کچے کے ڈاکوؤں کو محمد خان نہ بنائیے
کہتے ہیں کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ کچے کے ڈاکوؤں نے پولیس پر راکٹ لانچروں سے حملہ کر کے سندھ اور پنجاب کے 4ضلعوں کی پولیس پر اپنے گزشتہ حملوں کی تاریخ ہی نہیں دہرائی بلکہ ملک کی انتظامیہ اور عدلیہ کا بھی مذاق اڑایا ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ڈاکوؤں کے اس حملے میں پولیس کے 13اہلکار شہید، 7زخمی اور کئی لاپتہ ہوئے۔ ان ڈاکوؤں کے ایسے حملوں کے بعد تقریبا ہر سال، دو سال بعد سندھ اور پنجاب کی انتظامیہ مل کر آپریشن کرتی ہے مگر نہ ان ڈاکوؤں کو جدید اسلحے کی فراہمی رکتی ہے اور نہ ہی ان کا مکمل خاتمہ کیا جاتا ہے۔
چند ماہ قبل بھی اس موضوع پر لکھ کر حکومت کی توجہ اس طرف دلوائی تھی اور اب پھر عرض گزار ہوں کہ ملک کو "ڈاکو راج” بننے سے بچایا جائے۔ سنہ 1967ء کی پہلی ششماہی میں محمد خان ڈاکو بہت گلیمیرائز ہوا تھا۔ اس وقت کے اخبارات محمد خان کے تذکروں سے بھرے پڑے تھے۔ کوئی اسے وادی سون کا "رابن ہڈ‘” لکھ رہا تھا تو کوئی اسے ایوب خان حکومت کی بے بسی قرار دے رہا تھا۔ شائد یہ حکومت بھی ایوب خان حکومت کی بے بسی کا ٹریلر دہرا رہی ہے۔ محمد خان پر 40 سے زیادہ قتل اور ڈکیتی کے مقدمات درج تھے۔ وہ تلہ گنگ کے علاقے میں مفرور قرار دیئے جانے کے باوجود کھلی اور متوازی کچہریاں لگاتا تھا۔ وہ اپنے غنڈے اور ڈاکو ساتھیوں سمیت مقامی لوگوں کے جھگڑے نمٹاتا تھا، اپنے مخالفین اور مخبروں کو قتل اور ناک و کان کٹوانے جیسی بدترین سزائیں دیتا تھا۔ اب کئی سالوں سے کچے کے ڈاکو بھی یہی تاریخ دہرا رہے ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ پولیس انہیں گرفتار کر سکتی ہو۔
یہ اساطیری کردار محمد خان ڈاکو 7برس تک وادی سون، خوشاب اور چکوال میں دہشت اور خوف کی علامت بنا رہا مگر مقامی انتظامیہ اسے ہاتھ تک نہ لگا سکی۔ کچے کے ڈاکو بھی گزشتہ 3دہائیوں سے "محمد خان” بننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ان کے خلاف کم و بیش ہر سال آپریشن کے باوجود ان کا قلع قمع نہیں کیا جا سکا ہے۔
سنہ 1992ء میں ہدایتکار کیفی نے محمد خان کے نام پر پنجابی زبان میں "محمد خان ڈاکو” کے نام سے ایک فلم بھی بنائی تھی جس میں سلطان راہی نے محمد خان کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد سلطانہ ڈاکو، ملنگی، گجر دا کھڑاک اور مولا جٹ جیسی فلمیں بھی بنیں اور بہت مشہور ہوئیں۔ مولا جٹ کا یہ ڈائلاگ تو زبان زد عام ہوا کہ "نواں آیاں ایں سوہنیا”۔ یہ ہماری پنجابی فلموں کا ہی کمال نہیں تھا، حقیقت میں بھی محمد خان ڈاکو پر 40 سے زیادہ قتل اور ڈکیتی کے مقدمات درج ہوئے، اسے 6بار سزائے موت ہونے کے باوجود رہائی مل گئی۔ اس نے دوبارہ قتل کیئے، وہ دوبارہ گرفتار ہوا اور اسے سزائے موت سنا دی گئی۔
اس فلمی کردار کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کی گرفتاری پر 2مربع زمین اور 34 ہزار روپے نقد انعام رکھا گیا تھا، اور جب وہ گرفتار ہوا تو لاہور کے شاہی قلعہ میں ایک خصوصی ٹربیونل نے تفشیش کی اور قانونی مراحل کے بعد اسے 6بار سزائے موت اور 148سال قید کی سزا سنائی گئی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے جب اسے پھانسی گھاٹ کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو عین آخری لمحات پر اس کی سزائے موت کو 23سال کی قید میں بدل دیا گیا۔ سنہ 1989ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت نے ایک آرڈیننس جاری کیا جس کے مطابق عمر قید کے 60 سال سے زیادہ عمر کے قیدیوں کو رہائی مل گئی۔ محمد خان کو بھی اس آرڈیننس کی وجہ سے بقیہ قید سے چھٹکارا مل گیا۔ 29 ستمبر 1995ء کے اس کردار کو ہیرو کہیں یا ولن قرار دیں، یہ انتظامیہ کے قانون اور عدلیہ کے انصاف کا جنازہ نکالتے ہوئے بڑی شان و شوکت کے ساتھ اپنی طبعی موت مرا۔
ہمارے ملک میں کچھ بعید نہیں کہ پنجابی، سندھی یا پشتو زبانوں میں ڈاکوؤں پر بننے والی فلموں کے کلچر کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیئے کوئی پروڈیوسر ڈاکو محمد خان کی طرز پر کچے کے ڈاکوؤں پر بھی کوئی فلم نہ بنا ڈالے۔ لاہور میں بالاج ٹیپو قتل کیس کو قابل فخر بنایا جا سکتا ہے تو حکومت کا کچے کے ڈاکوؤں کے سر کی قیمت کروڑوں روپے مقرر کرنے کا اعلان کچھ برا نہیں ہے۔ کچے میں ڈاکو راج کے خلاف "کامیاب” گرینڈ آپریشن ناکامی میں کیسے بدلا؟ اس کی بنیادی وجہ تو سب جانتے ہیں مگر کوئی آواز نہیں اٹھاتا کہ اس کے پیچھے سیاسی کردار شامل ہیں۔
لوگ اب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ جیسے سون کے ’رابن ہڈ‘ محمد خان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا اب کچے کے ڈاکوؤں کا خاتمہ بھی ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
ایک ہندوستانی فلم میں ہیرو کا یہ ڈائیلاگ جو بہت مشہور ہوا تھا کہ "گیارہ ملکوں کی پولیس ڈان کا انتظار کر رہی ہے۔ ڈان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔”، شائد ہمارے حکومتی اور انتظامی ڈھانچہ پر ہی لکھا گیا تھا۔ جیسے 54برس قبل پاکستان کے 4اضلاع کی پولیس کیل کانٹے سے لیس ہو کر ایک مقامی ڈان کو پکڑنے کے لیے وادی سون کے جنگلوں اور پہاڑوں کی خاک چھان رہی تھی مگر مطلوبہ ملزم چھلاوے کی طرح غائب ہو جاتا تھا، اب یہ کچے کے ڈاکو بھی چھلاوا بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ یہاں کوئی کامیاب آرمی آپریشن بھی نہیں کیا جا رہا یے، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ ارباب بست و کشاد عوام پر دوسرا جو ظلم بھی ڈھائیں منظور ہے مگر کچے کے ڈاکوؤں کو محمد خان نہ بنائیں، بس یہی ایک گزارش ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔