ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضی کا شعری مجموعہ برگِ صحرا
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضی کا شمار اردو کے ممتاز ادیبوں اور شاعروں میں ہوتا ہے، ان کا اردو شعری مجموعہ "برگِ صحرا” ایک متنوع ادبی تخلیق ہے، جس میں حمد و۔ نعت، نظم، اور غزل کے خوبصورت نمونے شامل کیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں شاعر نے اپنی داخلی کیفیات، جذبات، فکری وسعت، اور مشاہدات کو عمدگی سے شعری قالب میں ڈھالا ہے۔ کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا انتساب مصنف نے اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام معنون کیا ہے، جو ان کی جذباتی وابستگی اور خاندانی محبت کا ایک خوبصورت اظہار ہے۔
مصنف نے کتاب کے دیباچے میں اعتراف کیا ہے کہ یہ ان کی پہلی شعری تخلیقات میں موجود کمزوریوں کو دور کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس کتاب میں سید مسرور عابدی کا تبصرہ بھی شامل ہے، جب کہ ڈاکٹر رؤف خیر، رفیق جعفر اور افتخار عابد جیسے ناقدین نے اس پر اپنی گراں قدر آراء پیش کی ہیں۔
"برگِ صحرا” کے اشعار زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس شعری مجموعے میں ہمیں کئی مرکزی موضوعات نظر آتے ہیں جن میں محبت اور جذبات سر فہرست ہیں قاضی صاحب کی شاعری میں محبت ایک اہم موضوع کے طور پر شامل ہے۔ محبت کو وہ نہ صرف رومانوی انداز میں پیش کرتے ہیں بلکہ اسے اخلاقی بلندی سے بھی جوڑتے ہیں۔ مسرور عابدی کے بقول، "محبت زیتون کی وہ شاخ ہے جس کی خوشبو کا دوسرا نام اخلاق ہے۔”
ان کی شاعری میں تنہائی کے ساتھ ساتھ بیگانگی بھی ہے۔ شاعر کے ہاں ایک عجیب سا ویرانی کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔ ان کے اشعار میں ایک مسافر کی طرح کا کرب نظر آتا ہے، جیسے:
"نکلا جو اپنے گھر سے تو جنگل ملا مجھے”
"رستہ ہر ایک دکھائی دیا ایک سا مجھے”
ان کے اشعار میں سماجی ناہمواری کے ساتھ ساتھ انسانی رویوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ قاضی صاحب اپنی شاعری میں معاشرتی مسائل اور انسانی رویوں کی عکاسی بھی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ افتخار عابد نے ان کے اشعار کو دھوپ میں سائبان قرار دیا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ شاعر اپنے الفاظ سے قاری کو سکون فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
"برگِ صحرا” کا اسلوب روایتی اور جدید شاعری کا خوبصورت امتزاج پیش کرتا ہے۔ شاعر نے کلاسیکی طرز کو برقرار رکھتے ہوئے جدید دور کے احساسات و جذبات کو بھی اپنے اشعار میں سمونے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
غزل اور نظم کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں حمد و نعت بھی شامل ہیں۔ مصنف نے اپنی شاعری میں مذہبی جذبے کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے ہاں حمد و نعت میں عقیدت و محبت کے سچے جذبات نظر آتے ہیں جو ان کے تخلیقی جوہر کی مضبوطی کو ظاہر کرتے ہیں۔
ان کی نظمیں علامتی اور استعاراتی زبان میں لکھی گئی ہیں جو ایک منفرد تاثر چھوڑتی ہیں۔
ان کی غزلوں میں روایتی حسن، عشق اور سماجی مسائل کا خوبصورت امتزاج جابجا نظر آتا ہے۔
ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضی کے کلام میں کئی ادبی فنی عناصر پائے جاتے ہیں شاعر کے ہاں علامتی زبان کا استعمال نمایاں ہے، جیسے:
"جھڑ رہے ہیں گلاب ہونٹوں سے”
"منہ میں اردو زبان ہو جیسے”
یہ اشعار شاعر کے اعلیٰ تخیلاتی انداز اور گہرے مشاہدے کی عکاسی کرتے ہیں۔
شاعری میں کئی مقامات پر ایک ہی خیال کو مختلف پیرائے میں دہرایا گیا ہے تاکہ اس کی شدت میں اضافہ ہو۔
ان کی شاعری میں خیالات کو ایک مجرد (abstract) انداز میں پیش کیا گیا ہے، جس سے شاعری میں ایک خاص قسم کی گہرائی پیدا ہوتی ہے۔
"برگِ صحرا” صرف ایک شاعرانہ مجموعہ نہیں بلکہ مصنف کے فکری ارتقاء کا آئینہ دار بھی ہے۔ ڈاکٹر رؤف خیر کے مطابق، "ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضی کی شاعری نرم گفتاری کے انمٹ نقوش چھوڑتی ہے۔” یہ بیان شاعر کی اس خاص خوبی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ اپنی شاعری میں سادگی اور تاثیر کو یکجا کرتے ہیں۔
ان کی شاعری میں درویشی، بردباری اور خودداری کے رنگ نمایاں ہیں۔ مسرور عابدی کے مطابق، "اچھا شاعر ہونا کمال نہیں، اچھا انسان ہونا کمال ہے اور خلیل صدیقی قاضی بیک وقت اچھے شاعر اور اچھے انسان بھی ہیں۔” یہ بات اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ شاعر کی شخصیت اور ان کے الفاظ میں ایک گہرا ربط پایا جاتا ہے۔
افتخار عابد کے بقول، "اگر ایک شعر بھی جاوداں ہو جائے تو شاعر ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔” اور "برگِ صحرا” میں ایسے متعدد اشعار موجود ہیں جو اسے ہمیشہ کے لیے زندہ رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
"برگِ صحرا” محض ایک شاعری کی کتاب ہی نہیں، بلکہ ایک تعلیم یافتہ شاعر کا فکری اور جذباتی سفر ہے جو قاری کو ایک منفرد ادبی تجربے سے روشناس کراتا ہے۔ اس شعری مجموعے کی اشاعت پر ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کیونکہ یہ کتاب یقیناً اردو شاعری کے قارئین کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ثابت ہوگی۔
شاعر کے یہ اشعار اس کتاب کی تاثیر کا خلاصہ بیان کرتے ہیں:
"الفاظ مرے منہ سے ایسے نہ نکل جائیں”
جو راز محبت کی تشہیر میں ڈھل جائیں”
یہ اشعار نہ صرف شاعری کی نازکی کو بیان کرتے ہیں بلکہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ الفاظ کی ذمہ داری ایک شاعر کے لیے کتنی اہم ہے۔ "برگِ صحرا” واقعی ایک فکری و جذباتی خزانہ ہے جو اردو ادب میں اپنی منفرد جگہ بنانے میں کامیاب ہوگا۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |