تحریر :سیدزادہ سخاوت بخاری
اس موضوع پر لکھنا آسان نہیں ، اس لئے کہ جہالت ، ذاتی اور گروہی مفاد پر مبنی سیاست اور مولویت نے پاکستان میں کینسر کے مرض کی طرح پنجے گاڑھ رکھے ہیں ۔ حالت بہ ایں جا رسید کہ ایک مخصوص اور پیشہ ور ٹولے کے علاوہ کسی دوسرے کو اس وادی میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں بلکہ اگر کوئی ان سے رتی برابر اختلاف کرے تو فورا کفر اور غداری کے فتوے جاری ہوجاتے ہیں ۔ بیشمار محب وطن سیاسی کارکن ، علماء اور صلحاء ، سیاسی سوجھ بوجھ اور علمی و تبلیغی استطاعت رکھنے کے باوجود ، جہالت مافیاء کے خوف سے خاموشی کو ترجیع دینے پر مجبور ہوئے یا ملک چھوڑ کر کہیں اور جا بسے ہیں ۔
میں ، عالم ہوں نہ مولوی اور نہ ہی سیاست دان ۔ مجھے کسی فقہی یا شرعی مسئلے پر بات کرنی ہے اور نہ وعظ و نصیحت بلکہ ایک عام پاکستانی شھری کی حیثیت سے جو دیکھ رہا ہوں ، محسوس کررہا ہوں ،
معاشرے کی اس حالت اور سوچ پر اپنی رائے کا اظھار کرنا چاھتا ہوں ۔
اس سے پہلے کہ بات کو آگے بڑھاوں ، اس قومی دکھ اور کرب کا برملا اظھار کردینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلام کے نام پر ، اللہ کے نام پر ، رسول اللہ ص کے نام پر حاصل کئے جانیوالے ملک کے ساتھ جو کھلواڑ ، بحیثیت مجموعی ہم سب نے اور بطور خاص نام نہاد ، مفاد پرست ، جھوٹے سیاست دانوں اور ان پڑھ اور مفتن ملاوں نے کیا ، اس کا نتیجہ آج ہم سب کے سامنے ہے ۔
میری باتیں تلخ ضرور ہونگی لیکن اگر آپ نے ٹھنڈے دل و دماغ سے ، گروہی و مسلکی عینکیں اتار کر ان پر غور کیا تو کوئی نقطہ آپ کو غلط نظر نہیں آئیگا اور حقیقت حال واضع ہوجائیگی ۔
آپ کوئی بھی ٹی وی چینل آن کریں ، کوئی سا بھی اخبار یا رسالہ اٹھا کر پڑھیں ، کسی بندے سے گفتگو کریں ، ایسا محسوس ہوگا کہ پاکستان میں تو سب اولیاء بستے ہیں بلکہ یہی تو انبیاء کرام کی سرزمین ہے ۔ صبح شام ، اٹھتے بیٹھتے ، اسلام ، اسلام اور اسلام کی گردان سننے کو ملیگی ۔ جس آبادی ، گاوں ، قصبے یا شھر میں چلے جائیں ، خوبصورت مسجدیں اور ان کے 100 سو فٹ بلند مینار نظر آئینگے ۔ آذان کا وقت ہو تو لاوڈ اسپیکروں کا شور زلزلہ پیدا کردیتا ہے ۔ مذھبی تقریبات کی بھرمار ، جس طرف دیکھو پیر فقیر ، باوے اور ڈھونگی اپنی اپنی دوکانیں چمکائے بیٹھے ہیں لیکن معاشرہ اخلاقی طور پر اندر سے اتنا کھوکھلا ہوچکا ہے کہ ،
دودھ ، دہی ، گھی ، مصالحہ جات اور ادویہ سمیت کوئی بھی چیز خالص دستیاب نہیں ۔ ہر شے میں ملاوٹ ۔
آٹا ، چینی اور سبزیاں تک غائب کردی جاتی ہیں اور عوام کو ان اشیاء کی عدم دستیابی یا بڑھی ہوئی قیمتوں کے خلاف جلوس نکالنے پڑتے ہیں ۔
قصابوں کے ھاں بکنے والے گوشت ، (بالخصوص بڑے شھروں میں ) کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ حلال ہے یا حرام ۔ گدھے کا ہے یا کتے ذبح کئے گئے ہیں ۔ مرغیاں زندہ ذبح کرکے بیچی جارہی ہیں یا بیماری سے مرجانیوالے پرندوں کا گوشت بیچا جارہا ہے ۔
ڈاکٹری جیسے مقدس اور محترم پیشے کی دکانیں قطار اندر قطار نظر آئینگی لیکن اندر قصائی اور دولت کے پجاری بیٹھے ملینگے جن کا مقصد دکھی انسانیت کی خدمت نہیں بلکہ بنگلے ، زمینیں اور مارکیٹیں کھڑی کرنا ہے ۔
آپ کسی کنسٹرکشن ٹھیکیدار یا راج مستری کو ایک مرتبہ گھر میں آنے دیں پھر دیکھیں وہ آپ کی کیا درگت بناتا ہے ۔
پورے ملک میں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا ۔ تھانیدار اور پٹواری تو ویسے ہی بدنام ہیں ۔ آپ سوئی گیس ، بجلی ، پانی اور ٹیلیفون کا کنکشن تک بغیر جیب گرم کئے حاصل نہیں کرسکتے ۔
چوری ، ڈاکے ، اسٹریٹ کرائم ، زنا ، معصوم بچوں اور نہتی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں اور اغواء جیسے جرائم کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔
منشیات ، ناجائز اسلحہ ، اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی جیسے گھناونے کاروبار کل بھی جاری تھے آج بھی جاری ہیں ۔
آذادی اظھار رائے کے نام پر درجنوں ٹی وی چینلز اور اخبارات ، جھوٹ اور افواہ سازی کی فیکٹریاں نہیں تو اور کیا ہیں ۔ پنجابی میں کہتے ہیں ” پیسہ ڈال تے بہہ جا نال ” ، جو خبر نشر کرانی ہو ، جس قسم کا بھی پروپیگنڈہ کرانا مقصود ہو ، پیسے کے زور پر ممکن ہے ۔
معاشرے کی مکمل تصویر کشی کروں تو کتاب بن جائے ۔ آخر اس کا ذمہ دار کون ؟ اگر کسی کی اولاد بگڑ جائے تو کہتے ہیں ، ماں باپ نے تربیت اچھی نہیں کی ۔ بتائیے اس سارے معاشرتی بگاڑ کا ذمہ دار کون ہے ؟ ظاھر سی بات ہے جنہوں نے اس سوسائیٹی کو پروان چڑھایا ۔ سیاسی بگاڑ کے ذمہ دار سیاستدان اور مذھبی و اخلاقی اقدار کی پستی کے ذمہ دار وہ سب ، جو منبروں ہر بیٹھ کر فرقہ واریت ، توھمات ، شرک اور بدعت کی تعلیم دیتے رہے ۔ جنھوں نے بھائی کو بھائی سے لڑایا ۔
مجھے حیرت ہوتی ہے جب یہ کہتے ہیں ، پاکستان اسلام کا قلعہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بنا تو اسلام کے نام پر تھا مگر اب یہ سیاستدانوں اور مولویوں کا قلعہ ہے جہاں عام آدمی ایک قیدی کی طرح زندگی گزار رہا ہے ۔ اگر میں غلط کہ رہا ہوں تو آپ اپنے علاقے کے کسی سیاست دان یا مولوی کے خلاف آواز اٹھاکر دیکھیں ، لگ پتہ جائیگا ۔
آپ اس معاشرے کی ذھنی پستی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہاں ، چوروں ، ڈاکووں ، لٹیروں اور نوسربازوں کے حق میں جلوس نکلتے ہیں ، جلسے ہوتے ہیں ، ٹاک شوز میں سرعام ان کے غلیظ کرتوتوں کا دفاع کیا جاتا ہے ۔ اخبارات اپنی شہ سرخیوں میں انہیں ھیرو بناکر پیش کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود ہم اس خوش فہمی میں مبتلاء ہیں کہ چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر اور 27 رمضان کو وجود میں آیا تھا لھذا گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔
قارئین
اس لمبی چوڑی تمہید کا مقصد یہ باور کرانا تھا کہ ہم کتنے اچھے مسلمان ہیں ۔ خدا اور رسول ص کے احکامات پر کس حد تک عمل کرتے ہیں ۔ کیا ہم نے وہ مقاصد حاصل کرلئے ہیں کہ جن کی خاطر لاکھوں جانوں کی قربانی دیکر یہ ملک حاصل کیا تھا ۔ اگر جواب ھاں میں ہے ۔ آپ ایک کامیاب ، مضبوط اور طاقتور قوم بن چکے ہیں تو ، ضرور بندوقیں اٹھاکر دنیاء بھر کے مسلمانوں کی مدد کے لئے نکل کھڑے ہوں ۔ کفار کو چیلینج کریں لیکن اگر 73 برس بعد بھی کشکول ھاتھ میں ہے ۔ قرضوں کے انبار تلے دبے ہیں ۔ سوئی گیس ، بجلی ، آٹا اور چینی کے حصول کے لئے جلوس نکالنے پڑ رہے ہیں ۔ روزی روٹی کی تلاش کے لئے در بہ در ٹھوکریں کھارہے ہیں تو عزت اسی بات میں ہے کہ پہلے اپنے گھر کو سنواریں ، اپنے پاوں پر کھڑے ہوں اور اس کے بعد اس بات پر غور کریں کہ عالم اسلام میں کیا ہورہا ہے ۔ کس کس نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور کیوں کیا ۔ پنجابی زبان کا ایک اور محاورہ یاد آگیا ، کہتے ہیں ، ” آپ نہ جوگی تے گوانڈ ولاوے "یعنی اپنے لئے گھر میں ہے کچھ نہیں اور گوانڈیوں کی مدد کرنا چاھتی ہے ۔
آخر میں اس بات کی وضاحت کردوں کہ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں نہیں لیکن اگر کوئی دوسرا ملک اسے تسلیم کرتا ہے تو یہ ان کا داخلی معاملہ ہے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاھئیے اور بلاوجہ ان پر تنقید کرکے باھمی تعلقات نہیں بگاڑنے چاھئیں ۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کرلیں کہ امہ یا امت مسلمہ کی اصطلاح کتابوں اور شاعری کی حد تک درست ہے ۔ اس سے آگے یا پیچھے کچھ بھی نہیں لھذا اس چکر سے باھر آکر پاکستانی معاشرے کی اصلاح و ترقی اور توانائی کا علم اٹھائیں ۔ ہمیں سب سے پہلے اپنی فکر کرنی چاھئیے کیونکہ ہم سارے مسلمانوں کے ٹھیکیدار نہیں ۔
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔