برے القاب سے نہ بلاو

برے القاب سے نہ بلاو

کہانی کار: سید حبدار قائم
سارے گاوں میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں اکرم وصی ظہیر شان اور افضل بہت گہرے دوست تھے وہ سب سکول میں مل کر جاتے تھے اکھٹے کھیلتے اکھٹے کھاتے ان کی دوستی کے دور دور تک چرچے تھے انہیں کبھی کسی نے لڑتے ہوۓ نہیں دیکھا تھا سکول سے واپس آ کر وہ ہوم ورک کرتے اور گاوں میں کھیل کے میدان کی طرف نکل جاتے جہاں وہ اپنے دیہاتی کھیل کھیلتے اور شام کو گھر واپس آ جاتے ۔



                                                                                                                                                                                                                                                                                                            یونہی زندگی خوب صورتی سے گزر رہی تھی کہ ان میں ایک نئے دوست شوکت کا اضافہ ہو گیا ۔ شوکت بہت جلد ہی ان میں گھل مل گیا۔ شوکت کی جہاں بہت زیادہ اچھی عادات تھیں وہاں اس میں دو بری عادتیں بھی تھیں ۔ بری عادتوں میں پہلی عادت وہ بات بات پر گالی دیتا تھا۔ اور دوسری بری عادت یہ تھی کہ وہ دوستوں کو ان کے اصل ناموں کی جگہ برے ناموں سے بلاتا تھا۔ وہ اکرم کو اکو کہہ کر بلاتا تھا۔اور وصی کو وصو کہہ کر بلاتا تھا اس نے ظہیر کا نام جِھیتا رکھا ہوا تھا ذیشان کو شکرا کہہ کر بلاتا تھا افضل کا نام اس نے اجو رکھ دیا تھا۔ ان سب دوستوں میں ظہیر کا اپنے مذہب اسلام سے بہت لگاؤ تھا ۔ ظہیر اپنے گاؤں کے عالمِ دین سے علمِ حدیث سیکھ رہا تھا جب سارے دوست اکھٹے ہوتے تو ظہیر ان سب کو اپنے پیارے آقا حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کی احادیث سناتا تھا۔ ایک دن ظہیر نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ آج اس کے استاد نے اسے اللہ پاک کا یہ فرمان سنایا ہے ۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     

قرآن مجید کی سورہ الحجرات میں ہے
”اور ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ بلاؤ “

اس لیے آپ لوگوں کو برے ناموں سے یاد نہ کیا کرو کیوں کہ ایسا کرنا گناہ ہے اور یہ اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے۔

سارے دوست ظہیر کی باتیں سن رہے تھے ۔ اور نام بگاڑنے والے اپنے دوست شوکت کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ساتھ ہی ظہیر نے اپنے آقا ﷺ کا یہ فرمان سنایا ۔ 

کہ ”مسلمان وہ ہے جس ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں “۔
یہ حدیث پاک سنا کر ظہیر نے شوکت کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا کہ ماں باپ نے کتنے اچھے ہمارے نام رکھے ہیں ۔ جن کو آپ نے بگاڑ کر گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دوسری بری بات یہ ہے کہ آپ دوسروں کو ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں ۔ ایسا کرنے سے ہمارے اللہ اور ہمارے نبی پاک حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم نے منع فرمایا ہے۔

برے القاب سے نہ بلاو

ساتھ ہی ظہیر نے یہ بھی کہا کہ
حدیث کی کتاب صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2442 اور صحیح مسلم کی حدیث نمبر 695 میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جس نے کسی مسلمان کے عیب پر پردہ رکھا اللہ تعالٰی قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ رکھے گا“

وقعتی طور پر شوکت شرمندہ ہو گیا۔ لیکن اس نے اپنی دونوں بری عادتوں کو نہ چھوڑا ۔ آئے روز شوکت کی بد کلامی کی وجہ سے جھگڑا ہو جاتا جس میں گالی گلوچ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ کئی بار سب دوستوں کی باتیں ان کے والدین تک پہنچ جاتیں اور جھگڑے کی صورت اختیار کر جاتیں ۔
گاؤں کے بچوں میں ایک بد کلام برا بچہ ملنے سے سارا ماحول خراب ہو گیا تھا ۔ لیکن ظہیر جیسے نیک بچے نے سب دوستوں کو اسلام کی تعلیمات دے کر آپس میں محبت کا سبق دیا۔ اس نے شوکت کو یہ بھی کہا کہ
حدیث کی کتاب صحیح بخاری میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا
” جو کوئی کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرے گا تو اس پر اللہ تعالٰی، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہو گی “
یہ سب روشن باتیں سن کر بھی شوکت باز نہ آیا اور اپنی زبان پر کنٹرول نہ کیا

شوکت دوسرے دوستوں کے نام بگاڑ کر اُنہیں برے ناموں سے یاد کرتا رہا اس کا یہ عمل اللہ کو پسند نہ آیا۔ ایک دن وہ موٹر سائیکل پر کہیں جا رہا تھا۔ کہ راستے میں اس کا حادثہ ہو گیا۔ اس کا موٹر سائیکل پھسلنے کی وجہ سے ایک درخت کے ساتھ جا لگا ۔ جس کی وجہ سے شوکت کا چہرہ زخمی ہوگیا۔ اس کے دانت ٹوٹ گئے اور زبان بھی کٹ گئی۔ اللہ نے اس سے بولنے کی صلاحیت چھین لی۔ اب وہ اشارے سے دوسروں سے بات کرتا تھا حادثے کے بعد اسے ہسپتال میں پہنچایا گیا۔ جہاں سارے دوست اس کی عیادت کے لیے گئے اپنے دوستوں کو دیکھ کر شوکت رو پڑا ۔ اور دونوں ہاتھ جوڑ کر دوستوں سے معافی مانگی۔ سارے دوستوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں جس پر ظہیر نے ان سے کہا کہ ہمیں اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کی باتوں پر عمل کرنا چاہیے اور ان کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیئے ظہیر نے شوکت سے کہا کہ میں آپ کو بار بار روکتا تھا لیکن آپ نے میری ایک نہ مانی ۔ یہ بات اللہ تعالٰی کو پسند نہ آئی۔ اور اس نے آپ سے بولنے کی طاقت چھین لی۔

پیارے بچو!
ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے دوستوں اور دوسرے تمام مسلمانوں کو ان کے اچھے اچھے ناموں سے پکاریں۔ اور گالی گلوچ چھوڑ کر حسنِ اخلاق سے پیش آئیں۔ ایسا کرنے سے ہمارا اللہ پاک اور ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم بہت خوش ہوتے ہیں ۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اٹک آرٹس کونسل کے قیام میں پیش رفت

منگل نومبر 12 , 2024
اٹک کے ادیبوں کی ڈپٹی کمشنر سے ملاقات ٹی ہاؤس آرٹس کونسل کے قیام کے حوالہ سے بات چیت کتاب میلہ منعقدہ 7 نومبر
اٹک آرٹس کونسل کے قیام میں پیش رفت

مزید دلچسپ تحریریں