علمی و ادبی جہت … ’’شعوروادراک‘‘
تبصرہ نگار: ڈاکٹر حمیرا حیات
(دہلی یونیورسٹی ، دہلی )
سہ ماہی کتابی سلسلہ ’’شعور و ادراک‘‘ خان پور سے محمد یوسف وحیدکی زیرِ ادارت علمی و ادبی جریدہ ہے ۔ تین زبانوں اُردو،سرائیکی اور پنجابی میں منفرد ،معلوماتی،عمدہ تحریروں سے قارئین کے لیے دلچسپی کا سامان مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ فروغ ِعلم و ادب کے لیے کوشاں ہے ۔’’شعورو ادراک‘‘ کا چوتھاخصوصی شمارہ اکتوبر تا دسمبر ۲۰۲۰،اُردو ادب کی فعال ادبی شخصیت حیدر قریشی کی پچاس سالہ علمی و ادبی خدمات کے حوالے سے بطور خراجِ عقیدت’ ’حیدر قریشی گولڈن جوبلی نمبر‘‘ شائع کیا گیا ہے۔حیدر قریشی ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔بحیثیت ادیب اُردو زبان وادب کی تقریباً تمام اصناف پر طبع آزمائی کرچکے ہیں ۔ خان پور سے ہی اُردو زبان و ادب کی خدمات انجام دینے والا’’جدید ادب‘‘ اُردو کا بہترین جریدہ تھا ۔ جسے حیدر قریشی نے پہلے خان پور سے اور بعدازاں جرمنی سے شائع کیا۔ اسی سلسلے کی ایک اہم، منفرداور معیاری کڑی مجلہ ’’شعورو ادراک ‘‘ہے۔
حیدر قریشی کی علمی و ادبی خد مات کے پچاس سال مکمل ہونے پر’’شعورو ادراک‘‘ نے انھیں خراج ِعقیدت پیش کرتے ہوئے ایک اہم اوریادگارخصوصی نمبرترتیب دیا ہے۔اس کام کی ستائش کرتے ہوئے حیدر قریشی نے مدیر’’شعورو ادراک‘‘کاخصوصی شکریہ ادا کیا ہے ۔اظہار تشکِر میں لکھتے ہیں:’’جب میری زندگی کی پہلی غزل چھپی تھی تو میں بچوں کی طرح خوش ہوا تھا۔ آج جب ادبی زندگی کے پچاس سال مکمل ہونے پر اپنے ہی شہر سے ایک اعلیٰ معیار کے رسالے کے’’ گولڈن جوبلی نمبر‘‘ کا اعزاز مل رہا ہے تو آج بھی بچوں کی طرح خوش ہوں۔ میں نے خود پر کوئی مصنوعی دانشوری طاری نہیں کی کہ۔۔۔۔‘‘ ہاں جی یہ میری نصف صدی کی خدمات کا صلہ ہے۔ایسا باکل بھی نہیں ہے ۔’’شعورو ادراک‘‘ خان پور کے اس گولڈن جوبلی نمبر کی اشاعت پر میں رسالے کے مدیر کے مدیر محمد یوسف وحید کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘
مدیرمجلہ محمد یوسف وحید نے مذکورہ شمارے میں اظہار ِتشکر اور اپنی بات کے بعد چارعنوان پیش کیے ہیں۔ پہلا ’فن وشخصیت ‘ جس میںحیدر قریشی کے حوالے سے مختلف اوقات میں لکھے گئے معروف ادیبوں کے(۳۹)مضامین شامل ہیں۔ان میں حیدر قریشی سے لیے گئے تین انٹرویوبعنوان’انٹرنیٹ کے ذریعے مکالمہ(ڈاکٹر نذرخلیق ) ، ’’حیدر قریشی کا تصورِ محبوب ایک مکالمہ‘‘(فرزانہ یاسمین) اور ’’حیدر قریشی کاتخلیقی سفر‘‘(نصرت بخاری) دلچسپ اور معلوماتی ہیں۔ ان انٹرویو ز سے قارئین کو حیدر قریشی کی شخصیت ،زندگی کے پیچ وخم اورادبی زندگی کو قریب سے جاننے کا موقع ملتا ہے ۔اس کے علاوہ ڈاکٹر انور سدید کا مضمون ’جرمنی میں پاکستان کا ادبی اور تہذیبی سفیر:حیدر قریشی‘،نذیر احمد بزمی کا ’نصف صدی کا قصہ حیدر قریشی‘،محمد یوسف وحید(مدیر :شعور و ادراک )کا’ حیدر قریشی کا گلشنِ ادب‘ارشد خالد کا ’حیدر قریشی کی ادبی تیزرفتاری‘،ڈاکٹر عامر سہیل کا ’’حیدر قریشی کی یادنگاری‘‘،اکٹر ندیم احمد کا’’حیدر قریشی خان پور کا نمائندہ ادیب‘‘ اہم مضامین ہیں ۔ان مضامین میںحیدر قریشی کے فکرو فن کی تمام جہتوں کے ساتھ ادبی زندگی کے مختلف مراحل ،علمی و ادبی سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔کتاب کے اسی حصے میں اکبر حمیدی اور نذیر فتح پوری کے دو خاکوں کے علاوہ حیدر قریشی کی شاعری پر مختلف مضامین پیش کیے گئے ہیں۔جن میںڈاکٹر ہردے بھانو پرتاب کا ’’حیدر قریشی کی نظم نگاری کا خصوصی مطالعہ‘‘،ناصر عباس نیرکا ’’حیدر قریشی کی غزلیہ شاعری:ایک تجزیہ‘‘،مظہر امام کا ’’عمرِ گریزاں کی شاعری‘‘،ہارون رشید کا’’غزلیں ،نظمیں ،ماہیے ایک مطالعہ‘‘،کے علاوہ حیدرقریشی کے انشائیے اور مختلف کتب کا مجموعی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔بلاشبہ یہ تنقیدی وتحقیقی مضامین حیدر قریشی کے تمام ادبی جہتوں کوقارئین کے سامنے پیش کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
مجلہ شعوروادراک کا دوسرا حِصہ شعری تخلیقات پر مشتمل ہے۔ جس میں حیدر قریشی کی غزلیں،نظمیں اور ماہیے شامل ہیں۔ اس حصے میں (۴۰ )غزلیں،(۶) نظمیں ’’سرسوں کا کھیت،دل،منی پلانٹ،صدا کا سمندر، چلو ایک نظم لکھتے ہیں،ایک خواہش کی موت‘‘اور (۷)ماہیے موجود ہیں۔ان شعری اصناف میںحیدر قریشی بحیثیت شاعر ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔جس سے قارئین کو ان کے شعری لواز م ومعیارسمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔تیسراعنوان’ تخلیقات‘ ہے ۔اس حصے میں قارئین کو حیدر قریشی کے نثری اثالیب ،زبان وبیان ، اندازبیان کا اندازہ ہوجاتا ہے ۔کتاب کے اس حصے کو سعدیہ وحید نے ترتیب دیا ہے۔ جس میں حیدر قریشی کے کل( ۳) افسانے ’’غریب بادشاہ‘‘ ،’’گھٹن کا احساس‘‘،’’اپنے وقت سے تھوڑا پہلے ‘‘،(۶) خاکے جن میں ’’ڈاچی والیا موڑ مہاڑوے‘‘،’’مصری کی مٹھاس اور کالی مرچ کا ذائقہ ‘ ‘ ،’’برگد کا پیڑ‘‘،’’مائے نی میں کنوں آکھاں‘‘،’’پسلی کی ٹیڑھ دوسرا حصہ‘‘اوریادوں پر مشتمل کتاب ’کھٹی میٹھی یادوں‘ سے (۳) اقتباسات اور (۲) انشائیہ بعنوان ’’اطاعت گزاری‘‘ ،’’فاصلے ،قربتیں‘‘اور ایک ابتدائیہ سفرنامہ حج ’سوئے حجاز‘ سے شامل کیا گیا ہے۔کتاب کا آخری اور چوتھاحصہ’ مضامین‘ ہے۔ جس میں حیدر قریشی کے (۴) مضامین ، اور خالد یزدانی کا ’نظرے خوش گزرے‘ کے علاوہ حیدر قریشی کے انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں۔
مدیر:’’شعورو ادراک‘‘ محمد یوسف وحید نے اپنی بات میں لکھا ہے کہ ’’شعور وادراک ‘‘کے حالیہ شمارے میں حتی المقدور کوشش اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے حیدر قریشی کے فن و شخصیت اور علمی ادبی خدمات کا بھر پور اعتراف کرتے ہوئے جملہ خلوص و محبت کے ساتھ شمارہ کو یاد گار تحریروں سے سجا کر ایک گلدستہ پیش کیا گیا ہے‘‘ ۔ مدیر کی بات میں کتنی صداقت ہے اس بات کا اندازہ یقینا شمارے کامجموعی جائزہ لینے کے بعد ہو جاتا ہے۔درحقیقت مدیر نے مختلف رنگ برنگے گلوںسے سجا ادبی گلدستہ پر بہار شخصیت حیدر قریشی کو پیش کرکے نا صرف مصنف کو بلکہ قارئین کوبھی ادبی تخلیق کا دلچسپ تحفہ دیاہے ۔اُمید ہے کہ قارئین اس کوشش کو پسند کریں گے۔بلاشبہ ’’شعور وادراک حیدر قریشی گولڈن جو بلی نمبر ‘‘ موضوع کے اعتبار سے ایک مکمل شمارہ ہے ۔جس میں حیدر قریشی کے تقریبا سبھی ادبی و شخصی پہلوئوں کو پیش کیا گیا ہے ۔میری طرف سے مدیر محمد یوسف وحید کو ’’شعورو ادراک‘‘کے خاص نمبر مرتب کرنے پر دلی مبارکباد ۔
٭
(بحوالہ : سہ ماہی شعوروادرا ک خان پور ، مدیر:محمد یوسف وحید ، شمارہ نمبر 4،’’حیدر قریشی گولڈن جوبلی نمبر‘‘ پر تبصرہ ، ص: 232)
٭٭٭
ڈاکٹر حمیرا حیات
دہلی یونیورسٹی ، دہلی
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔