ڈویلپ پاکستان تھنک ٹینک
دنیا کے افراد، معاشروں اور اقوام کی ترقی کے رازوں کو جاننا تاریخی اور تحقیقی موضوع ہے۔ انجینئر محمد جاوید نے قائداعظم ڈے پر مجھے اس موضوع میں خصوصی دلچسپی لینے پر آمادہ کر لیا تھا۔ حسب توقع جمعہ کی شام کو عارف شاہد نے فون کیا کہ تیار رہنا کل نو بجے راس الخیمہ نکلنا ہے۔ سرمد خان صاحب انتہائی حب الوطن پاکستانی ہیں۔ جب ہم شیخ محمد بن زاید روڈ پر چڑھے تو انہوں نے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں پاکستان کے امیج کو خراب کرنے والے "گینگز” کی کہانی چھیڑ دی۔ عارف شاہد پاکستان اور امارات میں ریسرچ رپورٹنگ کرتے رہے تھے۔ اس مد میں انہوں نے ایسے چشم کشا واقعات سنائے کہ جس سے کچھ اندازہ ہوا کہ اقوام کیوں اور کیسے تباہ و برباد ہوتی ہیں یا ترقی کرتی ہیں تو اس کے کیا اسباب اور وجوہات ہوتی ہیں۔ دبئی سے نکلتے وقت گوگل گائیڈ نے راس الخیمہ پہنچنے کا وقت ایک گھنٹہ دس منٹ بتایا تھا مگر یہ موضوع ایسا دلچسپ ثابت ہوا کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔
راس الخیمہ پہنچ کر ہم ایک جگہ غلط ہو گئے اور ہم نے جاوید صاحب کو فون کر کے بتایا کہ ہم "راس الخیمہ نیشنل تھیٹر” کے سامنے کھڑے ہیں جو ہمارے بائیں ہاتھ ہے۔ چند ہی منٹ بعد جاوید صاحب کی گاڑی ہمارے بازو میں آ کر رکی تو انہوں نے کہا، "یہ ہے وہ جگہ جہاں ہم پاکستانی فنکاروں اور شعرائے کرام وغیرہ کے پروگرامز کرواتے رہے ہیں جہاں منی بیگم اور منو بھائی سے لے کر وصی شاہ اور ابرارالحق تک سب فنکار آتے رہے ہیں۔”
خیبر ریسٹورنٹ کے مالک ندیم صاحب نے ہمارے ناشتے کا پرتکلف اھتمام کر رکھا تھا، ایک ٹیبل تو آٹھ دس قسم کے پراٹھوں اور طرح طرح کے نان وغیرہ ہی سے بھر گیا۔ اس کے علاوہ دوسرے ٹیبل پر سری پائے، چنے، چپلی کباب، لسی، دیسی مکھن کا ساگ اور حلوہ پوڈی وغیرہ رکھے گئے۔ ہم چار لوگ تھے اور یہ ناشتہ کم و بیش پندرہ مہمانوں کا تھا۔ میں نے اعتراض کیا اور کہا "جناب! ناشتہ کی اتنی اقسام تو مغلیہ خاندان کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کے ٹیبل پر بھی نہیں ہوتی تھیں”۔ میں مزید عرض کیا کہ کنیڈا کا وزیراعظم بھی اپنے ہم عہدہ مہمان کو بنچ پر بٹھا کر چائے اور کیک پیش کر سکتا ہے تو ہم سادہ غزا کیوں نہیں کھا سکتے۔ یہ طنزیہ جملہ سن کر عارف شاہد صاحب نے کہا: "لنچ میں آپ کو صرف چائے اور توش دیا جائے گا”۔
راس الخیمہ دبئی سے قریب ترین پرفضا مقام ہے جس کے دو اطراف پہاڑ ہیں۔ انجینئر جاوید صاحب کا گھر راس الخیمہ کے پوش علاقہ خزام Khuzam میں واقع ہے جس کے تین چار گھروں کو چھوڑ کر "زرداری ہاو’س” ہے۔ جاوید صاحب کے گھر کو جاتے ہوئے پولیس ہیڈ کوارٹر کے سامنے ہم نے پہاڑی پر تعمیر شدہ چند خوبصورت گھروں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ گھر عزت مآب شیخ کے کزنوں کے ہیں جن میں ایک محل نما بڑا گھر ہمرین سنٹر کے سابق مالک کا تھا جو زرداری صاحب کے بڑے اچھے دوست تھے۔ خاران کے علاقے سے گزرے تو "مکتوم پیلس” اور "مکتوم مسجد” دیکھی۔ جمیعہ الامارات (امارات سوشل سنٹر) پر پہنچے تو جاوید صاحب نے کہا کہ وہ ہمیں "پاکستان سنٹر راس الخیمہ” سب سے آخر میں دکھائیں گے۔ کنگ پیلس بھی دیکھا وہاں سیکورٹی بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہاں کے حکمران بغیر سیکورٹی کے دیکھے جا سکتے ہیں مگر ان کے ساتھ سیکورٹی ہو بھی تو وہ خفیہ رہتی ہے۔ لوکلز اپنے گھر عموما مین روڈ سے دور بنانا پسند کرتے ہیں جہاں سیکورٹی گارڈز نہیں رکھے جاتے۔ جب ہم زرداری ہاوس کے سامنے سے گزرے تو دیکھا کہ یہ گھر عربی لوکلوں کے گھروں سے بڑا تھا، اس گھر کی دیواریں اونچی تھیں اور چہار اطراف سیکورٹی کیبنز بنے ہوئے تھے جہاں چوبیس گھنٹے سیکورٹی گارڈز موجود ہوتے ہیں۔
راستے میں "سرحد یونیورسٹی” بھی دیکھائ دی جسے کچھ عرصہ ایک انڈین سرمایہ دار بھی چلاتا رہا تھا آج کل یہ یونیورسٹی پاکستان کے ایک ریٹائرُ نیول افسر چلا رہے ہیں۔
ہم دن کے گیارہ بجے جاوید صاحب کے گھر پہنچ گئے جہاں پاکستان کے بہتر مستقبل کے موضوع پر گفتگو شروع ہو گئی۔ دو بجے کے قریب ہم چاروں گاڑی میں بیٹھ کر راس الخیمہ بس سٹینڈ پر چلے گئے جہاں جاوید صاحب نے نظام ٹی وی کے مالکان ڈاکٹر شاہد اور علی رضا صاحب کو ملوا کر ایک سرپرائز دیا۔ قائد اعظم ڈے منعقدہ "ابراہیمی ریسٹورنٹ” دبئ کے موقع پر طے ہوا تھا کہ یہ دونوں صاحبان اگلی میٹنگ میں شامل ہونگے، انہیں اچانک دیکھ کر ایک حیرت انگیز خوشی ہوئی۔ جب گھر واپس پہنچے تو گفتگو وہیں سے شروع ہوئی جہاں چھوڑ کر گئے تھے۔
اس دوران "عمران ڈرائیونگ سکول” کے انسٹرکٹر دوست محمد اور خیبر ریسٹورنٹ کے مالک ندیم صاحب بھی تشریف لے آئے جو کھانے کے کچھ مزید بنڈل اٹھا لائے مگر جب "سوچنے” اور "کچھ کر گزرنے” والوں کے اکٹھا ہونے کا کورم پورا ہوا تو ہم سب دوست سب کچھ بھول کر مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے میں جت گئے۔ سب سے پہلے طے ہوا کہ اس سلسلے میں میڈیا کی ایک دبئی بیسڈ نئی کمپنی کھڑی کی جائے جس کی ذمہ داری راقم الحروف اور عارف شاہد پر چھوڑی گئی تاکہ ڈاکٹر شاہد اور علی رضا صاحب کو دبئی میں ریزیڈنٹ ویزہ فراہم کیا جائے اور ایک تھنک ٹینک کے قیام کے بعد صحافت کے پلیٹ فارم سے عوام کی ذہن سازی کا باقاعدہ عملی آغاز کیا جائے۔
انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ "اربوں میلوں کے سفر کا آغاز پہلا قدم اٹھانے سے ہوتا ہے” (A millions of miles journey is started with a single step) امریکہ، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بڑے دماغوں کو اکٹھا کرنے اور انہیں صرف سوچنے کا کام سونپنا باقاعدہ ایک پیشہ ہے۔ ایک خالصتا "تھنک ٹینک” میں شامل لوگ سوچنے، منصوبے و پالیسیاں بنانے اور ان کی رپورٹس تیار کر کے متعلقہ محکموں کو دینے کے علاوہ زندگی بھر دوسرا کوئی کام نہیں کرتے۔ ایسے غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک اور اپنے اپنے شعبے کے ماہرین کو ان کے اس کام کا بھاری معاوضہ دیا جاتا ہے جس سے وہ افراد، معاشروں اور قوموں کو عمل کرنے کے لیئے تیار کرتے ہیں۔
یہی جینئس لوگ افراد، معاشروں اور اقوام کی تقدیر بدلنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ یہ لوگ استاد اور فلاسفر قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ مضبوط ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ناکامی اور کامیابی کی کیا وجوہات ہوتی ہیں کیونکہ ان کی بصیرت اور تخیل اتنے بلند ہوتے ہیں کہ وہ تحقیق یا تحقیق کے بغیر بھی رہنمائی کر سکتے ہیں کہ آگے کیسے بڑھا جا سکتا یے۔
ہاں البتہ ایسے بلند پائے کے لوگ قسمت سے ملتے ہیں جو دوسروں کی قسمت بدلتے ہیں۔ ہم نے اس عظیم الشان کام کے آغاز کا پہلا قدم اٹھایا۔ اس کو پایہ تکمیل تک کون پہنچاتا ہے یہ وقت بتائے گا۔ اقبال نے فرمایا تھا:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے،
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔
رات 9 بجے ہم ایک شامی ریسٹورنٹ "ال بیت ال حلبی” پہنچے۔ وہاں بھی "پرتکلف” ڈنر تھا۔ ساڑھے دس بجے جاوید صاحب، اللہ ان کی لمبی عمر کرے، پاکستان سنٹر لے گئے۔ اس کے ساتھ ہی انڈین سنٹر تھا۔ پاکستان سنٹر کا رقبہ انڈین سنٹر سے دگنا تھا مگر وہ بند پڑا تھا اور اس کی ابھی تعمیر بھی نامکمل تھی۔ انڈین سنٹر میں اندر جا کر دیکھا وہاں ایک ڈانس اور میوزک پروگرام چل رہا تھا جو ناظرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔
جب مکرمی جاوید صاحب نے بتایا کہ یہ پاکستان سنٹر انہوں نے حکومت سے منظور کیسے کروایا، اس کے رقبہ میں کیا کیا ہوتا رہا یا کیسے کیسے "گھپلے” ہوئے اور وہ کس طرح ہر ہفتہ اپنے عملے کو لے جا کر وہاں خود جھاڑو دیتے رہے، سن کر کچھ اندازہ ہوا اب کچھ کرنا ہے تو اسے کیسے کرنا ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔