دفاعی خود مختاری اور اسلامی جمہوریہ پاکستان
اسلام علیکم دوستو میں اس موضوع پہ کچھ نہیں لکھتا کیونکہ میں ایک علاقائی پیچ چلاتا ہوں اور اپنے علاقے کی خبروں پہ فوکس رکھتا ہوں لیکن پچھلے کئی دنوں سے جب بھی فیس بک کھولتا ہوں کچھ دوستوں کی پوسٹیں دیکھتا ہوں جو یہ لکھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ میزائل اور اسلحہ ہمارے کس کام کا ہے۔
آج کل سوشل میڈیا پہ کچھ لوگ ایک مہم چلا رہے ہیں کہ جی یہ میزائل ہمارے کس کام کے ہیں میری ان دوستوں سے گزارش ہے کہ اگر آپ کے پاس ایک بہترین افواج اور اسلحہ نہ ہوتا کب کا آپ کا وجود انڈیا اور دوسری صیہونی قوتیں مٹا چکی ہوتیں ایک دفعہ میں الرستیاق سے مسقط سفر کر رہا تھا کہ ایک ٹیکسی والے کے ساتھ بیٹھ گیا سفر تھوڑا طویل تھا اس سے گپ شپ ہوئی اس نے جو ایک بات کی وہ ہمارے لیے باعث فخر تھی اس نے کہا ہمارے پاس پیسے کی فراوانی تھی سب کچھ تھا لیکن ہم نے ان پچاس سالوں میں صرف میڈ اِن عمان ، صرف بطاطس پہ لکھا مطلب صرف آلو والے چیس ہی بناۓ اور صرف عیاشی کی اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا شادیاں کیں اور نئی نئی گاڑیاں خریدیں۔ جبکہ پاکستان ایک غریب ملک ہے پیسہ بھی اتنا زیادہ موجود نہیں تھا لیکن اس نے قرضہ لیا جہاں سے پیسہ لیا لیکن اپنے دفاع کے لیے بہت کچھ بنا لیا آج آپ کے ملک کی طرف کوئی میلی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا جب منگول افواج نے 13 دن سے بغداد کو گھیرے میں لے رکھا تھا جب مزاحمت کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں تو دس فروری سنہ 1258 کو فصیل کے دروازے کھل گئے۔ 37 ویں عباسی خلیفہ مستعصم باللہ اپنے وزراء اور امراء کے ہمراہ مرکزی دروازے سے برآمد ہوئے اور ہلاکو خان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
خلیفہ کی ہلاکت کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں تاہم زیادہ قرینِ قیاس ہلاکو کے وزیر نصیر الدین طوسی کا بیان ہے جو اس موقعے پر موجود تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ خلیفہ کو چند دن بھوکا رکھنے کے بعد ان کے سامنے ایک ڈھکا ہوا دسترخوان لایا گیا۔ بھوکے خلیفہ نے بے تابی سے ڈھکن اٹھایا تو دیکھا کہ برتن ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے۔ ہلاکو نے کہا، ‘کھاؤ۔’
مستعصم باللہ نے کہا: ‘ہیرے کیسے کھاؤں؟’ ہلاکو نے جواب دیا: ‘اگر تم ان ہیروں سے اپنے سپاہیوں کے لیے تلواریں اور تیر بنا لیتے تو میں دریا عبور نہ کر پاتا۔’
عباسی خلیفہ نے جواب دیا: ‘خدا کی یہی مرضی تھی۔’
ہلاکو نے کہا: ‘اچھا، تو اب میں جو تمھارے ساتھ کرنے جا رہا ہوں وہ بھی خدا کی مرضی ہے۔۔ میں یہ نہیں کہتا آپ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کیلئے آواز نہ اٹھائیں آپ اپنی آواز ضرور بلند کریں ان کی مالی مدد کریں اور ان ملکوں کی اشیاء کا بائیکاٹ کریں لیکن خدارا اپنی افواج اور ملکی اداروں پہ تنقید نہ کریں کیونکہ یہی پاکستان کی بقاء کے ضامن ہیں، جن ملکوں کے پاس افواج یا اسلحہ نہیں وہ غیر کے لیے ترنوالہ ہوتے ہیں ہر ملک کے اپنے مفاد ہوتے ہیں پہلے اپنا مفاد پھر دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
Title Image by Brigitte Werner from Pixabay
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔