قرآن پاک کی بے حرمتی اور جرم ضعیفی کی سزا
سوئیڈن میں قرآن پاک کو عید الاضحٰی کے موقع پر جلانے کا واقعہ عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ہر طرف سے حسب توقع مذمتی بیانات آ رہے ہیں، جلسے جلوس نکالے جا رہے ہیں اور سوئیڈن کے سفیروں کو طلب کر کے اس واقعہ کی سرکاری سطح پر مزمت کی جا رہی ہے۔ اس دفعہ احتجاج پہلے سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
قرآن پاک کی سوئیڈن میں چھ ماہ کے اندر بے حرمتی کا یہ دوسرا واقعہ ہے جس کی عالم اسلام ہی نہیں مغربی دنیا میں بھی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔اس بار سوئیڈن کی عدلیہ اور حکومت نے قرآن کریم کو جلانے والے نامراد شخص کو سیکورٹی بھی فراہم کی۔ گہری نظر سے دیکھا جائے تو جس طرح سوئیڈن حکومت نے عدلیہ کے کندھے پر اس واقعہ کی سرپرستی کرنے کی حماقت کی، اس کی مثال پہلے کبھی قائم نہیں ہو سکی تھی۔ گو کہ اس سے قبل 2015 میں خاکے دکھانے کے چارلی ایبڈو کے سیرئیل واقعات کے پیش آنے میں بھی فرانسیسی حکومت نے حوصلہ افزائی کی تھی مگر سوئیڈن عدالت نے اس تاریخ ساز واقعہ کی ہزیمت اٹھانے اور انسانیت میں نفرت کو قانونی شکل دینے میں جو ریکارڈ قائم کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
یہ واقعہ تعصب انگیز اور متعصبانہ کارروائی ہے جو مذہبی رواداری، باہمی احترام اور تہذیب و شائستگی کی اعلیٰ انسانی اقدار کے سراسر منافی ہے۔57مسلم ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے علاوہ یورپی یونین نے بھی دنیا کے ڈھائی ارب مسلمانوں اور ہر شائستہ اور مہذب انسان کی دل آزاری پر مبنی اس اشتعال انگیر کارروائی کی سخت الفاظ میں سرزنش کی ہے۔ جبکہ او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے۔
اس واقعے کے تقریباً دو سو عینی شاہدین کے مطابق اسٹاک ہوم کی مسجد کے باہر دو مظاہرین نے قرآن کے نسخے کو پھاڑ دیا اور مقدس اوراق کی بے حرمتی کرنے کے بعد انہیں نذر آتش کیا۔ مظاہرے سے قبل واقعے میں ملوث شخص ملعون سلوان مومیکا نے ایک امریکی نیوز چینل کو بتایا کہ وہ کسی مذہب کو نہیں مانتا، وہ یہ مظاہرہ عدالت میں تین ماہ کی قانونی جنگ جیتنے کے بعد کر رہا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ قرآن پر پابندی لگائی جائے۔ واضح رہے کہ سوئیڈن کی پولیس نے مسلم مخالف مظاہروں کی اجازت کی کئی درخواستیں خارج کر دی تھیں! مسجد کے ڈائریکٹر اور امام محمود خلفی نے انکشاف کیا کہ مسجد انتظامیہ نے پولیس سے درخواست کی تھی کہ وہ کم از کم مظاہرے کو کسی دوسری جگہ منتقل کر دیں جو قانون کے مطابق ممکن تھا مگر یہ درخواست قبول نہیں کی گئی تھی۔
یہ خاص واقعہ محض قرآن پاک کو جلا کر اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کے اظہار کا واقعہ ہی نہیں ہے بلکہ عالمی امن اور بھائی چارے کے داعی دنیا بھر کے اعتدال پسند حلقوں کے جذبات اور برداشت کی پیمائش کرنے کے لئے اس واقعہ کو ایک "لٹمس ٹیسٹ” کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ دنیا میں یہ واقعہ انسانیت کے خلاف دہرے معیار اور منافقت کا منہ بولتا ثبوت یے یعنی سوئیڈن کی عدالت نے ایک ایسا فیصلہ دیا کہ دوسرے انسانوں کے حساس اور مذہبی جذبات کو بھڑکانے، ان میں دوسروں کے خلاف نفرت اور دشمنی پھیلانے کی اب قانونی اجازت ہے۔ ظاہر ہے کہ آئندہ اس کیس کو دوسری عدالتیں بھی سماعت کے دوران کوئی نیا فیصلہ دینے کے لئے ایک مثال کے طور پر پیش کر سکتی ہیں۔
یہ واقعہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک کو جلانے سے زیادہ انسانی معاشرے میں انصاف، رواداری اور امن و سکون قائم کرنے کے خلاف اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہی نہیں، بلکہ اس واقعہ نے مسلمانوں کے اسلامی تشخص اور کردار کی بھی قلعی کھول دی ہے کہ اب دنیا بھر کے مسلمان اور حکومتیں احتجاج کرنے سے آگے بڑھنے کی طاقت مکمل طور پر کھو چکی ہیں۔ جب مسلمانوں کو عروج حاصل تھا تو جرمنی کے فلسفی اور شاعر گوئٹے نے اپنی ایک منظوم نظم میں اسلام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا جس کا مفہوم ہے کہ
جہاں سے مسلمانوں کا قافلہ گزرتا ہے انسان تو انسان وہاں کے صحرا و ریگستان بھی بول اٹھتے ہیں کہ اے سوئے خدا کو جانے والو ہمیں بھی اپنے ساتھ لے چلو۔
گوئٹے
آج مسلمان مرگ مفاجات کی اس حالت کو پہنچ گئے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرنے والوں کے دل میں صلیبی جنگوں اور دو عالمی جنگوں کی طرز کا احساس برتری پیدا ہو گیا ہے اور جو اب مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے انسانی معاشرے کے لئے بھی ایک نفسیاتی عارضہ بننے کے لئے تیار ہے۔
مسلمانوں سے نفرت اور دشمنی کی نفسیات کو سمجھنے کے لئے یہی کافی ہے کہ یورپ میں قرآن پاک کا ترجمہ بارہویں صدی میں لاطینی زبان میں کرانے کا بنیادی محرک مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک کے خلاف لٹریچر پیدا کرنا تھا جو صرف قلمی نسخوں پر مبنی تھا، جو یورپ میں ایک عرصہ تک رائج رہا جو مکمل ترجمہ بھی نہیں تھا بلکہ چند مضامین کا خلاصہ تھا۔ یہ ترجمہ عام طور پر دستیاب نہیں تھا اور اس کے نسخے کا زیادہ تر حصہ ان لوگوں کی تحویل میں تھا جو اسلام کی مخالفت اور دشمنی میں پیش پیش تھے۔ یہ ایک تاریخ ہے جس میں مارٹن لوتھر کنگ نے بھی حصہ ڈالا تھا کہ قرآن کے اس ترجمے ہی کو دنیا میں رائج کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ سے کبھی کبھی یہ خبریں بھی آتی رہتی ہیں کہ امریکہ سے قرآن پاک کے "مخصوص نسخے” تیار کر کے دنیا بھر میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔
سوئیڈن کے واقعہ کے بعد مسلمانوں کے لئے یہ ایک ایسا چیلنج ہے کہ اب امہ کو احتجاج کا انداز بدلنے کی ضرورت ہے۔
سوئیڈن میں قرآن جلانے کے حالیہ واقعے کے دعوت اسلام کی مناسبت سے ایک بھرپور اور دور رس حکمت عملی یہ ہے کہ ہماری اکثریت جس مار دو، گرا دو، سفیر کو نکال دو یا بائیکاٹ کر دو والے جذباتی بیانیےمیں مبتلا ہے اب اس سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے، کیونکہ عین اسلام صرف گفتار کا نہیں بلکہ کردار کا اسلام ہے، کیونکہ قرون اولی کی ایسی زبردست مثالیں بھی ہیں، جن سے بوجوہ ہم نے سبق سیکھنے کی بجائے متشددانہ رویوں کو ہی اسلام سمجھ لیا ہے. ضرورت ہے کہ آزادی رائے پر مبنی مغرب کے ایسے مذہب دشمن اور معاندانہ رویوں کے خلاف ہمارے اہل فکر علماء آگے آ کر مناسب حکمت عملی طے کریں اور ایک حکیمانہ انداز میں جواب دیں۔
بقولے شخصے، "سوئیڈن کی نیشنیلٹی چھوڑنا قرآن سوزی کا جواب نہیں ہے۔” یہ واقعہ ہے کہ جب معاذ بن جبل ایک نوجوان کے طور پر مدینہ سے یمن گئے تھے، اور جب وہ کچھ عرصہ بعد واپس مدینہ آیا تھا تو یمن میں ایک متنفس بھی غیر مسلم نہیں تھا. اسی طرح اسلام کے آغاز میں جب نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر بن طیار رضی اللہ تعالی عنہ نے تقریر کی تھی تو نجاشی کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ پیدا ہو گیا تھا۔ حتی کہ برصغیر میں صوفیائے کرم کے اخلاق، عدم تشدد اور رواداری پر مبنی اعلی اور مثالی اوصاف کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ چہ جایکہ دنیا کی کوئی بھی کمزور قوم سیاسی اور معاشی طاقت حاصل کیئے بغیر زوال اور غلامی سے نہیں نکل سکتی۔
خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت کو بدلنے کی خود کوشش نہیں کرتی (مفہوم القرآن)۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔