ایک جگہ سے دوسری جگہ یا ایک وطن سے کسی نئے وطن کی طرف منتقل ہوجانے کو ہجرت کہا جاتا ہے۔
منٹو نے بھی اس موضوع پر ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اس پاگل خانے کی داستان لکھی تھی جسمیں تقسیم کے بعد مذہبی بنیادوں پر زیر علاج لوگوں کو زبردستی ملک بدر کر دیا گیا تھا ، کہنے کو تو وہ دنیا والوں کی نظروں میں پاگل تھے مگر اپنی مٹی سے جڑے ہوئے تھے اور اسی طرح محبت کرتے تھے جیسے ہم کرتے ہیں. ہجرت خود اختیاری عمل نہیں ہے بلکہ آدمی بہت سے مذہبی ، سیاسی اور معاشی حالات سے مجبور ہوکر ہجرت کرتا ہے ۔ میں نے اس مختصر تحریر میں ہجرت کی مجبوریاں اور اس کے دکھ درد کو موضوع بنایا ہے۔
دیار غیر میں مقیم کئی ہم وطنوں اور پردیسیوں کو اس تلخ تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔ کئی سال کہیں رہنے کے بعد ہم اس ماحول سے مانوس ہو جاتے ہیں اپنی تہذیب کے رنگوں میں اس دیس کے رنگ بھی شامل کر لیتے ہین اور ان رنگوں میں رنگ جاتے ہیں رچ بس جاتے ہیں۔
اس سال کرونا نے جہاں کئی پیاروں کو لقمہ اجل بنایا وہیں لاک ڈاون کی وجہ سے کئی کاروبار متاثر ہوئے اور کمپنیاں بند ہو گئیں جس کی وجہ سے کئی گھروں کے چولہے بھی بجھ گہے شو مئی قسمت اس کی زد میں میرے ایک دیرینہ ساتھی بھی شامل ہیں جو پچھلی چار دہایوں سے یہاں مقیم تھے ہنستا بستا گھر تھا اور ایک دن اچانک نوکری سے فارغ کر دئیے گئے ، کہیں اور کام بھی نہیں ملا کوئی تعلق کام نا آیا ویزہ ختم ہوگیا اور سواے واپس جانے کے اور کوئی راستہ بھی نہیں بچا گھر کا سامان بک گیا اور کچھ تقسیم کر دیا گیا مجھ سے کہنے لگے یار ایک پل میں سب کچھ چھن گیا سب ختم ہوگیا گھر والے بہت پریشان تھے لیکن اب تسلی دیتے ہیں بچے اس وقت ایکسائیٹڈ ہیں اور طرح طرح کے سوال پوچھتے ہیں ۔میں اپنے وطن تو جا رہا ہوں لیکن میں وہاں کبھی رہا نہیں مجھے تو یہ جگہ اپنا وطن لگتا ہے نہ مجھے کوئی وہاں جانتا ہے نہ میں راستوں سے واقف ہوں اپنے ملک جا کر بھی اجنبیت محسوس کروں گا اس لمحے مجھے برصغیر اور دنیا کی تاریخ کی اب تک کی سب سے بڑی انسانی ہجرت کا خیال آیا کہ اسی طرح لاکھوں لوگ در بدر ہوے قربانیاں دیں اور اب ان کی تیسری نسل اس دکھ اور عذاب سے نا آشنا ہیں جس سے ان کے بزرگ گزرے اور ہر روز کسی راستے کسی شخص کسی چیز کو دیکھ کر ان کو ان کا آبائی وطن یاد آتا ہوگا۔
اب جب کہ میرا وہ دوست جا چکا ہے لیکن رابطے میں ہے اور اپنے پرانے ساتھیوں کی خبر لیتا ہے ، وہاں ایڈجسٹ نہیں ہو پا رہا لیکن وقت گزر رہا ہے اس تلخ حقیقت کو وہ قبول کر رہا ہےاور کہتا ہے کہ اکثر سوچوں میں گم تصور میں ہم وہاں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں گیا وقت کچھ دیر کیلئیے پلٹ آتا ہے اور دل بہل جاتا ہے مجھے بھی آتے جاتے وہ محلہ جہاں وہ رہتا تھا وہ گلی اور وہ پیار سے سجایا ہوا گھر جو اسی کی یاد سے اب بھی آباد ہے اسی کی یاد دلاتا ہے جیسے مغل بادشاہ تو نہ رہے لیکن تاریخ میں اب بھی موجود ہیں ان عمارتوں ان کھنڈروں میں ۔
شاندار بخاری
مسقط
۱۴۴۲
مسقط، سلطنت عمان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔