انجینئر اسماعیل کا نیک اور بے لوث فن تعمیر
مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی مزید توسیع کا منصوبہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فہد کے دور میں بنا۔ سنہ 2010ء میں عمرے پر جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مسجد الحرام کی تعمیری وسعت تب بھی جاری تھی۔ اس وقت بھی مسجد الحرام دنیا کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہے جو 3 لاکھ مربع میٹر پر تعمیر کی گئی ہے۔ یہ مسجد 16 ویں صدی میں قائم کی گئی تھی جس کے 9 مینار ہیں۔ خانہ کعبہ اسی مسجد کے مرکز میں واقعہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کئی مرتبہ اس عمارت میں توسیع کی جا چکی ہے اور آج کل اس میں 10 لاکھ افراد ایک وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔
ان دونوں مسجدوں کے عظیم الشان منصوبے کی تعمیر نو اور ان کے ڈیزائن کو تخلیق کرنے والے نیک دل انجینئر کا نام کمال محمد اسماعیل تھا جو سنہ 1908ء میں مصر میں پیدا ہوئے اور 100 سال سے زیادہ کی عمر پائی۔ محمد اسماعیل کمال انجینئر اور آرکیٹیکٹ تھا جس نے ظاہری اور دنیاوی بودوباش سے دور اور نامعلوم رہنے کو ترجیح دی۔ ڈاکٹر محمد کمال اسماعیل 1908-2008 مصر کی تاریخ کا سب سے کم عمر شخص تھا جس نے ہائی سکول سرٹیفکیٹ حاصل کیا پھر رائل سکول آف انجینئرنگ کا سب سے کم عمر طالب علم بنا جہاں سے انہوں نے گریجویشن کی ڈگری لی پھر انہیں سب سے کم عمر طالب علم کے طور پر یورپ بھیجا گیا جہاں سے انہوں نے اسلامک آرکیٹیکچر میں ڈاکٹریٹ کی تین ڈگریاں لینے کا اعزاز حاصل کیا- اس کے علاوہ وہ سب سے کم عمر نوجوان تھا جس نے سعودی عرب اور مصری حکومتوں سے، "نائل”، "سکارف” اور "آئرن” کا خطاب حاصل کیا۔ وہ پہلا انجینئر تھا جس نے حرمین شریفین کے توسیعی منصوبے کی تعمیر اور عمل درآمد کے لئے کامیابی سے اختیارات سنبھالے۔
ڈاکٹر محمد کمال اسماعیل نے سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فہد اور بن لادن کمپنی کے بار بار اصرار کے باوجود انجینیرنگ ڈیزائن اور آرکیٹیکچرل نگرانی کے لئے کسی قسم کا معاوضہ لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں دو مقدس مساجد کے کاموں کے لئے کیوں معاوضہ لوں، میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا کیسے سامنا کروں گا۔
موصوف انجینئر نے 44 سال کی عمر میں شادی کی اور اس کی بیوی نے بیٹا جنم دیا اور زچگی کے بعد فوت ہو گئی اس کے بعد وہ مرتے دم تک عبادت الٰہی میں مصروف رہا۔ وہ 100 سال سے زیادہ زندہ رہا اور دنیا اور میڈیا کی چکا چوند سے ہٹ کر گمنام رہ کر حرمین شریفین کی خدمت کرتا رہا۔
مسجد الحرام کے بعد روئے زمین پر مسلمانوں کے لئے مقدس ترین ”مسجد نبویؐ “ کی تعمیر کا آغاز 18ربیع الاول یکم ہجری کو ہوا تھا جب حضور اکرم ﷺ نے مدینے ہجرت کے فوراً بعد اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا تھا اور خود محمد الرسول اللہ ﷺ نے بھی اس کی تعمیر میں بھر پور شرکت کی تھی۔ اس وقت مسجد کی دیواریں پتھر اور اینٹوں سے جبکہ چھت کھجور کی چھال اور لکڑیوں سے بنائی گئی تھی۔ تب مسجد سے ملحقہ کمرے بھی بنائے گئے تھے، جو آنحضرت ﷺ اور آپؐ ﷺ کے اہل بیت اور بعض اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے لئے مخصوص تھے۔
ڈاکٹر محمد کمال اسماعیل نے مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر نو کا بھی منصوبہ مکمل کروایا اور اس کا بھی کوئی معاوضہ نہیں لیا۔
مسجد نبویؐ ﷺ جس جگہ تعمیر کی گئی ہے یہ دو یتیموں کی زمین تھی۔ ورثاء اور سرپرست اسے ہدیہ کرنے پر بضد تھے اور اس بات کو اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھتے تھے کہ ان کی زمین شرفِ قبولیت پا کر مدینہ منورہ کی پہلی مسجد بنانے کے لئے استعمال ہو جائے مگر حضرت محمد ﷺ نے بلا معاوضہ وہ زمین قبول نہیں فرمائی تھی اور اسے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے توسط سے 10 دینار قیمت کے عوض خریدا تھا۔ آپ رسالت مآب ﷺ نے اس جگہ پر مسجد اور مدرسہ کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔ پتھروں کو گارے کے ساتھ چن دیا گیا۔ کھجور کی ٹہنیاں اور تنے چھت کے لئے استعمال ہوئے اور اس طرح سادگی اور وقار کے ساتھ مسجد کا کام مکمل ہوا۔
مسجد نبوی ﷺ سے متصل ایک چبوترا بنایا گیا، جو ایسے افراد کے لئے "دار الاقامہ” تھا، جو دوردراز سے آتے تھے اور مدینہ منورہ میں ان کا اپنا گھر نہ تھا۔
نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مسجد نبویؐ کی بنیاد 1050مربع میٹر جگہ سے رکھی تھی۔ مسجد نبوی ﷺ کی پہلی تعمیر کے بعد مختلف ادوار میں مسجد نبویؐ ﷺ کی توسیع کی جاتی رہی ہے۔ 1050مربع میٹر سے شروع ہونے والی مسجد نبویؐ ﷺ میں قیام کے بعد سے اب تک 300 گنا کا اضافہ کیا جا چکا ہے۔
مسجد نبویؐ ﷺ پہلی توسیع آنحضور ﷺ کے دور ہی میں ہوئی اور مسجد کی جگہ بڑھا کر 2500 مربع میٹر کر دی گئی۔ مسجد نبویؐ ﷺ کی یہ پہلی توسیع 7 ویں صدی ہجری میں ہوئی۔
17ہجری کو دوسرے خلفیہ راشد عمر بن الخطابؓ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مسجد نبویؐ میں 1100 مربع میٹر کی مزید توسیع کرائی، جس کے بعد مسجد کا کل رقبہ 3600 مربع میٹر تک پھیل گیا۔
اس دوران جب مسجد نبوی ﷺ کی توسیع کا کام جاری تھا تو ایک وفد ہمسایہ ممالک کے سفراء کا مدینہ منورہ میں حاضر ہوا اور خلیفہ وقت کے دربار میں حاضری کی اجازت طلب کی۔ اس وقت خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ مٹی میں کھڑے گارا تیار کر رہے تھے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بادشاہوں کے بھیجے ہوئے قیمتی عطر اور خوشبوئیں پیش کی گئیں تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہ تمام اس مٹی اور پانی کے گارے میں انڈیل دیں جو اس وقت آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے ہاتھوں سے تیار کر رہے تھے۔
29 اور 30 ہجری کے دوران تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان بن عفانؓ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مسجد نبویؐ میں 496 مربع میٹر کی توسیع کرائی، جس کے بعد مسجد نبوی کا احاطہ 4096 مربع میٹر کا ہو گیا۔
اموی دور حکومت میں خلیفہ ولید بن عبدالملک نے 88 تا 91 ہجری کے دوران مسجد نبویؐ میں 2369 مربع میٹر کی جگہ شامل کرائی، جس کے بعد مسجد کا احاطہ 6465 مربع میٹر ہو گیا۔161ہجری میں عباسی خلیفہ مہدی نے 2450 مربع میٹر کا مزید رقبہ مسجد نبویؐ ﷺ میں شامل کیا جس کے بعد مسجد 8 ہزار 915 مربع میٹر پر پھیل گئی۔ 888 ہجری میں سلطان اشرف قاتیبائی نے 120مربع میٹر کی جگہ مسجد نبویؐ میں شامل کی اور مسجد 9053 مربع میٹر پر پھیل گئی۔ عثمانی خلیفہ سلطان عبدالمجید نے مسجد نبویؐ میں 1293 مربع میٹر توسیع کرائی، جس کے بعد مسجد کا رقبہ 10,328مربع میٹر تک جا پہنچا۔ یہ توسیع 1265ہجری میں کرائی گئی تھی۔
سعودی عرب کے حکمران خاندان آل سعود کے دور میں مسجد نبویؐ میں 3 بار توسیع کی گئی۔ پہلی توسیع شاہ عبدالعزیز کے حکم پر 1372 ہجری میں کروائی گئی جس سے 6024 مربع میٹر رقبہ مسجد نبویؐ ﷺ میں شامل کیا گیا، جس کے بعد مسجد کا احاطہ 16ہزار 326 مربع میٹر ہو گیا۔
شاہ فہد بن عبدالعزیز نے مسجد نبویؐ میں 82ہزار مربع میٹر کا اضافہ کیا اور یوں مسجد کا رقبہ 98 ہزار 352 مربع میٹر ہو گیا۔
شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے مزید 30 ہزار 500 مربع میٹر رقبہ مسجد نبویؐ میں شامل کرنے کا حکم دیا، جس کے بعد مسجد نبوی میں شامل جگہ کا کل رقبہ تقریباً 1لاکھ 29 ہزار مربع میٹر ہو گیا۔
نئے توسیعی منصوبے کے تحت مسجد کے بیرونی احاطے میں سائے کے لئے 250 سائبان لگائے گئے جبکہ پانی کو خشک کرنے کے لئے 436 پنکھے اس کے علاوہ لگائے گئے۔
لیکن ان دونوں مساجد کی تعمیر نو اور توسیع میں جو نمایاں اور بے لوث خدمات مصر کے انجینئر محمد اسماعیل کمال کے حصے میں آئیں وہ سعادت کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئی، اللہ پاک انہیں اجر عطا فرمائے اور ان کی قبر مبارک کو نورانیت سے بھر دے آمین
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔