درویشیات – ليت الفتى شجرة
قسط أول
تحریر و تحقیق
شاندار بخاري
مقيم مسقط
درویشیات کے نام سے علمی و ادبی سلسے کا آغاز کر رہا ہوں جسمیں دنیا بھر سے چنیدہ لکھاریوں کی تحریروں کو اردو میں ترجمہ کر کے آسان الفاظ میں آپ ادب شناس احباب تک پہنچا سکوں اس پر اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجئے گا تاکہ حوصلہ افزائی یا اصلاح ہو سکے۔
پہلی قسط میں چونکہ میں خود خطہ عرب میں مقیم ہوں تو عرب لکھاری محمود درويش جو عربي ادب میں عصر حاضر کے نمائندہ اور عظیم ترین شاعر مانے جاتے ہیں ان کی تحریروں پر اردو زبان میں کچھ لکھنے یا ان کو اپنے انداز سے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں تاکہ عربی زبان سے نابلد قارئین تک درويش کے تجربات آسان الفاظ میں منتقل کر سکوں تو ان کی ایک مشہور نظم ” ليس الفتى شجرة ” کے نام سے موجود ہے یعنی درخت کی جبلت پر مبنی تحریر ہے جسے انہوں نے انسانی رویوں اور شخصیت کے پہلوؤں سے تشبیہ دی ہے ان کا موازنہ کیا ہے۔
درويش لکھتے ہیں کہ ایک درخت دوسرے درخت کی بہن ہو جیسے، کوئی نیک سیرت پڑوسی ہو جیسے، یہ درخت دوسرے درختوں کا پھل نہیں چراتے ، اگر ایک درخت پر زیادہ پھل لگ گئے ہیں تو کم پھل والے درخت اس سے جلتے نہیں ہیں اور اگر کسی درخت پر کم پھل لگے ہین تو زیادہ پھل والے درخت اس کا مذاق نہین اُڑاتے ، بڑا درخت چھوٹے درخت کو چھاؤں فراہم کرتا ہے ، مضبوط درخت کمزور درخت پر حملہ نہیں کرتے ، ایک دوسرے کو برا بھلا نہیں کہتے ، درخت کبھی لکڑھارے کا مقابلہ نہیں کرتے ، یہی درخت جب تراش کر کشتی بن جائیں تو منزل تک پہنچاتے ہیں دروازہ بند جائیں تو لوگوں کے رازوں کو باہر نہیں جانے دیتے ، کرسی بن جائیں تو اپنے اوپر تنے ہوئے آسمان کو کبھی نہیں بھولتے ، جب میز بن جائیں تو لکھاری کو سکھاتے ہیں کہ کچھ بھی ہو تم نے لکڑہارا نہیں بننا ، ان درختوں کی چھاؤں تلے کتنے مسافروں اور کتنے عاشقوں کو سائبان ملا جو اکثر انہیں درختوں کو چھیل کر زخمی کر کے ان پر تحریریں چھوڑ جاتے ہیں اور یہ درخت بجائے بدلہ لینے کے ان کے نقوش کو اپنے سینے میں سمو لیتے ہیں اور ساری عمر کھڑے رہتے ہیں بانہیں پھیلائے۔
بقول شاعر،
ہم محبت میں درختوں کیطرح ہیں أحسن،
جہاں لگ جائیں وہاں عمروں کھڑے رہتے ہیں۔
اے میری شاخ شاخ کے مقروض، جا، شجر بد دعا نہیں دیتے۔ تو اپنی زندگیوں میں بھی اس نظم سے متاثر ہو کر بدلاو لائیں اپنی مصروفیات سے وقت نکالیں اور قدرت کا مشاہدہ کریں اس میں چھائے جمال، سکوت، صبر کے رموزوں سے خود کا آشنا کریں آپ کی بے ہنگم زندگیوں میں بھی جمال، سکوت اور ربط آجائے گا۔
آخر میں آپ کی نذر عربی زبان میں لکھی محمود درویش کی شہرہ آفاق نظم جو دیدہ وروں کیلئے تعویذ محبت ہے۔

الشجرة أخت الشجرة، أو جارتها الطيّبة.
الكبيرة تحنو على الصغيرة، وتُمدُّها بما ينقصها
من ظلّ. والطويلة تحنو على القصيرة،
وترسل اليها طائراً يؤنسها في الليل. لا
شجرة تسطو على ثمرة شجرة أخرى، وإن
كانت عاقراً لا تسخر منها. ولم تقتل
شجرةٌ شجرةً ولم تقلِّد حَطّاباً. حين صارت
زورقاً تعلَّمت السباحة. وحين صارت
باباً واصلت المحافظة على الأسرار. وحين صارت
مقعداً لم تنسَ سماءها السابقة.
وحين صارت طاولة عَلَّمت الشاعر أن لا
يكون حطاباً. الشجرة مَغْفَرةٌ وسهَرٌ.
لا تنام ولا تحلم. لكنها تُؤتمنُ على أسرار
الحالمين، تقف على ساقها في الليل والنهار.
تقف احتراماً للعابرين وللسماء. الشجرة
صلاة واقفة. تبتهل الى فوق. وحين
تنحني قليلاً للعاصفة، تنحني بجلال راهبة
وتتطلع الى فوق… الى فوق. وقديماً قال
الشاعر: «ليت الفتى حجر». وليته قال:
ليت الفتى شجرة!
مسقط، سلطنت عمان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |