28 اکتوبر 1921
25 صفر المظفر 1340
یوم وصال امام احمد رضا خان
تحقیق و ترتیب عمران اسد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا احمد رضا خان، جو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، حسان الہند جیسے القابات سے بھی جانے جاتے ہیں۔
امام احمد رضا خان 10 شوال 1272ھ بمطابق14 جون 1856ء کو پیدا ہوئے۔امام احمد رضا خان شمالی بھارت کے شہر بریلی کے ایک مشہور عالمِ دین تھے جن کا تعلق فقہ حنفی سے تھا۔ امام احمد رضا خان کی وجہ شہرت میں اہم آپ کی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں لکھے نعتیہ مجموعے اور آپ کے ہزارہا فتاوی کا ضخیم علمی مجموعہ جو 30 جلدوں پر مشتمل فتاوی رضویہ کے نام سے موسوم ہے۔
مولانا احمد رضا خان نے چار برس کی ننھی عمر میں قرآن مجید ناظرہ کیا اور چھ سال کی عمر میں منبر پر مجمع کے سامنے میلاد شریف پڑھا۔ اردو، فارسی اور عربی پڑھنے کے بعد مولانا نے اپنے والد مولانا نقی علی خان سے عربی زبان میں دین کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور تیرہ برس دس مہینے کی عمر میں ایک عالم دین ہوگئے۔ 14 شعبان 1286ھ مطابق 19 نومبر 1869ء میں مولانا کو عالم دین کی سند دی گئی اور اسی دن والد نے مولانا کے علمی کمال اور پختگی کو دیکھ کر فتویٰ نویسی کی خدمت ان کے سپرد کی۔ جسے مولانا نے 25 صفر 1340ھ مطابق 28 اکتوبر 1921ء اپنی وفات کے وقت تک جاری رکھا۔
امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ اپنے وقت کے جید عالم فاضل تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی ذات میں بیک وقت بہت سی خصوصیات کو جمع فرما دیا تھا۔ ایک طرف آپ ایک بہترین فقیہ تھے۔ آپ کی نظر علم تفسیر و تاویل اور احادیث نبوی پر بہت گہری تھی اور آپ کی علمیت اور اصابت رائے کے اپنے ہی نہیں بلکہ بیگانے بھی قائل تھے۔ آپ کی سب سے بڑی امتیازی خصوصیت ’’عشق رسولﷺ‘‘ ہے۔ ساری زندگی آپ نے مدح رسولﷺ میں صرف کی۔
امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص خانہ کعبہ ہے۔ مزار شریف کو بوسہ نہیں دینا چاہئے۔ علماء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے مگر بوسہ دینے سے بچنا بہتر ہے اور اسی میں ادب زیادہ ہے۔ آستانہ بوسی میں حرج نہیں اور آنکھوں سے لگانا بھی جائز کہ اس سے شرع میں ممانعت نہ آئی اور جس چیز کو شرح نے منع نہ فرمایا وہ منع نہیں ہوسکتی۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ’’ان الحکم الا اﷲ‘‘ ہاتھ باندھے الٹے پاؤں آنا ایک طرز ادب ہے اور جس ادب سے شرح نے منع نہ فرمایا اس میں حرج نہیں۔ ہاں اگر اس میں اپنی یا دوسرے کی ایذا کا اندیشہ ہو تو اس سے احتراز (بچا) کیا جائے
(فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 8‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)
امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں روضہ انور کا طواف نہ کرو‘ نہ سجدہ کرو‘ نہ اتنا جھکنا کہ رکوع کے برابر ہو۔ حضور کریمﷺ کی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے۔
(فتاویٰ رضویہ شریف جدید جلد 10ص 769 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
معلوم ہوا کہ مزارات پر سجدہ کرنے والے لوگ جہلا میں سے ہیں اور یہ امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مسلمان اے مسلمان! اے شریعت مصطفوی کے تابع فرمان! جان اور یقین جان کہ سجدہ حضرت عزت عز جلالہ (رب تعالیٰ) کے سوا کسی کے لئے نہیں غیر اﷲ کو سجدہ عبادت تو یقیناًاجماعاً شرک مہین و کفر مبین اور سجدہ تحیت (تعظیمی) حرام و گناہ کبیرہ بالیقین۔ (الزبدۃ الزکیہ لتحریم سجود التحیہ‘ ص 5 مطبوعہ بریلی ہندوستان)
امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’غنیہ میں ہے یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا جائز ہے یا نہیں؟ بلکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اور کس قدر صاحب قبر کی جانب سے۔ جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہوجاتی ہے اور جب تک واپسی آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے روضہ رسولﷺ کے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں۔ وہاں کی حاضری البتہ سنت جلیلہ عظیمہ قریب بواجبات ہے اور قرآن کریم نے اسے مغفرت کا ذریعہ بتایا (ملفوظات شریف ص 240‘ ملخصاً رضوی کتاب گھر دہلی)
نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم از احمد رضا خان بریلوی
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا
تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرہ تیرا
فیض ہے یا شہ تسنیم نرالا تیرا
آپ پیاسوں کے تجسس میں ہے دریا تیرا
اغنیا پلتے ہیں در سے وہ ہے باڑا تیرا
اصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستا تیرا
فرش والے تری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
آسماں خوان، زمیں خوان، زمانہ مہمان
صاحب خانہ لقب کس کا ہے تیرا، تیرا
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا
بحر سائل کا ہوں سائل نہ کنوئیں کا پیاسا
خود بجھا جائے کلیجہ مرا چھینٹا تیرا
چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یاں اس کے خلاف
تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا
آنکھیں ٹھنڈی ہوں جگر تازے ہوں جانیں سیراب
سچے سورج وہ دل آرا ہے اجالا تیرا
دل عبث خوف سے پتا سا اڑا جاتا ہے
پلہ ہلکا سہی بھاری ہے بھروسا تیرا
ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا
مفت پالا تھا کبھی کام کی عادت نہ پڑی
اب عمل پوچھتے ہیں ہائے نکما تیرا
تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
خوار و بیمار و خطا وار و گنہگار ہوں میں
رافع و نافع و شافع لقب آقا تیرا
میری تقدیر بری ہو تو بھلی کر دے کہ ہے
محو و اثبات کے دفتر پہ کڑوڑا تیرا
تو جو چاہے تو ابھی میل مرے دل کے دھلیں
کہ خدا دل نہیں کرتا کبھی میلا تیرا
کس کا منہ تکیے کہاں جائیے کس سے کہیے
تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا
تو نے اسلام تو نے جماعت میں لیا
تو کریم اب کوئی پھرتا ہے عطیّہ تیرا
موت سنتا ہوں ستم تلخ ہے زہرابہِ اب
کون لا دے مجھے تلووں کا غسالہ تیرا
دور کیا جانیے بدکار ہی کیسی گزرے
تیرے ہی در پہ مرے بیکس و تنہا تیرا
تیرے صدقے مجھے اک بوند بہت ہے تیری
جس دن اچھوں کو ملے جام چھلکتا تیرا
حرم و طیبہ و بغداد جدھر کیجے نگاہ
جوت پڑتی ہے تری نور ہے چھنتا تیرا
تری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
عمران اسد
پنڈیگھیب، اٹک
حال مقیم مسقط، سلطنت عمان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔