دعائے قنوت
عشاء کی نماز میں تین وتر پڑھے جاتے ہیں ۔ ان کی تیسری رکعت میں دعائے قنوت پڑھتے ہیں یہ دعا تھوڑی سی لمبی ہے اور اس میں کئی جگہ ملتے جلتے الفاظ سے بندہ غلطی کر جاتا ہے ۔ راقم کا تجربہ ہے کہ اچھے بھلے تعلیم یافتہ اور دنیاوی لحاظ سے بڑے عہدوں پر فائز حضرات جو پرانے پکے نمازی ہیں وہ بھی دعاء قنوت میں گڑبڑ کر جاتے ہیں ۔اس لئے دعائے قنوت کے سیکھنے سکھانے ،سننے سنانے کا اپنے گھروں ،دفتروں اور واک کے دوران اہتمام کرنا چاہیئے۔
اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِيْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ، وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَلُّ عَلَيْکَ، وَنُثْنِيْ عَلَيْکَ الْخَيْرَ، وَنَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ يَفْجُرُکَ، اَللّٰهُمَّ اِيَاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّيْ وَنَسْجُدُ وَاِلَيْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ، وَنَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌّ.
اسرائیلی جاسوس ایلی کوہن مسلمان بن کر شام میں 1962 سے 1965 تک جاسوسی کرتا رہا جب وہ پکڑا گیا تو تفتیش کے دوران اس کو دعائے قنوت سنانے کا کہا گیا 1984 میں کتاب پڑھی تھی اب اس کی تفصیلات یاد نہیں/
آپ گپ شپ میں کسی تبلیغی ساتھی سے پہلی دفعہ تبلیغ میں نکلنے کی کار گزاری سنیں تو بڑی دلچسپ کہانیاں سننے کو ملیں گی ۔۔2006 میں پی او ایف ہسپتال واہ کینٹ میں سوات کے ایک خان صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے عجیب قصہ بیان کیا ۔
.ام بس ڈرائیور ہے ۔ایک دن گھر گیا تو بیگم چھوٹی بیٹی کو نماز سکھا( نتا) رہی تھی ۔ میں بیٹھ کر سننے لگا۔ بیٹی کوئی عجیب نامانوس دعا پڑھ رہی تھی۔میں نے بیگم کو غصے سے کہا اس کو کیا عجیب و غریب طریقے سے نماز پڑھا رہی ہو۔بیگم بولی یہ وتر ہیں اس میں دعا قنوت پڑھ رہی ہے ۔میں نے دعا قنوت کا نام پہلی دفعہ سنا۔ پھر اس کو سیکھنے کے لئے تبلیغ میں تین دن لگائے۔
پٹھانوں والی مسجد سرگودھا کا پرانا تبلیغی مرکز تھا۔ ہم لوگ 1977 میں میڈیکل کالج لاہور سے اس مسجد میں تین دن کے لئے آئے تھے ۔ وقت کے ساتھ یہ مسجد چھوٹی پڑ گئی تو فیکٹری ایریا میں بڑا نیا مرکز بنایا گیا۔ 2005 میں مجمع زیادہ تر دیہاتی ہوتا تھا جس کی وجہ سے شب جمعہ میں سائکل سٹینڈ میں خوب رش اور رونق ہوتی تھی ۔ ہمارا گھر سرگودھا کینٹ سے مرکز واکنگ ڈسٹنس تھا۔ مزے سے چہل قدمی کرتے ہوئے پہنچ جاتے تھے ۔ مرکز میں پرانے ڈاکٹر دوستوں سے ملاقات ہوئی ۔ ان میں خدا بخش رانا،یوسف صاحب ،ہیڈ فقیریاں کے ممتاز صاحب،ملک عبد الروف صاحب فزیالوجی ،وحید اشرف شامل ہیں۔
ایک دن مرکز میں ایک بزرگ فرما رہے تھے کہ ہم سرگودھا بیس پر ایک پائلٹ سے ملنے گئے تو اس نے کہا آپ بیٹھیں میں آپ کے اکرام کے لئے مارکیٹ سے کوئی چیز لاتا ہوں۔ہم نے کہا ہماری سائیکل لے جاؤ اس سے وقت بچ جائے گا ۔ پائلٹ صاحب فرمانے لگے ۔ میں سائیکل چلانا نہیں جانتا۔ ہم بڑے حیران ہوئے ۔کہ جہاز چلا لیتے ہیں تو سائیکل کیوں نہیں چلا سکتے ۔ وہ بولے جہاز چلانا مشکل ہے لیکن سیکھا ہے اس لیے چلا لیتا ہیں ۔سائیکل چلانا آسان ہے لیکن سیکھا نہیں اس لئے نہیں چلا سکتا۔
ڈاکٹری اور انجینئرنگ مشکل کام ہے ۔سولہ ستره سال کی جانی اور مالی محنت ہے۔اس کو ضروری سمجھتے ہیں ۔ گزارہ نہیں کرتے اہتمام کرتے ہیں تو یہ ڈگری مل جاتی ہے۔ دعا قنوت اس کے مقابلے میں بہت آسان ہے لیکن اس کی طرف توجہ اور دھیان نہیں ہوتا۔گزارہ کرتے ہیں، اہتمام نہیں کرتے تو یہ یاد نہیں ہوتی اس کے بعد مسئلہ پوچھتے ہیں ؛ کیا دعا قنوت پڑھنا ضروری ہے؟
1996میں میری ڈیوٹی حج میڈیکل مشن میں لگی ۔ڈاکٹروں میں نثار چیمہ صاحب( بعد میں ایم این اے ) اور ہمارے کلاس فیلو کرنل عبدالستار راشد شامل تھے ۔نرسنگ سٹاف میں گنڈاکس بھٹی فیملی کی میجر صاحبہ بھی شامل تھیں۔نثار چیمہ صاحب کے واسطے سے اردو ڈائجسٹ والے الطاف حسن قریشی صاحب سے مکہ مکرمہ میں ملاقات ہوئی ۔
مدینہ منورہ میں چھ سات ڈاکٹر صاحبان اکٹھے تھے نماز کا مذاکرہ / سننا سنانا شروع کیا ۔ باری باری ہر ایک نے نماز سنائی ،حالات نارمل سپیڈ سے چل رہے تھے ۔ ایک میجر ڈاکٹر صاحب کی دعا قنوت سنانے کی باری آئی تو فرمانے لگے …کیا وتر نماز میں دعا قنوت پڑھنا ضروری ہے؟
2004 کی بات ہے سرگودھا میں ایک بزرگ فرما تھے ۔ میں ٹرانسفر ہو کر دوسرے شہر میں گیا۔ وہاں امام صاحب نے تین چار روز مجھے مسجد میں دیکھا تو فرمایا۔ نماز کے بعد مجھے حجرے میں ملیں ۔ میں نے سوچا ان کو شاید میرے محکمے سے متعلق کوئی کام ہو گا۔ نماز کے بعد حجرے میں حاضر ہوا تو امام صاحب نے فرمایا ہماری مسجد کی روٹین ہے کہ جب کوئی نیا نمازی آتا ہے تو ہم اس سے نماز کا سبق تنہائی میں علیحدگی میں حجرے میں بٹھا کر سنتے ہیں ۔اگر کوئی غلطی ہو تو بروقت اصلاح کی کوشش کرتے ہیں ۔ ورنہ ہوتا یہ ہے کہ سالوں سال درس اور وعظ سننے والوں کی نماز کی غلطیاں چلتی رہتی ہیں ۔ نہ ہائی لائٹ ہوتی ہیں اور نہ ان کی اصلاح ہوتی ہے۔ خیر انہوں نے میری نماز سنی ۔غلطی نہ ہونے پر خوش ہوئے۔ پوچھنے لگے نماز کب سیکھی اور درست کی ہے۔ میں نے عرض کیا یہ سب سیکھنے سکھانے کے تبلیغی ماحول کی برکت ہے۔
سبق۔ ہم اپنی مساجد اور اپنے گھروں میں سیکھنے سکھانے کا ماحول بنائیں۔
2008 کی بات ہے مینیجر غلام حسین سندھو صاحب ایسٹ پارک واہ کینٹ میں رہتے تھے ۔ مقامی گشت کا دن تھا ۔باقی ساتھی محلے میں گشت کے لئے گئے ۔مجھے مسجد میں بٹھا گئے ۔ کہ میں کلمہ ،نماز،علم و ذکر ،اخلاق،اخلاص، دعوت کے ٹاپکس پر بات کروں۔ سامع تھے سندھو صاحب کے سسر۔ میں نے بات شروع کی تو چاچا جی بول پڑے ۔۔مینوں سب پتہ اے ۔اگلي بات کی تو فرمانے لگے ۔میں تبلیغ والوں کو جانتا ہوں اندروں ہور تے باہروں ہور ۔
میں نے ہتھیار ڈال دیے۔ عرض کیا تبلیغ کی بات ختم۔ میں آپ کو نماز سناتا ہوں۔ آپ سنیں۔ پھر آپ کی باری ہو گی آپ نماز سنائیں میں سنوں گا۔ اس پر وہ راضی ہو گئے ۔ حالات ٹھیک چل رہے تھے ۔جب دعا قنوت کی باری آئی تو چاچا جی فرمانے لگے یہ تو مجھے نہیں آتی میں تو اس کی جگہ قل ہو اللہ پڑھتا ہوں۔
سندھو صاحب سے ملاقات ہوئی تو۔ چاچا جی کے حالات سے آگاہ کیا۔ وہ فرمانے لگے مجھے تو اس بات کا پتہ نہیں تھا۔
۔ سبق۔ (Moral) ہم اپنے گھروں میں دین کے سیکھنے سکھانے کا ماحول بنائیں۔ والدین اور بزرگوں کی نماز مذاکرے کی صورت میں سنیں۔ امتحان کا ماحول نہ بنائیں۔۔ کسی بزرگ یا حاجی صاحب کے بارے میں اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ ان کو تو نماز آتی ہوگی۔
دعا قنوت میں
و نشکرک ولا نکفرک ہے
یاد رکھیں
ولا دعا قنوت میں صرف ایک بار آیا ہے۔ نکفرک سے پہلے ۔
کچھ لوگ پڑھتے ہیں
و نشکرک و نکفرک
کچھ پڑھتے ہیں
ولا نشکرک ولا نکفرک
اس کا خیال رکھیں اور صحیح پڑھنے کی کوشش کریں۔ بلکہ ایسے پڑھیں کہ کسی کو سکھانے کی ضرورت پڑ جائے تو سکھا سکیں ۔اپنی بیگم ، بیٹی اور بہو کی نماز درست کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔
2007 میں ایسٹ پارک واہ کینٹ میں ایک بھائی کے ساتھ دعا قنوت کا مذاکرہ ہوا ۔تو انہوں نے پڑھا۔
و نشکرک و نکفرک
تفصیل سے اس غلطی پر متوجہ کیا تو فرمانے لگے۔ یہ پوائنٹ تو کبھی ہائی لائٹ نہیں ہوا
تو غنی از ھر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ھائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی نا گُزیر
از نگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر
اے اللہ میں تیرا منگتا ھوں، تو دو عالم کو عطا کرنے والا ھے۔
روزِ محشر میرا عذر قبول فرمانا
اگر میرے نامہ اعمال کا حساب نا گزیر ہے
تو پھر
اے میرے مولیٰ اسے میرے آقا محمد مصطفیٰ ﷺ کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا۔
میں رمضان 2022 کے آخری عشرہ میں دو دن کے نفل اعتکاف کے لئے مفتی سعید صاحب کی مسجد چھتر پارک گیا۔۔حسب معمول مفتی صاحب نے میری اعتکاف والوں کی نماز سننے کی ڈیوٹی لگا دی۔ میں نے لوگوں کی بزرگی اور وجاہت کی رعایت کے بغیر سب سے نماز سننا شروع کردی ۔
ایک بزرگ کیمیکل انجینئر تھے وہ امریکہ سے اعتکاف کے لئے تشریف لائے تھے ۔ ان کی باری آئی تو وہ کچھ جھجھکے اور شرمائے ۔ مجھے اٹھا کر مسجد کے ایک کونے میں لے گئے ۔ علامہ اقبال غریب نواز کی مندرجہ بالا رباعی پڑھی ،فرمانے لگے اگر نماز کی غلطیوں کا مفتی صاحب کو پتہ چل گیا تو بہت شرمندگی ہو گی ۔
نماز سنائی تو دعا قنوت بالکل نہیں آتی تھی ۔جنازے کی دعا میں بھی غلطیاں تھیں۔
It is never too late to mend
لیکن پہلا سٹیپ ہے شرمندہ کئے بغیر کسی کو اس کی غلطی سے آگاہ کرنا۔
2010میں میری رہائش واہ کینٹ میں تھی۔میں روزآنہ سوزوکی ڈبے پر ریلوے ہسپتال راولپنڈی آتا تھا۔اس عرصے میں ٹیکسلا کا انڈر پاس اور کوہ نور ملز والا اوور ہیڈ برج بن رہے تھے۔ آتے جاتے کسی نہ کسی کو لفٹ دے دیتا۔ رستے میں اگر موقعہ ملتا تو اس سے نماز کا مذاکرہ کر لیتا۔ ایک ساتھی نے دعا قنوت سناتے ہوئے فرمایا۔
بالکفار مولا ہک
یہ سن کر میرا تراہ نکل گیا۔ گزارش کی کہ دوبارہ پڑھیں ۔ پھر ارشاد ہوا
بالکفار مولا ہک
عرض کی کہ اسکا کیا مطلب ہے ۔ فرمانے لگے کیا آپ کو اس کا مطلب نہیں آتا۔ میں نے اپنی نالائقی کا اعتراف کیا ۔تو انہوں نے مہربانی کر کے اس کا مفہوم سمجھایا۔
مولا ہک کا مطلب ہے اللہ پاک ایک ہے۔
عرض کیا کہ بعض حضرات کی رائے میں مولا ہک نہیں بلکہ ملحق ہے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔