درویشیات – دی ڈائیونگ بیل اینڈ دی بٹرفلائی

درویشیات – دی ڈائیونگ بیل اینڈ دی بٹرفلائی

قسط دوئم

تحریر و تحقیق
شاندار بخاري
مقیم مسقط

درویشیات کے نام سے شروع سلسلے کی اس دوسری قسط میں دنیا بھر سے چنیدہ لکھاریوں کی تحریروں کو اردو میں ترجمہ کر کے آسان الفاظ میں آپ ادب شناس احباب تک پہنچانے کے سلسلے میں آج ایسے ہی ایک انوکھے تجربے کو تاریخ کے اوراق سے نکال کر آپ کیلئے لایا ہوں جو ہمت اور عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

جین ڈامینک بئوبی فرانسیسی نژاد صحافی و لکھاری جو مشہور میگزین ایللی کے ایڈیٹر بھی تھے ایک زندہ دل اور زندگی سے بھرپور انسان تھا اور ایک دن اچانک ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے جس میں اس کے سارے جسم پر فالج کی کیفیت غلبہ پا لیتی ہے، جو کبھی ہنستا، روٹھتا، کھیلتا، بولتا تھا اب وہ صرف دیکھ سکتا تھا ایک گوشت کا لوتھڑا تھا جو کمرے کے ایک کونے میں پڑا رہتا تھا مجبور لاچار بے چارگی کی تصویر بن کر رہ گیا تھا۔

ہم جو بے نیازی سے اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ہیں بولتے ہنستے ہیں اگر ہمیں باندھ کر رسیوں سے جکڑ کر آنکھوں پر کالی پٹی باندھ کر منہ پر ٹیپ لگا کر کچھ دیر کیلئے بنا حرکت کے بٹھا یا کہیں چھوڑ دیا جائے تو ہماری حالت کیا ہوگی ہم حرکت نہیں کر سکتے ہم اپنی تکلیف کا اظہار نہیں کر سکتے ہم پکار نہیں سکتے صرف سانس لے رہے ہوتے ہیں اور محسوس کر رہے ہوتے ہیں تو سوچیں اس وقت کیسے کیسے وسوسے آپ کے ذہنوں میں آئیں گے ایک عجیب سے بے بسی کا عالم ایک انجانے خوف کا عالم جو نہ ختم ہونے والا ہو تو یا تو اپ کا ہارٹ فیل ہو جائے گا یا پھر آپ بہادری سے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہمت باندھیں گے اور زبان سے نہیں لیکن دل سے اپنے رب کو پکاریں گے کے وہ اس صورتحال میں آپ کی مدد کرے تو لا یقینی کی صورتحال سے بھی لا محدود امکانات جنم لیں گے، آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا یا کبھی سنا ہوگا کہ ریگستان میں پھول کھل جائے یا سخت پلاسٹر کی دیوار یا کنکریٹ کا سینہ پھاڑ کر نرم ملائم پھول اُگ آئیں یہی اس دلچسپ کہانی کا خلاصہ بھی ہے۔

درویشیات - دی ڈائیونگ بیل اینڈ دی بٹرفلائی

جان ڈومینیک بئوبی کو جب ہسپتال میں ہوش آیا تو اس سے قوت اظہار چھین لی گئی تھی ایک زندہ لاش، جسم جو بظاہر توانا تھا لیکن بنا جنبش, کس کام کا؟ اس کو طب کی اصطلاح میں ویجیٹیبل سٹیٹ کہتے ہیں سبزی نما۔ جان کے جسم میں خوراک کی نلکیاں لگا دی گئیں روز اس کو ادویات کیساتھ ساتھ ورزش کرواتے لیکن سب بے سود، وہ روز اس امید سے جاگتا کہ آج میں ٹھیک ہو جاؤں گا لیکن زندگی کا جادو وہ طلسم جاتا رہا اسے ہر وقت اپنے عزیز رشتے دار، دوست اور دفتر کے ساتھی یاد آتے جو شروع شروع میں ملنے آتے رہے اور آہستہ آہستہ کم ہوتے گئے اسے اپنے بچوں کیساتھ کھیلنا پکنک پر جانا اپنی شریک حیات کا ہاتھ تھامنا اسے فلم دکھانے لیجانا یاد آتا اسے اپنا بچپن یاد آتا جب ہسپتال میں اسے اسپنج سے نہلایا جاتا تو اسے اپنے گھر کا لکزری ٹب یاد آتا خیر کے دنیا کی سب رنگینیاں اچانک سے بے رنگ ہو گئیں تھیں لیکن جان ایک لکھاری تھا اور اس کا دماغ یہ قبول نہیں کر رہا تھا کہ اب زندگی کا اختتام ہوا چاہتا ہے کچھ ہی عرصے کی طبی تجربات سے اس کا سر کچھ حد تک ہلنے لگا اور بائیں آنکھ کی پلک کو وہ جھپکا لیتا تھا جو ایک دن اس کی شریک حیات نے بھانپ لی کیونکہ وہ مسلسل اپنی پلک جھپک رہا تھا جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو تو اس کی بیوی نے اس سے کہا کہ اگر تم مجھے سن سکتے ہو تو اپنی پلک جھکاؤ شاید کچھ تعداد مقرر کی ہو کہ اتنی بار, جو جان نے کر دکھایا یہ لمحہ کئی دنوں کی محنت کا ثمر تھا فرط جذبات سے اس کی بیوی اس سے لپٹ گئی اور رو پڑی اب وہ روز اس کو پلک جھپکانے کا کہتی اور وہ کرتا اسی دوران اس کی بیوی کو خیال آیا کہ اس سے بات کی جائے تو اس نے فرانسیسی قاعدے کے مطابق حروف تہجی اسے سنائے اور کہا جو لفظ کہنا چاہو جب اس کی تہجی کا حرف آئے تو پلک جھپکانا تو جان نے ایسا ہی کیا اس میں وقت لگا کیونکہ کافی صبر آزما مشق ہے لیکن حرف سے لفظ اور لفظ سے الفاظ بنتے گئے اور جملہ بن گئے جو کہ حیرت انگیز لیکن جان کی پر عزم شخصیت کی عکاسی تھی اب جان اپنے خواب لکھواتا جو ہمیشہ ڈراؤنے ہوتے تھے اس کی حالت جو ایسی تھی اپنی خواہشات کا اظہار کرتا اپنے دفتر جو اسے بھول چکے تھے اور اب نیا ایڈیٹر رکھ چکے تھے ہر ہفتے انہیں پیغام بھجواتا یو کرتے کرتے ایک دن اس نے لکھوایا کہ میں ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں اور فلاں پبلشنگ ہاؤس سے رابطہ کریں انکیساتھ میرا کتاب لکھنے کا معاہدہ طے ہوا تھا تو اس کی بیگم نے ان سے رابطہ کیا جواب پبلشنگ ہاؤس والوں نے بتایا کہ معاہدہ تو ہوا تھا لیکن وہ لکھیں گے کیسے تو ان کی بیگم مسکرائیں اور کہا کہ آپ اگر شخص متعین کریں جو میرا اس پراجیکٹ کی ڈکٹیشن لینے میں میرا ساتھ دے اور انہوں نے ایک خاتون مصنفہ کو بطور ٹائپسٹ متعین کردیا اب ہر روز جان ان کی بیگم اور ٹائپسٹ چار گھنٹے صرف کرتے جو انہوں نے جان کی صحت کے مطابق مختص کئیے تھے اور ان چار گھنٹوں میں کئی ہزار مرتبہ حروف دہرائے جاتے اور چند ستریں ہی لکھی جاتیں لیکن یہ مرحلہ جاری رہا اور جان اپنے ماضی اور موجودہ حالات و واقعات کر انتہائی صبر و تحمل سے درج کرواتا رہا کہ وہ کیا تھا اور اب کیا ہے اور آگے کیا ہوگا ، کیا سوچتا ہے اور کیا چاہتا ہے اپنی سوانح حیات لکھ رہا تھا اور اس کتاب کا نام اس نے ” ڈائیونگ بیل اینڈ دی بٹرفلائی ” تجویز کیا اس کے لفظی معنی یا اردو کا ترجمہ اگر کریں تو یوں ہے ڈائیونگ بیل ایک ایسے آہنی صندوق کو کہا جاتا ہے جو انتہائی بھاری بھرکم اور فولاد جیسے مظبوط لوئے کا بنا ہوتا ہے اس میں بیٹھ کر لوگ، سیاح یا کاریگر سمندر کی تہہ میں جاتے ہیں اور جو اس میں ایک بار داخل ہو گیا وہ پھر کسی بیرونی رداؤں کے بغیر باہر نہیں آ سکتا اور اپنے وزن کیوجہ سے سمندر کی تہ میں ڈوبتا چلا جاتا ہے جان بھی خود کو ایک ایسے ہی صندوق میں مقید محسوس کرتا تھا جو چاہ کر بھی اندر سے باہر نہیں آ سکتا تھا کوئی اس کی چیخ و پکار نہیں سن سکتا تھا نا دیکھ سکتا تھا لیکن جان سب کو دیکھ سکتا تھا سن سکتا تھا لیکن اظہار صرف بائیں آنکھ کی پلک جھپکا کر کرتا تھا یہاں مجھے ساغر صدیقی کا ایک شعر یاد آگیا جس کا یہ مصرعہ اس کیفیت کا اظہار کرتا ہے،
” میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے "

درویشیات – دی ڈائیونگ بیل اینڈ دی بٹرفلائی

تو واقعی جان نے پلکوں سے ہی دستک دی تھی جو اس کی شریک حیات نے سن لی اور اس انوکھے تجربے اور مشاہدے کو عیاں ہونے کیلئے راہ مل گئی اور یہ تجربہ ہم تک پہنچا۔ اب اس کتاب کے باقی بچے نام کا خلاصہ بھی بتاتا چلوں ڈائیونگ بیل تو میں نے سمجھا دیا جو اس کی جسمانی کیفیت پر مبنی تھی اب بٹرفلائی کا کیا عمل ہے تو بٹرفلائی یعنی تتلی کو اس نے اپنی روح اپنی ان خواہشات سے تشبیہ دی ہے جو زندہ ہیں اور اسے زندہ رکھے ہوئے تھیں تو یوں یہ نام اس نے تجویز کیا اور کئی ماہ کے عرصے کے بعد سو صفحات سے کم صفحات میں یہ کتاب مرتب کی گئی اور جب چھپ کر آئی اور جان کی بیگم نے اسے ہسپتال لا کر دکھائی تو جیسے فرط جذبات اور مسرت سے کوئی تتلی پھڑپھڑا رہی ہو یوں جان اپنی پلک بار بار جھپکانے لگا اور اس پر مسرت واقع کے چند روز بعد وہ اس جہان فانی سے کوچ کر گیا وہ تتلی آزاد ہو گئی اور اس کتاب کو اتنی مقبولیت ملی کے اس کے کئی مجموعے شائع ہو ئے ہیں اس پر فلم بھی بنائی گئی ہے۔

جس حال میں جینا مشکل ہو، اس حال میں جینا لازم ہے، زندگی کا یہ اصول بنا لیں کے جب دن ہے تو رات بھی ہوگی اندھیرا ہے تو اجالا بھی ہوگا ہر شے کا قدرت نے جوڑا بنایا ہے اللہ آپ سب قارئین اور سامعین کو ہر آفت و بلا و شر سے محفوظ رکھے لیکن یہ درس بھی لازمی ہے کہ کبھی بھی خود کو حالات کے سپرد یا سرینڈر نہیں کریں، اپنی تگ و دو خالص نیت کیساتھ جاری رکھیں آپ کو اس میں کامیابی ضرور ملے گی۔ علم نفسیات کے اسباق میں سے میرے مرحوم والد محترم سیّدزادہ سخاوت بخاري رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے ایک دلچسپ سبق سکھلایا جو میرے بڑے کام آیا میں ان دنوں کافی جذباتی ہوا کرتا تھا اور وہ کہتے تھے صبر سے کام لو ” انا معى العسر يسرا ” سختي کیساتھ خوشحالی ہے، اگر تمہارے پاس ایک طاقتور بیل ہو اور وہ تم سے رسی تڑوا کر بھاگ جائے تو تم اگر رسی کو کھینچو گے زور لگاؤ گے تو وہ تمہیں اپنے ساتھ اپنی طاقت کے بل پر گھسیٹتے ہوا روندتا ہو لے جائے گا لیکن اگر تم صبر و تحمل سے کام لو جذبات کے بجائے ہوش سے کام لو اور وہ بیل جو سخت حالات و معاملات کی تشبیہ ہیں انکیساتھ قدم سے قدم ملا کر کچھ دور تک بھاگو گے تو وہ بیل جو کہ حالات ہیں آہستہ آہستہ تمہارے قابو میں آجائیں گے تم رسی میں لچک محسوس کرو گے اور پھر جب تمہیں یقین ہو جائے کہ اب وہ بیل / حالات تمہارے قابو میں ہیں تو اسے آہستہ آہستہ موڑ کر واپس لے آنا، کبھی ہمت نہ ہارنا۔

ہمتِ مرداں مَدَدِ خُدا

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

مزید دلچسپ تحریریں