کیا رمضان واقعی جلدی گزر گیا؟
تحریر محمد ذیشان بٹ
نہ رہے گا یہ سدا کچھ ہی دن کا مہمان ہے
رحمت سے بھر لو جھولیاں جار ہا ماہ رمضان ہے
رمضان المبارک ایک ایسا بابرکت مہینہ ہے جس کا ہر مسلمان شدت سے انتظار کرتا ہے۔ لیکن جیسے ہی یہ مقدس مہینہ اختتام کو پہنچتا ہے، اکثر لوگوں کی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا ہے:
"ارے، رمضان تو بہت جلدی گزر گیا!”
کیا واقعی وقت کی رفتار تیز ہو جاتی ہے، یا یہ احساس صرف ان لوگوں کو ہوتا ہے جو رمضان کی اصل حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اس مہینے کی رحمتوں کو سمیٹنے میں مصروف ہوتا ہے، اسے یہ سوچنے کی بھی فرصت نہیں ملتی کہ وقت کتنی تیزی سے گزر رہا ہے۔
یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے بے شمار رحمتیں نازل کیں، جنت کے دروازے کھول دیے، جہنم کے دروازے بند کر دیے اور شیطان کو جکڑ دیا۔ قرآن میں اس ماہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور جس میں حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی نشانیاں موجود ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے بھی اس مہینے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص ایمان اور اجر کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے، اس کے تمام گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں عبادات کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے، نوافل فرض کے برابر ہو جاتے ہیں اور فرض عبادت کا ثواب ستر گنا تک بڑھ جاتا ہے۔
ہمارے اسلاف رمضان کو صرف ایک عام مہینہ نہیں سمجھتے تھے، بلکہ وہ اس کے ایک ایک لمحے کو قیمتی جانتے تھے۔
صحابہ کرامؓ رمضان کی تیاری کئی مہینے پہلے سے شروع کر دیتے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ رمضان کے بعد چھ مہینے تک اللہ سے دعا کرتے کہ ان کے رمضان کے اعمال قبول ہو جائیں، اور باقی چھ مہینے اگلے رمضان کے انتظار میں گزارتے۔
حضرت عمر بن خطابؓ رمضان میں عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ عبادت کرتے، راتوں کو قیام کرتے اور دن میں روزہ رکھتے۔ ان کے نزدیک یہ مہینہ اللہ کی قربت کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔
بڑے فقہاء اور اولیاء کرام رمضان میں عبادات کو ترجیح دیتے تھے۔ امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ اور امام مالکؒ جیسے علماء رمضان آتے ہی اپنی تدریسی مصروفیات ترک کر دیتے اور مکمل طور پر قرآن کی تلاوت اور عبادت میں مشغول ہو جاتے۔
امام شافعیؒ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ رمضان میں روزانہ دو بار قرآن ختم کرتے تھے، جبکہ حضرت امام مالکؒ رمضان آتے ہی حدیث کی تدریس بند کر دیتے اور صرف تلاوتِ قرآن میں مشغول ہو جاتے۔
یہ سوال کہ "رمضان جلدی گزر گیا؟” دراصل ایک نفسیاتی پہلو رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وقت اپنی مخصوص رفتار سے چلتا ہے۔ دن چوبیس گھنٹے کے ہی ہوتے ہیں اور سال کے مہینے بارہ ہی رہتے ہیں۔ مگر وقت کا احساس ہمارے مشاغل اور ترجیحات پر منحصر ہوتا ہے۔
جو لوگ رمضان کو محض ایک رسم سمجھ کر گزار دیتے ہیں، جو دن بھر روزہ رکھ کر رات میں موبائل، ٹی وی اور دیگر غیر ضروری مشاغل میں مصروف رہتے ہیں، ان کے لیے رمضان واقعی "جلدی گزر جاتا ہے۔” کیونکہ ان کے دن اور رات عام روٹین سے زیادہ مختلف نہیں ہوتے۔
اس کے برعکس جو شخص رمضان میں عبادات، تلاوت، نوافل، صدقات اور دعا میں مصروف ہوتا ہے، اسے وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ وہ تو ان بابرکت لمحوں کو سمیٹنے میں لگا ہوتا ہے اور جب رمضان ختم ہوتا ہے تو اس کے دل میں عید کی خوشی سے زیادہ رمضان کے جانے کا غم ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف رمضان کے بعد بھی اس کی قبولیت کی دعا کرتے تھے اور اگلے رمضان کے انتظار میں رہتے تھے۔
رمضان کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور اسے اس طرح گزارنا چاہیے کہ آخر میں یہ شکوہ نہ ہو کہ "رمضان جلدی گزر گیا” بلکہ یہ احساس ہو کہ ہم نے رمضان کی نعمتوں کو بھرپور سمیٹا۔:
صحابہ کرام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے رمضان سے کے آخری دنوں میں نوافل، تلاوت، اور عبادات میں اضافہ کریں۔ وقت غیر ضروری سرگرمیوں، موبائل، سوشل میڈیا، اور فضول باتوں سے پرہیز کریں۔
اللہ سے مسلسل دعا کریں کہ وہ ہمارے رمضان کو قبول کرے۔
رمضان کے بعد بھی نوافل، روزے اور قرآن کی تلاوت کو معمول بنا لیں۔
یہ کہنا کہ رمضان جلدی گزر گیا، درحقیقت ہمارے اپنے طرزِ عمل پر منحصر ہے۔ وقت ہمیشہ اپنی رفتار سے چلتا ہے، لیکن جو رمضان میں غفلت کرتا ہے، اسے یہ مہینہ پلک جھپکتے میں گزرنے کا احساس دلاتا ہے۔ جبکہ سچا مومن رحمت کے ان لمحوں کو سمیٹنے میں مصروف ہوتا ہے اور رمضان ختم ہونے پر اس کے دل میں عید کی خوشی سے زیادہ رمضان کے جانے کا غم ہوتا ہے۔
اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ رمضان ہمارے لیے بابرکت ہو اور ہمیں وقت کے گزرنے کا افسوس نہ ہو، تو ہمیں اپنے اسلاف کی سنت پر چلتے ہوئے عبادات میں اضافہ کرنا ہوگا اور رمضان کی برکتوں کو پوری طرح سمیٹنا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی حقیقت کو سمجھنے اور اس کے آخری دنوں سے بھرپور استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
Title Image by Imen Djerroud from Pixabay

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |