27 دسمبر …تاریخ کے آئینے میں
تحقیق و تدوین: سعدیہ وحید
(معاون مدیرہ: شعوروادراک خان پور)
537ء۔ آیاصوفیہ مکمل ہوا۔
1911ء ۔کلکتہ کے کل ہند کانگریس کنونشن میں پہلی بار رابندر ناتھ ٹیگور کی تخلیق‘جن من گن’بھارت کا قومی ترانہ گایا گیا۔
1934ء ۔پرشیا کے شاہ نے اعلان کیا کہ پرشیا کو اب ایران کے نام سے جانا جائے گا۔
1936ء ۔جواہر لال نے کل ہند کانگریس کے پچاسویں کنونشن کی صدارت کی۔
1939ء۔ ترکی میں زلزلے کی وجہ سے پچاس ہزار لوگوں کی موت ہو گئی۔
1943ء۔ جرمن جنگی جہاز اسکارن ہوسٹ بیرنٹس سمندر میں ڈوبا۔
1945ء۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) 29 ممالک کی طرف سے ایک معاہدے پر دستخط کے ساتھ آغاز کیا گیا۔
1945ء ۔ورلڈ بینک کا قیام عمل میں آیا۔
1949ء ۔پاکستان نے انڈونیشیا کو ایک آزاد ملک تسلیم کیا۔
1960ء ۔فرانس نے نیوکلیائی تجربہ کیا۔
1961ء۔ بیلجیئم اور کانگو نے سفارتی تعلقات بحال کئے۔
1962ء ۔کشمیر کے معاملے پر پاک بھارت بات چیت کا آغاز کیا۔
1968ء۔ خلائی جہاز اپولو 8 زمین پر لوٹا۔
1974ء۔ سوویت یونین نے نیوکلیائی تجربہ کیا۔
1975ء۔ بہار کی ایک کان میں دھماکہ ہونے سے 372 مزدور ہلاک ہو گئے۔
1977 ء۔کانگریس پارٹی میں تقسیم ہو گئی۔ ایک گروپ نے اندرا گاندھی کی حمایت شروع کی اور دوسرے گروپ نے اس کی مخالفت کی۔
1979ء۔ببرک کارمل افغانستان پہ حکمران مقرر ہوا۔
1992ء ۔بھارتی حکومت نے اجودھیا میں منتازعہ زمین کو ایکوائر کیا۔
1996ء ۔بنگلہ کی مشہور مصنفہ مہا شویتا دیوی کو گیان پیٹھ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
2001ء ۔صدر جارج بش نے چین کو مستقل تجارتی مرتبہ دینے کا اعلان کیا۔
2002ء۔عشرت العباد سندھ کے گورنر مقرر ہوئے۔
27 دسمبر 1980 ء۔ پوسٹ کارڈ سروس کی صد سالہ سالگرہ پر ڈاک ٹکٹ کا اجراء ہوا۔
27دسمبر 1994ء ۔ پاکستان کے محکمہ ڈاک نے لاہور عجائب گھرکے قیام کی سوویں سالگرہ کے موقع پر ایک خوبصورت یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرا کیا جس پر اس کی عمارت کی تصویر شائع کی گئی تھی۔ اس ڈاک ٹکٹ پرانگریزی میں 1894 1994 اورCENTENARY LAHORE MUSEUMکے الفاظ تحریرتھے۔ اس ڈاک ٹکٹ کی مالیت چار روپے تھی اور اسے عبداللہ صدیقی نے ڈیزائن کیا تھا۔
نامور شخصیات کی تاریخ ِ ولادتـ:
1571ء ۔کپلر، جرمن ریاضی دان، ماہر فلکیات اور منجم (وفات: 1630ء)
1797ء ۔مرزا اسد اللہ خان غالب، اردو و فارسی زبان کے عظیم شاعر بمقام آگرہ ہندوستان (وفات: 1869ء)
٭27 دسمبر 1797ء۔ اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ غالب کی تاریخ پیدائش ہے۔ مرزا غالب آگرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ آبائو اجداد کا پیشہ تیغ زنی اور سپہ گری تھا۔ انہوں نے اپنا پیشہ انشاء پردازی اور شعر و شاعری کو بنایا اور ساری عمر اسی شغل میں گزار دی۔ 13 برس کی عمر میں، دہلی کے ایک عظیم دوست گھرانے میں شادی ہوئی اور یوں غالب دلی چلے آئے جہاں انہوں نے اپنی ساری عمر بسر کردی۔ غالب نے اپنی زندگی بڑی تنگدستی اور عسرت میں گزاری مگر کبھی کوئی کام اپنی غیرت اور خودداری کے خلاف نہ کیا۔ 1855ء میں ذوق کے انتقال کے بعد بہادر شاہ ظفر کے استاد مقرر ہوئے جن کے دربار سے انہیں نجم الدولہ دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے۔ جب 1857ء میں بہادر شاہ ظفر قید کرکے رنگون بھیج دیئے گئے تو وہ نواب یوسف علی خاں والیٔ رام پور کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں سے انہیں آخر عمر تک وظیفہ ملتا رہا۔ غالب فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے عظیم شاعر تھے جتنی اچھی شاعری کرتے تھے اتنی ہی شاندار نثر لکھتے تھے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر نگاری میں بھی ایک نئے اسلوب کی بنیاد رکھی۔ غالب سے پہلے خطوط بڑے مقفع اور مسجع زبان میں لکھے جاتے تھے انہوں نے اسے ایک نئی زبان عطا کی اور بقول انہی کے ’’مراسلے کو مکالمہ بنادیا‘‘۔ 15 فروری 1869ء کو مرزا غالب نے دہلی میں وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔
1822ء۔ لوئی پاسچر، فرانسیسی کیمسٹ اور ماہر خرد حیاتیات (وفات: 1895ء)
1901ء ۔مارلین ڈائٹرچ، امریکی اداکارہ و گلوکارہ (وفات: 1992ء)
1918ء ۔مصلح الدین صدیقی، پاکستانی عالم دین۔قاری مصلح الدین کی ولادت11 ربیع الاول 1336ھبمطابق 27 دسمبر 1918ء کو ضلع ناندھیڑ حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباء و اجداد شرفائے دکن میں سے تھے اور صدیوں سے اسلامی تعلیم و تعلم سرانجام دیتے آرہے تھے۔ آپ نے والد مولانا غلام جیلانی سے قرآن حکیم حفظ کیا۔ تقریبا سترہ برس کی عمر میں اپنا وطن چھوڑ کر مدرسہ مصباح العلوم مبارک پور اعظم گڑھ میں علوم اسلامیہ کی تحصیل کا آغاز کیا اور حافظ عبدالعزیز مبارکپوری کی زیر نگرانی آٹھ برس میں تکمیل کی اس کے بعد مفتی محمد امجد علی اعظمی سے بیعت ہوئے اور پھر کچھ عرصہ بعد امجد علی اعظمی نے آپ کو تمام سلاسل طریقت میں اجازت و خلافت دی۔ تحصیل علم کے بعد آپ نے ناگپور کی جامع مسجد میں امامت و خطابت فرمائی نیز جامعہ عربیہ ناگپور میں تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔ کچھ عرصہ سکندر آباد حیدرآباد دکن کی جامع مسجد میں بھی خطابت فرمائی۔سقوط حیدرآباد دکن کہ جس میں سات لاکھ مسلمان ہلاک ہوئے) کے بعد 1949ء میں آپ پاکستان چلے آئے اور اخوند مسجد کھارادر میں خطیب و امام رہے۔ اخوند مسجد کی امامت کے دوران آپ نے علامہ سردار احمد لائل پوری‘ عارف شاہ صاحب‘ پیر صاحب دیول شریف‘ علامہ سید احمد سعید کاظمی کی خواہش اور ایماء پر ڈیڑھ سال جامع مسجد واہ کینٹ راولپنڈی میں امامت و خطابت کی۔ نیز دارالعلوم مظہریہ آرام باغ اور اس کے بعد دارالعلوم امجدیہ میں وصال سے پہلے تک تدریسی اور علمی خدمات انجام دیتے رہے۔آپ کا انتقال 23 مارچ 1983ء کو ہوا۔
1919ء ۔چارلس سوینی، امریکی جنرل و پائلٹ (وفات: 2004ء)
1939ء ۔سحر انصاری، شاعر اور ادیب۔اردو زبان کے ممتاز نقاد، جدید اردو غزل کے اہم شاعر اور ادیب پرفیسر سحر انصاری اورنگ آباد (دکن) میں پیدا ہوئے۔ 1973 میں بلوچستان یونیورسٹی سے بہ طوراستاد پیشہ وارانہ سرگرمی کا آغاز کیا۔ بعد ازاں جامعہ کراچی کے شعبہ تدریس سے وابستگی اختیار کی۔ پہلی کتاب نمود 1976 میں شایع ہوئی جسے بے حساب پزیرائی حاصل ہوئی۔ خدا سے بات کرتے ہیں ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں 2015 میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔
1965ء ۔سلمان خان، بھارتی فلمی اداکار بمقام اندور بھارت۔
1970ء۔ چاینا، امریکی پیشہ ور پہلوان اور اداکار (وفات: 2016ء)
1971ء۔ سید مصطفی کمال، سربراہ پاک سرزمین پارٹی۔
مصطفی کمال کراچی کے سابقہ ناظم ہیں۔ آپ کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے تھا جو پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ رواں برس میں انھوں نے متحدہ قومی موومنٹ چھوڑ دیا اور 3 مارچ، 2016ء میں اپنی نئی تنظیم کی بنیاد رکھی۔
1958ء ۔شاہد خاقان عباسی 27 دسمبر 1958 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ عباسی پاکستان میں 2013ء تا 2017ء تک وزیر پٹرولیم رہے۔ جب کہ اس سے پہلے گیلانی وزارت میں 2008ء میں وزیر تجارت رہے۔ یکم اگست 2017ء کو آپ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔شاہد خاقان عباسی کا تعلق پاکستان مسلم لیگ سے ہے۔
نامور شخصیات کی تاریخ ِ وفات:
1936ء۔ محمد عاکف ارصوی، ترکی کے شاعر اور سیاست دان (پیدائش: 1873ء)
1972ء۔ لسٹر پیرسن، نوبل انعام یافتہ کینیڈین مؤرخ اور سیاستدان، چودہویں وزیر اعظم کینیڈا (پیدائش: 1897ء)
1976ء۔ یشپال،‘جھوٹا اور سچ’،‘دیویا’ناول کے مصنف
1978ء۔ حواری بومدین، الجزائر کرنل اور سیاستدان، دوسرے صدر الجیریا (پیدائش: 1932ء)
٭27 دسمبر 1977ء ۔ اردو کے ایک خوش بیان شاعر فرید جاوید نے کراچی میں وفات پائی۔ فرید جاوید 8 اپریل 1927ء کو سہارن پور میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ ان کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد ’’سلسلہ تکلم کا‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ ان کے مجموعے کا یہ نام ان کے اس ضرب المثل شعر سے اخذ کیا گیا تھا: گفتگو کسی سے ہو، تیرا دھیان رہتا ہے ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے، سلسلہ تکلم کا فرید جاوید کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
2007ء ۔بینظیر بھٹو، پاکستانی سیاستدان،٭27 دسمبر 2007ء کو پاکستان پیپلزپارٹی کی تاحیات چیئرپرسن، پاکستان کے سابق صدر اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی، ملک میں دوبارہ وزارت عظمیٰ کے لئے منتخب ہونے والی سیاسی قائد، عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کے بعد ایک سفاک دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بن گئیں۔ انہیں راولپنڈی جنرل اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ زخموں سے جاں بر نہ ہوسکیں اور شام 5 بجکر 10 منٹ پر اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کرگئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو 21 جون 1953ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہوں نے کراچی، اوکسفرڈ اور ہارورڈ یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ 4 اپریل 1979ء کو جب ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئی تو وہ 25 برس کی عمر میں پاکستان پیپلزپارٹی کی شریک چیئرپرسن بنیں، فوجی حکومت نے کئی سال تک انہیں نظر بند رکھا اور پھر جبری طور پر جلاوطن کردیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی میں اپنی پارٹی کی قیادت کرتی رہیں۔ ملک سے مارشل لاء کے خاتمے اور سیاسی حکومت کے قیام کے بعد 10 اپریل 1986ء کو وہ وطن واپس آگئیں۔ 18 دسمبر 1987ء کو ان کی شادی آصف علی زرداری سے ہوئی، 17 اگست 1988ء کو ان کے سب سے بڑے حریف جنرل ضیاء الحق ایک فضائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ 16 نومبر 1988ء کو ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے جن میں پاکستان پیپلزپارٹی ملک کی اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ انہوں نے مہاجر قومی موومنٹ، فاٹا اور چند آزاد امیدواروں کے تعاون سے مخلوط حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کی اور یوں 2 دسمبر 1988ء کو وہ پاکستان کی وزیراعظم بن گئیں۔ وہ عالم اسلام کی پہلی خاتون تھیں جو اس عہدے پر فائز ہوئی تھیں۔ ان کی یہ حکومت 20 ماہ تک جاری رہی۔ 6 اگست 1990ء کو صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کا الزام عائد کرکے انہیں وزارت عظمیٰ سے برطرف کردیا۔ 1990ء سے 1993ء تک وہ قائد حزب اختلاف کا فریضہ انجام دیتی رہیں اور 1993ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں وہ ایک مرتبہ پھر وزیراعظم منتخب ہوگئیں۔ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے بعد وہ دوسری شخصیت تھیں جو دوسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئی تھیں۔ 5 نومبر 1996ء کو انہی کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر پاکستان سردار فاروق احمد لغاری نے ان کی حکومت کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کردیا۔ 1997
ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کو ملک کی تاریخ کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 15 اپریل 1999ء کو لاہور ہائی کورٹ نے انہیں نواز شریف حکومت کے قائم کردہ مقدمات میں پانچ سال کی سزا سنائی۔ اس وقت وہ دبئی میں مقیم تھیں اس لئے ان سزائوں سے محفوظ رہیں۔ 2002ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے نام سے انتخابات میں حصہ لیا اور ملک میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تاہم چونکہ ان کی پارٹی کی نشستوں کی تعداد، پاکستان مسلم لیگ (ق) کی نشستوں سے کم تھی، اس لئے انہوں نے حزب اختلاف میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اس دوران مستقل دبئی میں ہی مقیم رہیں۔ 14 مئی 2006ء کو انہوں نے ملک میں آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کے قیام کے لئے اپنے دیرینہ حریف میاں محمد نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت کے معاہدے پر دستخط کئے۔ 18 اکتوبر 2007ء کو وہ آٹھ برس بعد وطن واپس لوٹیں لیکن ان کے جلوس پر ایک خودکش حملہ ہوا جس کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر دبئی واپس چلی گئیں۔ 3 نومبر 2007ء کو ملک میں ہنگامی حالات کے نفاذ کے بعد وہ وطن واپس آگئیں۔ وہ جنوری 2009ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں (جو ان کی شہادت کے بعد ملتوی ہوگئے تھے) اپنی پارٹی کی قیادت کا فریضہ انجام دے رہی تھیں اور ملک کے مختلف شہروں میں جلسہ عام سے خطاب کررہی تھیں کہ راولپنڈی میں منعقد ہونے والے جلسہ عام کے بعد ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ جان کی بازی ہارگئیں۔ اگلے روز انہیں آہوں اور سسکیوں میں ان کے والد اور بھائیوں کے پہلو میں گڑھی خدا بخش، لاڑکانہ میں سپردخاک کردیا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سنبھال لی اور محترمہ کے شوہر آصف علی زرداری پارٹی کے شریک چیئرمین بن گئے۔
٭
حوالہ جات :
۱۔ وِکی پیڈیا
۲۔ تاریخ ِ اقوامِ عالم ، مرتضی بنگش، بک کارنر جہلم
۳۔ تاریخ اقوامِ عالم جدید ، سینویس ، سید محمود اعظم ، ادراک کتب خانہ ( آن لائن )
۴۔ تاریخ ِ اقوامِ عالم ۔ مرتضی احمد مے کش ، مجلسِ ترقی ٔ ادب لاہور
۵۔ انسائیکلو پیڈیا تاریخ ِ عالم ، غلام رسول مہر ، الفیصل ناشران لاہور
۶۔ مختصر تاریخِ عالم ، جی ایچ ویلز ، تخلیقات لاہور
٭٭٭
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔