرو فریب، غیبت، چغل خوری اور دیگر صغیرہ و کبیرہ گناہوں کا عذاب بہت سخت ہوگا ۔ اور جب تک ان کا کفارہ ادا نہ ہوگا انسان عذاب میں گرفتار رہے گا۔
نماز شب کی یہ فضیلت اور اعجاز ہے کہ یہ گناہوں کا کفارہ بن کر عذاب قبر اور عذاب حشر سے نجات دلائے گی۔ گویا نماز شب جنت کی چابی ہے ۔ اسکے متعلق آنحضورؐ نے حضرت علیؑ سے فرمایا کہ گناہوں کا کفارہ بننے والے اعمال یہ ہیں ۔
سلام کا عام کرنا
کھانا کھلانا
نماز تہجد پڑھنا جبکہ لوگ سو رہے ہوں
جسطرح تاریکی شب کے دامن میں پلنے والی آفتاب کی کرن سپیدہء سحر کا پیام بن کر دن کے اجالے کا رخ انور بنتی ہے۔ بالکل اسی طرح نماز شب پڑھنے والے کی آہیں،سسکیاں اور دلفگار دل تقوٰی و عاجزی کا سماں پیدا کرتے ہیں ۔ اور نماز شب میں جب تک دل و روح تڑپ کر جبیں کو سجدہ ریز نہ کرائیں اس وقت تک مزہء گفتار نہیں مل سکتا جیسے کہ علامہ اقبال نے اپنی بانگ درا میں لکھا ہے۔
لطف کلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق
بسمل نہیں ہے تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
سوداگری نہیں،یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر!جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
سیّد حبدار قائم
کتاب ‘ نماز شب ‘ کی سلسلہ وار اشاعت
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔