زمین کی خدمت
کہانی کار: سید حبدار قائم
اس بار پھر بہت گرمی پڑی تھی۔ گاؤں کے سارے بچوں کے چہرے گرمی کی شدت سے جھلس گۓ تھے۔ ماں باپ نے اپنے بچوں کو گھر سے باہر نکلنے سے منع کر دیا تھا۔گاؤں میں جب بھی ہوا چلتی تو یوں محسوس ہوتا جیسے آگ برس رہی ہو۔ گاؤں کے شمال کی طرف ایک خشک پہاڑی تھی جس پر درختوں اور گھاس کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ لیکن خدا کی قدرت ایسی کہ اسی خشک پہاڑی کی چوٹی پر ایک چشمہ بہتا تھا۔ جس کے نزدیک گاؤں کے لوگوں نے ایک گہرا حوض بنا دیا تھا۔ جس سے انسان جانور اور پرندے پانی پیتے تھے۔ جب حوض پانی سے بھر جاتا تھا۔ تو چشمے کا پانی نیچے بہہ جاتا تھا۔
جب گاؤں کی یہ صورت حال محسنہ فضہ غور سے دیکھ رہی تھی تو اس کو بہت تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔ محسنہ فضہ نے اسی صورت حال میں گاؤں سے پانچ جماعتیں پاس کر لی تھیں ۔ اور اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے لیے گاؤں سے شہر میں چلی گئی تھی۔ جہاں اس نے جا کر ہائی سکول میں داخلہ لے لیا تھا۔ اسی دوران محسنہ فضہ کے شہر میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں محسنہ فضہ کی ٹیچر نے بچیوں کو شامل ہونے کی دعوت دی۔ محسنہ فضہ نے اپنی زندگی کا یہ پہلا سیمینار دیکھا۔ جس میں مقررین نے آلودگی اور درختوں کی اہمیت پر بحث کی۔ مقررین نے بتایا کہ درخت کس طرح انسانی زندگی کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ گرمیوں میں زمین کی تپش کا بڑھ جانا درخت نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ محسنہ فضہ نے جب آلودگی کے نقصانات سنے تو دل ہی دل میں تہیہ کر لیا کہ وہ اپنے گاؤں کو سر سبز و شاداب ضرور بنائے گی۔ چنانچہ محسنہ فضہ نے سیمینار کے بعد گھر میں جاکر اپنے والدین کے ساتھ گاؤں میں پودے لگانے کا پروگرام بنایا اس مقصد کے لیے اس نے گاؤں کی طرف سفر کیا۔ اور گاؤں میں جاکر اپنی سہیلیوں اور رشتہ داروں کو بلا کر درختوں کی اہمیت اور آلودگی کے نقصانات بیان کیے۔ تمام لوگوں کو محسنہ فضہ کی باتیں بہت پسند آئیں تو انہوں نے محکمہ جنگلات کی نرسری سے رابطہ کیا۔ جہاں بہت سارے پودے زمین میں لگانے کے لیے تیار تھے۔ محکمہ جنگلات کے افسر نے گاؤں والوں کا جذبہ دیکھا تو انہوں نے نرسری میں تیار کیے گۓ سارے پودے انہیں دے دیے ۔ ساتھ ہی محکمہ جنگلات کا ٹریکٹر اور ٹرالی بھی انہیں دے دی گئی ۔جس میں تمام پودے لاد کر وہ گاؤں میں لے گئے ۔ حوض سے بہنے والے پانی کا رخ پہاڑی کے چاروں طرف نالیاں بنا کر نیچے کی طرف کیا گیا اور ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے گڑھے کھودے گۓ۔ اور اُن کی طرف پانی کا بہاؤ کر دیا گیا۔ ان گڑھوں سے پھر پانی کا رخ پہاڑی سے نیچے زمین کی طرف بھی کیا گیا جہاں جگہ جگہ پر پودے لگا دیے گۓ ۔
چوں کہ اس سارے عمل میں گاؤں کے مردوں عورتوں بچوں اور بچیوں نے مل کر حصہ لیا تھا اس لیے ان کو ایک جگہ پر اکٹھا کیا گیا اور گاؤں کے مولانا صاحب سے درختوں کی اہمیت پر ایک تقریر کرائی گئ جس میں مولانا صاحب نے مسند امام احمد سے ایک حدیث سنائی انہوں نے کہا کہ
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
”جس شخص نے کوئی درخت اگایا اس درخت سے جو کچھ کھایا جائے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے، اور جو اُس درخت سے چوری کیا جائے تو وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے، اور جو کچھ اس درخت سے پرندہ کھا لے تو وہ بھی اس شخص کے لیے صدقہ ہے“
اس کے ساتھ ہی مولانا صاحب نے گاوں کے چاروں محلوں کے لوگوں کو درختوں کی حفاظت سونپ دی سارے گاوں والوں نے پودوں کی حفاظت کی جس کی وجہ سے
اب محسنہ فضہ کے گاوں میں ہریالی ہی ہریالی ہے اب گاوں کے بچے درختوں کے نیچے کھیلتے ہیں درختوں پر پرندے آتے ہیں جن کی چہچہاہٹ زندگی کا پتہ دیتی ہے گرمیوں کی شدت بھی کم ہو گئی ہے سچ ہے کہ درخت زندگی ہیں یہ آکسیجن خارج کرتے ہیں جو انسانی زندگی کے لیے بہت ضروری ہے
کافی عرصہ کے بعد محکمہ جنگلات کے افسر کا اس گاوں میں کسی کام کے لیے جانا ہوا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جس گاوں میں صرف پتھر ہی پتھر نظر آتے تھے وہاں درخت ہی درخت اور چاروں طرف سبزہ ہی سبزہ ہے محسنہ فضہ کی محنت رنگ لے آئی تھی جب وہ افسر گاوں سے واپس ہوا تو شہر میں ڈپٹی کمشنر اور دوسرے افسران سے ملا ساتھ ہی اس نے محسنہ فضہ کے گاوں کی فضا کی تبدیلی کا ذکر کیا
سارے افسران نے یہ فیصلہ کیا کہ محسنہ فضہ کو زمین کی خدمت کرنے پر ایوارڈ دیا جاۓ چناں چہ شہر میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں صحافیوں کو بلایا گیا اور محسنہ فضہ کی شجر کاری کے متعلق بتایا گیا اور آخر میں اسے گولڈ میڈل دیا گیا دوسرے دن اس کے متعلق بہت سارے اخبارات میں خبر چھپی اور ٹی وی چینلز پر بھی خبر چلائی گئی جس کو گاؤں والوں نے اخبارات میں پڑھا اور ٹی وی پر دیکھا سارے گاوں میں خوشی منائی گئی اور محسنہ فضہ کی تعریف کی گئی اور اسے مبارک باد دی گئی یوں ایک بیٹی نےنہ صرف اپنا بل کہ پورے گاؤں کا نام روشن کر دیا
سچ ہے جو لوگ نیکی کا کام کرتے ہیں انہیں اللہ پاک نہ صرف دنیا بل کہ آخرت میں بھی انعام اور عزت سے نوازتا ہے
پیارے بچو! آپ بھی اپنے گھروں اور زمینوں میں درخت لگا کر زمین کی خدمت کریں کیونکہ یہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کی سنت ہے اور زمین کا زیور بھی ۔ یہ درخت زندگی ہیں ان سے پیار کریں اور انہیں کٹنے سے بچائیں
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔