ہندو شاعر اُدھوَ مہاجن بسمل کی عقیدت سے بھرپور شاعری
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
اُدھوَ مہاجن بسمل کا تعلق منڈھوا پونے ہندوستان سے ہے اردو کے ممتاز شاعر ہیں، حمد، نعت، غزل اور نظمیں لکھتے ہیں انہوں نے عقیدت سے بھرپور حمدیہ اور نعتیہ شاعری لکھی ہے۔ اردو شاعری کی روایت میں ہندو شعرا کی حمد و نعت نگاری کوئی نئی بات نہیں۔ کئی غیر مسلم شعرا نے اپنی شاعری میں اسلامی موضوعات کو اپنایا اور ان میں خاص عقیدت کا اظہار کیا ہے ۔
اُدھوَ مہاجن بسمل کی حمد و نعت بھی اسی روایت کی ایک کڑی ہے۔ اپنی حمدیہ و نعتیہ شاعر میں ایک ہندو شاعر اسلامی جذبات کو اپنی تخلیقی صلاحیت کے ذریعے پیش کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:
ہر کسی کو ہےضرورت تیری
میں بھی کرتا ہوں عبادت تیری
بسمل نے اپنی حمد باری تعالیٰ میں وحدت، محبت اور عبادت کا اظہار اظہار کیا ہے۔ان کی حمد میں ایک غیر معمولی عقیدت اور یکسوئی نظر آتی ہے۔ شاعر کی فکری گہرائی اس بات میں مضمر ہے کہ وہ اللہ کی حاکمیت اور وحدانیت کو بڑی سادگی سے بیان کرتا ہے:
تیرے رب ہونے پہ ہے ناز مجھے
میرے دل میں بھی ہے وحدت تیری
یہاں شاعر کا عمومی بیانیہ ہر انسان کی بنیادی فطرت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہر شخص اللہ کی ذات کا محتاج ہے۔ اسی طرح، وحدت و یکتائی پر بھی شاعر کو ناز ہے، جو وحدانیت کی مضبوط علامت ہے۔
یہ اشعار صوفیانہ فکر سے قریب معلوم ہوتے ہیں، جہاں خدا کی وحدانیت کو انسان کے دل میں پنہاں تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح دعا اور حاجت کی عدم موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے شاعر کا انداز نہایت منفرد ہے:
"اب کسی شئے کی نہیں ہے حاجت
دل میں میرے ہے محبت تیری”
یہاں شاعر کی روحانی وابستگی اور اللہ سے قربت نمایاں ہوتی ہے۔ وہ مادی دنیا کی ضرورتوں سے بے نیاز ہو کر خدا کی محبت میں محو ہو جانے کو سب سے بڑی کامیابی تصور کرتا ہے۔ حمد کے آخری اشعار میں دعاؤں کی قبولیت کی کیفیت کو ایک وجدانی تجربے کی طرح پیش کیا گیا ہے مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
"جب بھی بسمل نے دعائیں مانگیں
تب برسنے لگی رحمت تیری”
یہاں شاعر کا نام بھی عقیدت کے رنگ میں رنگا ہوا محسوس ہوتا ہے، جس سے ایک خودسپردگی اور روحانی سرشاری کا انداز جھلکتا ہے۔
اُدھوَ مہاجن بسمل کی حمدباری تعالیٰ کے ساتھ ساتھ ان کی نعتِ پاک میں بھی عقیدت اورتعظیمی جذبے کی تصویر کشی نظر آرہی ہے۔بسمل کی نعت حضور اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں ایک گہری عقیدت اور محبت کا اظہار ہے۔ سب سے پہلے شاعر اپنی کم مائیگی کا اظہار کرتے ہوئے نعت گوئی کی عظمت کو یوں بیان کرتا ہے:
"مجھ سے الٰہی شاہِ اُمم پر قلم اُٹھانا مشکل ہے
حُسنِ رسولِ پاک ہے کیسا،یہ بتلانا مشکل ہے”
یہ عاجزی سے بھرپور اسلوب نعتیہ شاعری کی ایک خاص علامت ہے، جہاں شاعر اپنی کم حیثیتی کو حضور اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بلند عظمت کے مقابلے میں تسلیم کرتا ہے۔ ان کے نعت کا ایک اور نمایاں پہلو نبی اکرم ﷺ کی آمد سے پہلے کے حالات کا بیان ہے جس میں وہ دنیا کی ویرانی اور بے نوری کا ذکر یوں کرتے ہیں:
"آپ نہیں آئے تھے جب تک اِس دُنیا کے صحرا میں
سب کہتے تھے ویرانوں میں پھول کھلانا مشکل ہے”
یہ استعارہ نہ صرف نبی اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی رحمت اللعالمین ہونے کو اجاگر کرتا ہے بلکہ آپ ﷺ کی آمد کو حیاتِ انسانی کے لیے ایک عظیم نعمت قرار دیتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی شخصیت کو چاند ستاروں سے موازنہ بھی انتہائی عمدہ تشبیہ ہے:
"دُنیا والو! چاند ستارے آج بھی ہم سے کہتے ہیں
اُن کے دیپ کے آگے اپنا دیپ جلانا مشکل ہے”
یہاں شاعر کا کلام قرآنی تعلیمات سے متاثر نظر آتا ہے جہاں حضور ﷺ کو "سراجاً منیرا” یعنی روشن چراغ قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح قرآن کے نزول کی حکمت کا ذکر کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے:
"اِسی لیے تو سرورِ عالم!آپ پہ قرآن اُترا ہے
پربت کو تو اِک آیت کا بوجھ اُٹھانا مشکل ہے”
اس شعر میں شاعر نے سورۃ الحشر کی مشہور آیت "لو أنزلنا هذا القرآن على جبل…” کی جانب اشارہ کیا ہے، جو کہ شاعر کے قرآنی فہم اور اسلامی عقائد سے قربت کی نشاندہی کرتی ہے۔
نعت کے آخری اشعار میں شاعر اپنی تمنا کا اظہار کرتا ہے کہ وہ مدینہ منورہ جا کر حضور اکرم ﷺ کے در پر فدا ہو جائے:
"اِک دِن میں بھی شہرِ نبی میں جاکر ُگم ہو جاؤں گا
میرے لیے تو آپ کے در سے واپس آنا مشکل ہے”
شاعر کا یہ خیال عاشقانہ رنگ لیے ہوئے ہے جہاں شاعر مدینہ منورہ کو اپنی آخری منزل سمجھتا ہے۔
اُدھوَ مہاجن بسمل کی حمد و نعت ان کی گہری عقیدت اور اسلامی فکر سے وابستگی کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں سادگی اور خلوص اور جذبات کی پاکیزگی نمایاں ہے۔انہوں نے اپنی شاعری میں قرآنی اور اسلامی اصطلاحات کا استعمال کا بھرپور اسستعمال کیا ہے، انہوں نے وحدانیت، رحمت، نبی اکرم ﷺ کے نور اور قرآن کے نزول جیسے موضوعات کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ ان کی شاعری میں عقیدت کا فطری اظہار بھی ملتا ہے، شاعر کی محبت میں دکھاوا یا تصنع نظر نہیں آتا، بلکہ ایک سچے عقیدت مند کی جھلک ملتی ہے۔
ہندو شاعر اُدھوَ مہاجن بسمل کی حمد و نعت، ایک غیر مسلم شاعر کے قلم سے لکھی گئی اسلامی عقیدت کی بہترین مثالیں ہیں۔ ان کا کلام اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی محبت کسی مذہبی حد بندی کی محتاج نہیں، بلکہ ان کی شخصیت اور تعلیمات عالمگیر حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی شاعری اردو ادب کے اس روشن پہلو کا حصہ ہے جہاں عقیدت اور محبت کے رنگ کسی مذہب یا قوم کے دائرے میں محدود نہیں رہتے۔ میں شاعر کو عقیدت سے بھرپور حمدیہ و نعتیہ شاعری تحلیق کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |