ڈاکٹر خالد اسراں کی غزل گوئی

ڈاکٹر خالد اسراں کی غزل گوئی

تحریر : مقبول ذکی مقبول ، بھکر

منڈی ٹاؤن بھکر شہر کے رہائشی ہیں ۔ ڈاکٹر خالد اسراں پیشہ کے حوالے سے سرجن ہیں ۔ وہ غریب لوگوں کے آپریشن کرنے کا فریضہ ادا کرنے میں مصروفِ عمل رہتے ہیں ۔ اُن کی دُکھ تکلیف کو قریب سے دیکھ کر مستقل طور علاج کرتے ہیں ۔ احساسِ دل رکھنے والے خوب صورت انسان ہیں ۔ صاحبِ ثروت ہیں ۔ سادہ طبیعت سادگی پسند ہیں ۔ غریب اور امیر کے ساتھ ایک جیسی ہمدردی رکھتے ہیں ۔ ان کا غزلیات پر مشتمل مجموعہ ٫٫ شہرِ افلاس ،، اُردو سخن ڈاٹ کام ، پاکستان چوک اعظم ، لیہ نے جنوری 2021ء کو بڑے خوبصورت اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے ۔ صفحات 152 پر مشتمل ہے ۔ آخر میں چند نظمیں بھی شامل ہیں ۔


اِن کی غزل گوئی میں جان اور غربتِ جہان کا عکس بڑی مہارت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔ اِن کی غزل گوئی کے حوالے سے ناصر ملک لکھتے ہیں ۔
زیرِ مطالعہ کتاب ٫٫ شہرِ افلاس ،، ڈاکٹر خالد اسراں کے داخلی و خارجی اضطراب ، سماجی مشاہدات ، معاشرتی شکت وریخت اور کم طاقتی کے باوجود بڑی جنگ لڑتے ہوئے جذبات کی شاعری پر مبنی ہے جس کا ہر ایک شعر خواہ وہ کوئی بڑا یا انوکھا پیغام نہ رکھتا ہو ، صداقت اور فطری بے چینی کا مظہر ہے ۔ وہ براہِ راست گفتگو کے قائل ہیں ۔ استعارہ اور تلمیح کا استعمال ناگزیر صورت میں کرتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں جہاں بے ساختہ پن اور روانی موجود ہے وہاں فنی محاسن و معائب پر توجہ کم اور انسانی رویوں کی شکست وریخت پر زیادہ مرکوز ہونے کی وجہ سے تکراری صورت بھی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ وہ نچلے طبقے کے انسانوں ، مزدوروں اور کمزوروں کی وکالت میں کہیں سخت لہجہ بھی اختیار کر جاتے ہیں اور کہیں ان کے اندازِ اظہار میں برہمی اور تشویش بھی ملتی ہے ۔ ان کی شاعری پر کوئی بھی رائے قائم کر لی جائے ، یہ کہے بغیر چارہ نہ ہو گا کہ وہ سچے جذبوں کے حقیقی رویہ رکھنے والے شاعر ہیں اور کمزوروں پر فرعونوں کو ظلم کرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے ۔ امید ہے احبابِ سخن کو یہ شعری کتاب پسند آئے گی ۔ بقول حضرت داغ دہلوی :

ڈاکٹر خالد اسراں کی غزل گوئی

خط ان کا بہت خوب عبارت بہت اچھی
اللّٰہ کرے حسنِ رقم اور زیادہ!

٫٫ شہرِ افلاس ،، ( ص 12 )
آخر میں چند مختلف غزلیات سے اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
***
ہاں سمجھنا ہے ابھی لوگوں کو
تم مجھے ظلم ابھی سہنے دو
***
سنائی حشر کی جب داستان واظ نے
غریب بولے کیا اب بھی عذاب باقی ہے
***
کس طرح بہلتے ہیں فاقوں کے مارے بچے
تم کچی بستیوں سے صاحب گزر کے دیکھو
***
ہے خامشی کوئی آواز ظلم پر نہیں اُٹھتی
امیرِ شہر نے لوگوں کو بے زبان رکھا ہے
***


پوچھا جائے کبھی اس کھیت کے مالک سے بھی
یہ بتا رزق غریبوں کا کدھر جاتا ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

واہ کینٹ کتاب میلہ میں اٹک کے ادیب

منگل دسمبر 10 , 2024
پی او ایف گیسٹ ہاؤس واہ کینٹ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے دو روزہ کتاب میلہ میں اٹک کے ادیبوں کی خصوصی شرکت
واہ کینٹ کتاب میلہ میں اٹک کے ادیب

مزید دلچسپ تحریریں