الیکشن سنہ 2024ء سیاسی انقلاب یا خرید و فروخت کی منڈی؟
بے شمار بدگمانیوں اور خدشات کے باوجود الیکشن 2024ء منعقد ہو گیا۔ اس سے دو روز قبل کراچی میں اور 8فروری کو الیکشن والے دن کچھ بم دھماکے ہوئے اور جانی نقصان بھی ہوا مگر اس کے باوجود یہ الیکشن مقابلتا پرامن طریقے سے ہوا۔ ملک بھر کے پولنگ سٹیشنز پر ہنگامہ آرائی یا لڑائی جھگڑے کے واقعات بھی تقریبا نہ ہونے کے برابر رپورٹ ہوئے۔ اب حکومت مخالف طبقہ کا یہ گلہ بھی نہیں بنتا ہے کہ الیکشن کے روز نیٹ اور فون کالز کیوں بند کی گئی تھیں، کیونکہ حکومت سیکورٹی تحفظات کی وجہ سے یہ اقدامات اٹھانے پر مجبور تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی سے بلا کا انتخابی نشان چھن جانے اور اس کے امیدواروں کو خوف اور ہراسانی کے ماحول میں رکھے جانے کے باوجود ابتدائی اطلاعات کے مطابق "ووٹنگ ٹرن اوور” ریکارڈ حد تک بہترین رہا۔ یوں اس اعتبار سے حکومت اور الیکشن کمیشن اس کامیاب الیکشن کے انعقاد پر باقاعدہ طور پر مبارک باد کے مستحق ہے۔ البتہ ووٹنگ ختم ہونے کے بعد جب الیکشن کے نتائج آنے کا مرحلہ شروع ہوا تو شام 6 سے 8 بجے تک تو رزلٹس بڑی تیزی کے ساتھ آتے رہے مگر جب دیکھا کہ "پروگرام” الٹا ثابت ہونا شروع ہو گیا ہے تو 8 سے 10 نتائج کی اسپیڈ انتہائی سلو کر دی گئی اور اس کے بعد نتائج کا اعلان کرنے کی تقریبا بریک لگا دی گئی جب ذرائع کے مطابق جیتنے والے آزاد امیدواروں (یعنی پی ٹی آئی کے کامیاب ہونے والوں) کی تعداد 125 اور نون لیگ کی کامیاب نشستوں کی تعداد محض 40 تھی اور پیپلزپارٹی کے 15 سے 20 کامیاب امیدوار بھی نون لیگ کو سر درد کی مانند کافی ٹف ٹائم دے رہے تھے۔
تا دم تحریر اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ اس الیکشن کے حیران کن نتائج مقتدرہ اور نون لیگ کی امیدوں پر پانی پھیرنے کا کام کر سکتے ہیں۔ نتائج کے اعلان میں جتنی دیر ہو گی اس سے الیکشن کی شفافیت پر اتنے ہی زیادہ سوالات اٹھیں گے۔ پی ٹی آئی کی "مقبولیت” اور "ووٹ بنک” کے پیش نظر مقتدرہ، خفیہ ایجنسیوں اور لاڈلی سیاسی جماعت نون لیگ کو بھی اندازہ تھا کہ پی ٹی آئی کے ووٹر الیکشن والے دن اچانک پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ اس نفسیاتی خوف اور شکست کو دور کرنے کے لیئے نون لیگ نے ملکی اور غیر ملکی لابنگ ایجنسیوں کی خدمات حاصل کیں اور الیکشن سے چند روز پہلے بی بی سی اور دیگر سروے رپورٹس میں میاں محمد نواز شریف کو مقبول ترین لیڈر قرار دلوایا گیا۔ یہاں تک کہ جس روز الیکشن مہم ختم ہونی تھی پاکستان کے درجن بھر تمام بڑے انگریزی اور اردو اخبارات کے پورے فرنٹ پیج کی خبروں کو اشتہار کی صورت میں خریدا گیا جس پر لکھوایا گیا: "نواز شریف وزیراعظم، عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا” جس کے نیچے "شیر” کے انتخابی نشان کی تصویر شائع لگائی گئی تھی۔ یہ الیکشن سے عین پہلے عوامی رائے کو متاثر کرنے کی انتہائی بھونڈی حرکت تھی، جس کے خلاف پی ٹی آئی لوورز نے ووٹنگ کے دوران اسے جتوا کر شدید ردعمل ظاہر کیا۔ دراصل بقولے شخصے بے شک یہ نفرت کا ووٹ ہے، بغیر انتخابی مہم، بغیر پولنگ کیمپ، بغیر ووٹر پرچی تقسیم کئے، بغیر پوسٹر اور بینرز لگائے ابتدائی نتائج میں اتنی نشستیں حاصل کرنا کسی "معجزہ” سے کم نہیں ہے۔
اس کالم کے شائع ہونے تک نتائج حکومت سازی کی پکچر واضح کر دیں گے اور اگر اس دوران رگنگ ہو گئی، نتائج تبدیل کیئے گئے یا بعد میں آزاد امیدواروں کو نون لیگ میں بزور طاقت شامل کرایا گیا تو قوم دیکھ لے گی کہ اتنی سیاسی زیادتی کے باوجود عمران خان کا ووٹ بینک ختم نہیں ہوا، جس کا الٹا نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ آزاد امیدواروں کو "منڈی” بنانے، انہیں خریدنے اور انہیں زبردستی نون لیگ میں شامل کرنے سے "کپتان” کا ووٹ بنک اور اسکی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو گا۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے "All is well that ends well” کہ اچھا وہی ہے جس کا انجام اچھا ہو۔ اس وقت الیکشن نتائج کا بال مقتدرہ کی کورٹ میں چلا گیا یے، دیکھتے ہیں کہ وہ کیا اہم فیصلہ کرتی ہے؟ اگر الیکشن 2013 اور 2018 کی طرح 2024 میں بھی آزاد امیدواروں کو متاثر کیا گیا یا جمہوری اصولوں کی پامالی کی گئی تو یہ الیکشن گزشتہ 11الیکشنوں سے زیادہ بدنام اور خطرناک ثابت ہو گا۔ اس کی دو امکانی صورتیں ہیں۔ اول آزاد امیدواروں کو نون لیگ میں لے جایا تو ان کی اسی طرح 25کروڑ تک یا اس سے بھی زیادہ کی بولی لگنے کا امکان ہے جس طرح عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں لگی تھی۔ تب تو چند درجن پارلیمان تھے مگر اس دفعہ تو اب تک کے نتائج کے مطابق 150 تک آزاد امیدوار ہیں جن کی آنے والے نتائج میں تعداد یقینا بڑھے گی۔ اگر واقعی ان آزاد جیتنے والے ممبران کو منڈی بنایا گیا تو یہ پوری پارلیمنٹ ہی کو خریدنے والی بات ہو گی۔ یہی بات پاکستان کے ایک گزشتہ الیکشن کے موقع پر ایک امریکی سینیٹر نے کہی تھی کہ "پیسہ ہو تو پاکستان کی پوری اسمبلی کو خریدا جا سکتا ہے”۔ اس کے برعکس ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس الیکشن کے یہ نتائج اسٹیبلشمنٹ کی آنکھیں کھول دیں اور وہ سول بالادستی قائم ہونے کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔
یہ وہ واحد جمہوری راستہ یے کہ اسٹیبلشمنٹ جیتنے والے ان آزاد امیدواروں کو بکنے سے روکے اور انہیں اپنے آزادانہ اور کھلے دل سے کئے گئے فیصلے سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے دے۔ اگر یہ آپشن استعمال ہوا تو یہ کسی سیاسی انقلاب سے کم نہیں ہو گا۔ اس سے ایک تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں پچھلی مداخلتوں کی سیاہی دھل جائے گی اور دوسرا جمہوریت کے اپنی اصل شکل میں رائج ہونے کا آغاز بھی ہو جائے گا۔ بہرکیف تاحال میاں نواز شریف کے چوتھی بار لندن سے آ کر وزیراعظم بننے کا خواب گومگو کا شکار ہو گیا ہے۔ وہ بڑے عزت مان لے کر آئے تھے جسے ووٹروں نے سردست تار تار کر دیا یے۔ اس صورتحال میں نون لیگ ایک عجیب و غریب مخمصے کا شکار ہو گئی ہے جس سے یہ واقعہ یاد آتا یے:
ایک طوائف رات کو دھندا کر کے واپسی لوٹی تو اس کے گھر کے دروازے کے باہر ہی اس کے ساتھ ڈکیتی ہو گئی. شور مچانے پر محلے دار جمع ہو گئے اور تسلی دی کہ بی بی شکر کرو عزت بچ گئی، تم گلی میں اکیلی تھی، جس پر اس نے جواب دیا، "بھئی عزت بیچ کر ہی تو پیسے کمائے تھے جو ڈاکو لے گئے”۔
Title Image by 3D Animation Production Company from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔