عِلموں بس کریں او یار
کتاب کو تعلیم اور حصول علم کی بنیاد کہا جاتا ہے جس کے بغیر دنیا کے کسی بھی تہزیب یافتہ ملک کا ترقی کرنا تقریبا ناممکن ہے۔
آپ ترقی یافتہ مغربی ممالک میں چلے جائیں وہاں ہر دوسرا آدمی کوئی سفر میں ہے یا حضر میں ہے آپکو کتاب کے مطالعہ میں مگن نظر آئے گا۔ ان ممالک میں بہت زیادہ کتابیں شائع کی جاتی ہیں۔ یورپ کے صرف ایک شہر بارسلونا میں ہر سال شائع ہونے والی کتابوں کی تعداد 57 مسلم ممالک میں چھپنے والی تمام کتابوں سے بھی کئی گنا زیادہ ہے جو کہ 2024ء کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2022ء سپین کے شہر میں شائع ہونے والی کتابون کی تعداد 206.23 ملین ہے۔ اسی طرح وہاں لائبریریوں کی بھی بہتات ہے بلکہ وہاں دنیا کی سب سے بڑی لائبریریاں واقع ہیں۔ امریکہ کی واشنگٹن کانگریس لائبریری دنیا کی سب سے بڑی لائبریری ہے جس میں 171 ملین کتب یا آئٹمز موجود ہیں اور جس کا رقبہ 1349 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور اس میں لائبریریوں کی عمارتوں کا ایریا 1.5 ملین سکوئر فٹ یے۔
فرانسز بیکن کا قول ہے کہ "علم ایک طاقت ہے” (Knowledge is a power) کہ اسی اعتبار سے امریکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے اور علمی اعتبار سے بھی "سپر پاور” ہے۔ یہاں تک کہ دنیا میں سب سے زیادہ پی ایچ ڈیز (PHDs) اور سائنس دان امریکہ میں پائے جاتے ہیں. امریکہ میں 25 یا اس سے زیادہ عمر والے طلباء کے پاس ماسٹر ڈگری رکھنے والوں کی تعداد 21 ملین ہے جبکہ ڈاکٹورل ڈگری رکھنے والوں کی تعداد 4.5 ملین ہے۔ جبکہ امریکہ میں سائنس دانوں کی تعداد 3051 ہے اور امریکہ کے بیورو آف لیبر کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں سائنس و ٹیکنالوجی اور لیبارٹریوں وغیرہ سے وابستہ افراد کی تعداد 6.3 ملین تھی۔
برٹش لائبریری امریکی کانگریس لائبریری سے بھی زیادہ مشہور ہے جس کے ساتھ برٹش میوزم بھی واقع ہے اور اسے بھی کتب اور علمی نسخہ جات کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی لائبریری مانا جاتا یے جس میں 170 سے لے کر 200 ملین کی تعداد میں کتب اور تعلیمی و علمی نسخہ جات موجود ہیں۔
چین دنیا کی دوسری بڑی ابھرتی ہوئی عظیم طاقت بننے جا رہا ہے اور وہاں بھی کتابوں کے شیلف کے لیئے 33700 سکوئیر میٹر پر مبنی رقبہ ہے۔ یہ دنیا کی دوسری بڑی "دی تائین جن بن ہائے”
The Tianjin Binhai Library
ہے۔ یہ 5 منزلہ لائبریری ہے جس میں صرف کتابیں رکھنے کے لیئے بنائے گئے شیلف کا اتنا زیادہ ایریا ہے کہ جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ چین کی ساری ترقی کا راز مشہور فلسفی اور دانشور کنفیوشئس کے اقوال اور نظریات پر کھڑا ہے جن کی ایک کہاوت ہے کہ، "ہر انسان کے اندر ایک کتاب ہوتی ہے مگر ہر انسان اسے پڑھ نہیں سکتا ہے”، اسی طرح ایک اور چینی کہاوت ہے کہ "جب آدمی 10 کتابیں پڑھتا ہے تو وہ 10 ہزار میل کا سفر طے کر لیتا ہے۔”
اس کے مقابلے میں جن معاشروں اور ملکوں میں خواندگی کی شرح یا کتاب پڑھنے کا تناسب کم ہو گا وہاں لامحالہ طور پر جہالت اور غربت زیادہ ہو گی جس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ کم خواندہ ممالک جن میں پاکستان سرفہرست ہے وہاں زیادہ تر ان پڑھ مزدور پائے جاتے ہیں اور اگر کچھ پڑھے لکھے ہیں بھی تو وہ کم تعلیم یافتہ یا اصولی طور پر ان پڑھ ہیں جن میں سیاست دان بھی شامل ہیں جو ان کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔
دنیا بھر کے دانشوروں اور فلسفیوں کے نظریات و اقوال کا جائزہ لیں تو کتاب بینی ہی کی بنیاد پر انسانی تہذیب و کلچر نے ترقی کی ہے جس کے بارے مختلف الخیال اقوال زریں نمایاں ہیں:
گورچ فوک کہتے ہیں: "اچھی کتابیں وہ نہیں جو ہماری بھوک کو ختم کر دیں بلکہ اچھی کتابیں وہ ہیں جو ہماری بھوک بڑھائیں جو کہ زندگی کو جاننے کی بھوک ہے۔”
ائولس گیلیوس کہتے ہیں: "کتابیں خاموش استاد ہیں۔” فرانس کافکا کا خیال ہے: "ایک کمرہ بغیر کتاب کے ایسا ہی ہے جیسے ایک جسم بغیر روح کے ہو۔”
گوئٹے کا کہنا ہے:
"بہت سے لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ مطالعہ سیکھنا کتنا مشکل اور وقت طلب کام ہے، میں نے اپنی زندگی کے 80 سال لگا دیئے لیکن پھر بھی یہ نہیں کہہ سکتا ہوں کہ میں صحیح سمت کی جانب چلتا رہا ہوں۔”
تھومس فون کیمپن کی رائے ہے: "جب میں عبادت کرتا ہوں تو میں خدا سے باتیں کرتا ہوں، لیکن جب میں کوئی کتاب پڑھتا ہوں تو خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے۔” جین پاؤل کا قول ہے: "کتابیں ایک طویل ترین خط ہے جو ایک دوست کے نام لکھا گیا ہو۔” گٹھولڈ لیسنگ کے مطابق: "دنیا اکیلے کسی کو مکمل انسان نہیں بنا سکتی، اگر مکمل انسان بننا ہے تو پھر اچھے مصنفین کی تصانیف پڑھنا ہونگی۔” نووالیس کے مطابق: "کتابوں سے بھری ہوئی لائبریری ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہم ماضی اور حال کے دیوتاؤں سے آزادی کے ساتھ گفتگو کر سکتے ہیں۔” ایک جرمن قول ہے: "کتابیں پیالے کی مانند ہیں جن سے پانی پینا تمہیں خود سیکھنا ہو گا۔”
جرمن زبان میں گدھے کو ایزل کہتے ہیں جب اس لفظ کو الٹا پڑھا جائے تو یہ لیزے بنتا ہے اس لئے یہ کوئی عجوبہ نہیں ہے اگر یہ کہا جائے کہ کچھ معلومات حاصل کرنے کے لئے تمھیں گدھے کی طرح محنت کرنا ہو گی۔ لیکن اس حوالے سے ایک سروے کی رپورٹ ہے کہ پاکستان میں کتابیں پڑھنے کے شوق کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں کتاب کے لئے سالانہ فی کس اوسطاً صرف 6 پیسے خرچ کئے جاتے ہیں. یہ سچ ہی تو کہا جاتا ہے کہ، "ہم ذہنی غلامی ہیں” جس کی بنیادی وجہ ہماری یہی "کتاب دشمنی” ہے۔
یہ شرمناک حد تک سوشل میڈیا پر وقفے وقفے سے ٹریڈ چلایا جاتا ہے کہ پاکستان میں لاہور جیسے بڑے شہر جہاں مشہور زمانہ گورنمنٹ کالج، ایف سی کالج اور پنجاب یونیورسٹی بھی ہیں، "جوتے شوکیسوں میں دیکھے جاتے ہیں اور کتابیں زمین پر پڑی نظر آتی ہیں۔ جس معاشرے میں کتابیں پڑھنے کا شوق نہ ہو وہ کبھی شعور حاصل نہیں کر سکتا یے۔
کتاب سے ہماری عدم دلچسپی کی ایک دوسری بڑی وجہ ہماری فوک سوچ بھی ہو سکتی ہے جس کے زیر اثر ہم نے علم کو عمل میں ڈھالنے کی بجائے اسے بے عملی کی لذت میں پرونے کی کوشش کی ہے جس کی ایک مثال بابا بلھے شاہ کا زبان زد عام یہ مقولہ نما پنجابی مصرعہ ہے کہ: "علموں بس کریں او یار” اصل میں تو اس کا مطلب زیادہ علم کی جگہ زیادہ عمل پر زور دینا مقصود ہے مگر ہمارا تجاہل عارفانہ ردعمل دیکھیں کہ عملی طور پر ہم نے اس کا الٹا مطلب نکالا ہے کہ "علموں بس کریں” کا ہم نے یہ عملی مفہوم نکالا ہے جس کا اردو ترجمہ ہے کہ، کتاب پڑھ کر علم حاصل نہ کریں یعنی علم حاصل کرنے سے توبہ کر لیں!
اہل مغرب کے ہاں علم کی عملیت کا تعین ہوا اور بڑے فلسفی پیدا ہوئے جیسا کہ فلسفہ کے میدان میں رسل نے علمیات (Epistemology) پر بھی بہت کام کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ علم کی حقیقت کو سمجھنا اور اس کی حدود کو جانچنا فلسفے کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ رسل نے یہ نظریہ پیش کیا کہ علم کی بنیاد تجربات اور منطقی تجزیے پر ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا، "علم کا سب سے بڑا دشمن یقین ہے”۔ ان کے اس نظریے نے فلسفیانہ سوچ میں ایک نئی راہ ہموار کی جس کے پس منظر میں مغرب میں علمی اور سائنسی انقلاب برپا ہوا۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں گزشتہ 500 سالوں میں بھی اقبال کے سوا کوئی ایسا بڑا فلسفی پیدا نہیں ہوا جو ہماری سوچ کے سوتوں میں عمل کی تحریک بھرتا کہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے،
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔