کائنات کا ذرہ ذرہ سجدہ ریز ہے

کائنات کا ذرہ ذرہ تسبیح و تہلیل میں محو ہے۔ ہر شے اللہ رب العزت کی ثناء کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ پھولوں کی مہک ہو یا آبشاروں کی روانی، ستاروں کی ضیا ہو یا دھنک کے فرحت بخش خوشنما رنگ سبھی خدائے وحدہ لا شریک کے گن گاتے ہیں۔ اسی لیے تو ارشاد ہے۔

” ما مِن شئی ءِِ اِلّٰا لہ لِسان ملکُوتِی”

یعنی کوئی شے ایسی نہیں جسکی زبان ملکوتی نہ ہو۔ 

جو تسبیح و تقدیس و تہلیل و تمجید الٰہی  میں محو نہ ہوتی ہو۔

سورج چاند ستارے سارے سجدہ ریز ہیں سورج کی گردش پر غور کریں تو اس کا قیام رکوع اور سجدہ نظر آتا ہے اسی طرح چاند کی روزانہ گردش بھی قیام و رکوع و سجود کے  آثار ظاہر کرتی ہے ستاروں کا ٹمٹمانا بھی اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے کائنات کا پتا پتا اس کی وحدانیت کے گیت گا رہا ہے ایک درخت کی کونپل جب پھوٹتی ہے تو قیام کی حالت میں ثنا بیان کرتی ہے لیکن جب مکمل  پتے کی شکل اختیار کرتی ہے تو جھک جاتی ہے  یہ اس کا رکوع ہے رکوع کرنے کے بعد یہی پتا سجدہ ریز ہوتا ہے تو زمین بوس ہو جاتا ہے اور یہ وہ سجدے کی حالت ہوتی ہے جس میں پتا اپنی ہستی کو رنگِ فنا دے کر سفرِ بقا کی طرف رجوع کرتا ہے یہ سلسلہ جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ ہر ذرے میں دل ہے اور دل میں اللہ کا قیام ہوتا ہے ہر ذرہ بھی تسبیح و تہلیل میں مگن ہے جانور اپنی زبان میں حمد کرتے نظر آتے ہیں پرندوں کی غذا اس وقت تک ہضم نہیں ہوتی جب تک وہ اللہ کی تسبیح بیان نہ کر لیں۔ سورہ رحمان میں بیلوں اور اشجار کے سجدے کا ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:۔

وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ (6) 

"اور بیلیں اور درخت سجدہ کر رہے ہیں”

جب کائنات کا ہر ذرہ سجدہ ریز اور تسبیح و تقدیس میں محو ہے تو اشرف المخلوقات حضرت انسان کو بھی چاہیے کہ خدا کی طرف ہر مسرت کی آمد پر سجدہ کرے، ہر اضطراب و پشیمانی کی آمد پر سجدہ کرے، ہر کامیابی و کامرانی پر سجدہ کرے، ہر نعمت و راحت کے ملنے پر سجدہ کرے۔ ہر خطا کے سرزد ہو جانے پر سجدہ کرے۔ کیونکہ جو جبین اللہ رب العزت کی ہیبت اور رعب و جلال کے سامنے جھک جاتی ہے اور اپنی عاجزی و انکساری کا اظہار کرتی ہے وہ جبیں پھر کسی غیر معبود کے سامنے خم نہیں ہوتی۔اس لیے سجدہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ سجدہ ریزی کرنے سے سکون قلب ملتا ہے اور انسان شرک سے بچ جاتا ہے

 اپنی کتاب "ضرب کلیم” میں علامہ  اقبال فرماتے ہیں:۔

تری خودی سے ہے روشن تیرا حریمِ وجود

حیات کیا ہے اسی کا سرور و سوز و ثبات

بلند تر مہ و پرویں سے ہے اسی کا مقام

اسی کے نور سے پیدا ہیں تیرے ذات و صفات

حریم تیرا خودی غیر کی معاذ اللہ

دوبارہ زندہ نہ کر کاروبار لات و منات

یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے

رہا نہ تو تو نہ سوزِ خودی نہ ساز حیات

وہ اک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے۔

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

کلام پاک انسان کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے تو کوئی ہے جو اس دعوت پر عمل کر کے سجدہ ریز ہو جائے کیونکہ یہی سجدہ بندگی کی معراج ہے۔ نمازِ شب میں سجدہ ریزی قاب قوسین کی یاد دلاتی ہے اور معراج کی حقیقت سے قریب تر کرتی ہے کیونکہ اللہ رب العزت انسان کی شہہ رگ سے بھی قریب ہے۔ اس قربِ خدا کو سجدے میں محسوس کرنا انتہائے بندگی ہے۔ سجدے کی حالت میں نفی اثبات کیجیے اور خدا کا قربِ ظاہر سانسوں میں تلاش کیجیے  یہی کامیابی کی کلید ہے کیونکہ سجدے میں جس کی خودی زندہ ہو جائے وہ ہر وقت حالتِ نماز میں رہتا ہے۔ اسے رب کے علاوہ دوسرا کوئی نظر نہیں آتا۔ تو کوئی ہے جو اپنی سجدہ ریزی سے اللہ رب العزت کو ڈھونڈے؟

hubdar qaim

سیّد حبدار قائم

کتاب” نماز شب “کی سلسلہ وار اشاعت

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

11مارچ ...تاریخ کے آئینے میں

جمعہ مارچ 11 , 2022
11مارچ ...تاریخ کے آئینے میں
11مارچ …تاریخ کے آئینے میں

مزید دلچسپ تحریریں