ڈاکٹر مقصود جعفری کی مکالماتی اسلوب کی منفرد شاعری 

ڈاکٹر مقصود جعفری کی مکالماتی اسلوب کی منفرد شاعری 

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*

ڈاکٹر مقصود جعفری کہتے ہیں 

"میں نے کہا کہ زاغ و زغن پھر سے آ گئے

کہنے لگے یہ طرزِ حکومت کی بات ہے”

یہ ایک منفرد اور دلکش طرزِ اظہار ہے جو مقصود جعفری کی تخلیقی بصیرت اور شعری مہارت کا مظہر ہے۔ ان کی زیر تبصرہ غزل جو مکالماتی انداز میں لکھی گئی ہے یہ ایک منفرد اسلوب کی شاعری ہے۔ 

اردو کے بہت کم شاعر ہیں جو کہ مکالماتی اسلوب کی شاعری کرتے ہیں ان میں ڈاکٹر مقصود جعفری کا نام سرفہرست ہے۔ ڈاکٹر مقصود جعفری کی مکالماتی غزل میں سوال و جواب کا انداز نہ صرف فکری گہرائی پیدا کرتا ہے بلکہ قاری کو مختلف زاویوں سے سوچنے اور غور و فکر کرنے پر بھی مجبور کرتا ہے۔ ہر شعر میں ایک مکالماتی انداز موجود ہے جو شاعر کے تخیل اور سامع کے ذہن کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے۔ مثال کے طور پر:

"میں نے کہا کہ دردِ محبت کی بات ہے

کہنے لگے یہ حرفِ ملامت کی بات ہے”

مقصود جعفری اپنے اس شعر میں محبت کے درد کو ملامت کے زاویے سے دیکھنے کا تقابل پیش کرتا ہوا دکھائی دیتے ہیں جس میں شاعر نے انسانی جذبات کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔

ان کی شاعری میں مکالماتی اسلوب کو معاشرتی اور سیاسی تنقید کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ان کے اشعار میں زاغ و زغن، ظلم کی آندھی اور قیادت کی خامیوں کا ذکر ان کے سماجی شعور کا عکاس ہے مثلاً:

"میں نے کہا کہ زاغ و زغن پھر سے آ گئے

کہنے لگے یہ طرزِ حکومت کی بات ہے”

مقصود جعفری کا یہ شعر موجودہ سیاسی نظام کی کمزوریوں اور بدعنوانیوں پر شاعر کی طرف سے ایک گہرا طنز ہے۔

ان کی مکالماتی اسلوب کی شاعری کا ایک اور اہم پہلو اس کا فلسفیانہ اور وجودیاتی رنگ ہے۔ ان کے اشعار میں زندگی، محبت اور خواب جیسے موضوعات کو ایک گہری فکری بنیاد پر پیش کیا گیا ہے مثلاً:

"میں نے کہا کہ آپ کو دیکھا ہے خواب میں

کہنے لگے یہ جلوۂ جنّت کی بات ہے”

اس شعر میں شاعر خواب اور حقیقت کے درمیان ایک دلچسپ مکالمہ پیش کرتا ہے جو قاری کو حقیقت اور تخیل کے فرق پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

ان کی شاعری میں لسانی مہارت کے ساتھ ساتھ بیان کی خوبصورتی بھی ہے۔ ڈاکٹر مقصود جعفری کی شاعری میں زبان و بیان کی مہارت ان کے اشعار کو ایک منفرد جمالیاتی کیفیت عطا کرتی ہے۔ ان کا مکالماتی اسلوب نہ صرف عام قاری کو متاثر کرتا ہے بلکہ فکری اور ادبی حلقوں میں بھی مقبول ہے۔ ان کے اشعار میں سادگی اور گہرائی کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔

ان کی مکالماتی انداز کی شاعری ایک منفرد تجربہ ہے، لیکن بعض اوقات یہ اسلوب قارئین کے لیے پیچیدہ بھی ہو سکتا ہے۔ مکالماتی انداز میں جذبات اور خیالات کے اظہار کے دوران توازن برقرار رکھنا ضروری ہے جو مقصود جعفری بڑی حد تک کامیابی سے کرتے ہیں۔

خلاصۂ  کلام یہ ہے کہ ڈاکٹر مقصود جعفری کی مکالماتی اسلوب کی شاعری اردو ادب میں ایک نیا اضافہ ہے جو فکری گہرائی، جذباتی شدت اور معاشرتی شعور کی آئینہ دار ہے۔ ان کی تازہ غزل ایک مثال ہے کہ کس طرح سوال و جواب کے ذریعے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو خوبصورتی سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ اسلوب نہ صرف اردو شاعری کو ایک نیا رخ دیتا ہے بلکہ قارئین کو خود احتسابی اور غور و فکر کی دعوت بھی دیتا ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے ڈاکٹر مقصود جعفری کی مکالماتی غزل پیش خدمت ہے۔ 

*

مکالماتی غزل

*

مَیں نے کہا کہ دردِ محبّت کی بات ہے

کہنے لگے یہ حرفِ ملامت کی بات ہے 

مَیں  نے کہا خرامِ صبا ہے خرامِ ناز 

کہنے لگے نشورِ  قیامت کی بات ہے 

مَیں نے کہا کہ وصل کی ہے آرزو مجھے 

کہنے لگے سراپا حماقت کی بات ہے

مَیں نے کہا کہ قاتل و مقتول ایک ہیں  

کہنے لگے کہ جورِ عدالت کی بات ہے 

مَیں نے کہا کہ زاغ و زغن پھر سے آ گئے 

کہنے لگے یہ طرزِ حکومت کی بات ہے 

مَیں نے کہا کہ آپ کو دیکھا ہے خواب میں 

کہنے لگے یہ جلوۂ  جنّت  کی بات ہے

میں نے کہا یہ قافلہ ہےشترِ بے مہار

کہنے لگے یہ سُقمِ  قیادت کی بات ہے 

میں نے کہا کہ ظلم کی آندھی ہے چارسُو

کہنے لگے یہ فکرِ بغاوت کی بات ہے

میں نے کہا کہ ہجر میں روتا ہوں رات دن

کہنے لگے  دماغ کی حالت کی بات ہے

میں نے کہا کہ دل سے مرے دل ملائیے 

کہنے لگے یہ بات شرارت کی بات ہے

میں نے کہا کہ آپ کے زانو پہ  سر رکھوں؟ 

کہنے لگے یہ ذوقِ عبادت کی بات ہے

میں نے کہا کہ جعفری ہے در بدر یہاں

کہنے لگے یہ شُومئ قسمت کے بات ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

مزید دلچسپ تحریریں