پاکستان کے ابتدائی کرنسی نوٹ
حکومت پاکستان نے 1948 میں پانچ ، دس اور سو روپے کے نوٹ جاری کئے ۔ اس پر وزیر خزانہ ( ملک) غلام محمد کے دستخط بزبان انگریزی تھے ۔
نوٹوں پر صرف اردو اور انگریزی دو زبانوں میں ہندسے اور رقوم تھیں۔ ان نوٹوں پر عوام کی تسلی کے لیے چارسطروں کا تفصیلی اقرارنامہ تھا۔
میں اقرار کرتا ہوں کہ
عندالمطالبہ حامل ھذا کو
پانچ روپیہ
سرکاری خزانہ کراچی سے ادا کروں گا
1948 میں حکومت پاکستان نے ایک روپیہ کا نوٹ جاری کیا ۔اس پر سیکریٹری وزارت مال کے دستخط تھے ۔اس پر اردو ،انگریزی اور بنگالی تین زبانوں میں ہندسہ لکھا ہوا تھا ۔ اس کے بعد کے کرنسی نوٹوں میں یہی روایت برقرار رکھی گئی ۔سیکرٹری صاحب وی اے ٹرنر خود بھی انگریز تھے اور دستخط بھی انگریزی میں فرمائے۔
اتفاق سے اسٹیٹ بینک کے ایک گورنر کا نام بھی ان سے ملتا جلتا وی اے جعفری تھا۔ جب جعفری صاحب نے اپنے دور میں کرنسی نوٹوں پر اردو میں دستخط ثبت کئے تو ان کا۔ اصلی دلآویز نام وسیم عون سامنے آیا ۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نوٹ جاری کرنے کا آغاز 1951 میں پانچ اور دس کے نوٹ چھاپ کر کیا۔ اور ان نوٹوں سے ہی کرنسی نوٹوں پر گورنر سٹیٹ بینک کے دستخط کرنے اور بزبان اردو کرنے کا آغاز ہوا۔ ان پر زاہد حسین کے دستخط تھے ۔اس میں ایک سطر کا اقرار نامہ تھا ۔لیں جی پڑھیں اور چاہیں تو ڈکشنری کی مدد سے اس کے معنی سمجھ لیں ۔
میں وعدہ کرتا ہوں کہ حامل ھذا کو جس دارالاجراء سے وہ چاہے عندالطلب مبلغ دس روپیہ ادا کر دوں گا
۔چلو ایک مسئلہ تو حل ہوگیا اب حامل ھذا کو کرنسی نوٹ کے بدلے اصلی سرکاری روپیہ لینے کے لئے کراچی نہیں جانا پڑے گا ۔اب اس کی قسمت کہ دارالاجراء کا مطلب اور محل وقوع بتانے والا کوئی منشی فاضل / عربی فاضل ملتا ہے یا نہیں ۔
پڑھے لکھے لوگوں کو اچھی طرح پتہ ہے کہ بینک دولت پاکستان کا مطلب پاکستان کی دولت محفوظ رکھنے والا بینک ہے ۔
پرانے زمانے کے لوگ سادے لوگ دولت کو اسٹیٹ سمجھتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔