دال،مرغی اور ڈائریکٹ حوالدار

   روٹین کی کٹوی کے لئے دال ،سبزی اپنی زمینوں سے آجاتی تھی ۔ مہینے میں ایک آدھ دفعہ دکان سے آلو منگوا کر پکائے جاتے ۔اس دن عید کا منظر ہوتا اور ساری پانڈ / محلے کو بتاتے پھرتے ۔اج ساڈ ے گھار آلو پکسُن ،آلو کا چھلکا اتارنے کے لئے چھری کا استعمال ممنوع تھا۔ تراشے ہوئے پتھروں سے بنے ہوئے کمروں کی اگال/ فرنٹ اس کام کے لئے موزوں تھی ۔ بچہ پارٹی آلو اس کھردری دیوار پر رگڑ رگڑ کر ان کے چھلکے اتارتی۔ شغل کا شغل کام کا کام ۔

امی جان فرماتی تھیں کہ سارے وٹامن چھلکے کے بالکل نیچے ہوتے ہیں ۔چھری سے چھلکا زیادہ اترتا ہے جس سے وٹامن ضائع ہو جاتے ہیں ۔ ان آلوؤں کا ذائقہ اب بھی یاد آتا ہے۔

  ملہو والا کے آئین کے مطابق مرغی صرف تین مواقع پر پکانے کی اجازت تھی۔

1-مرغی بیماری / موڑے کی وجہ سے مرنے کے قریب ہو جائے۔

2-بابا جی کو بیماری کی وجہ سے یخنی کی ضرورت ہو ۔

3-کوئی وی آئی پی مہمان آ جائے

مرغی کے پر احتیاط و احترام سے اس طرح اتارے جاتے تھے کہ اس کی کھال سلامت (intact) رہے۔ مرغی پکنے پر اس کھال کا ٹیسٹ (Taste) کمال کا ہوتا تھا۔

دال،مرغی اور ڈائریکٹ حوالدار

 خان خاناں کھانا کھا رہا تھا ۔ایک ویٹر رونے لگا۔ اس سے رونے کی وجہ پوچھی۔وہ کہنے لگا کسی زمانے میں ہمیں بھی آپ کی طرح نوکر کھانا کھلاتے تھے ۔ بس وہ وقت یاد آگیا۔ خان خاناں نے بطور امتحان پوچھا کہ بتاؤ ۔۔مرغی کے کس حصے کا مزہ سب سے اچھا ہے۔اس نے جواب دیا۔مرغی کا پوست / کھال ۔خان خاناں صحیح جواب سن کر بہت خوش ہوا ۔ نوکر کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اور اسے افسر بنا دیا ۔

  ایک  سادہ نوکر نے یہ دیکھ کر سوچا کہ ڈائریکٹ حوالدار بننے کا شارٹ کٹ کل میں بھی آزماؤں گا۔  دوسرے دن اس نے رونا شروع کر دیا ۔۔خان خاناں نے پوچھا۔۔بیٹا کیا تکلیف ہے۔اس نے اپنے والد بزرگوار کی دولت کی فراوانی کی کہانی سنائی، خان خاناں نے پوچھا کہ بتاؤ  بکرے کے کس حصے کا مزہ سب سے اچھا ہے۔اس نے  ریڈی میڈ جواب دیا۔ بکرے کی کھال اس کے بعد تاریخ خاموش ہے۔

…۔سبق نقل کے لئے عقل ضروری ہے.

 مرغی کے پنجوں کو ہلکا سا جلا کر صاف کر لیا جاتا تھا۔مرغی کی سری بلی کو نہیں کھلائی جاتی تھی ۔اس کو بھی صاف کر لیا جاتا۔ پھر کٹوی میں مرغی کی سری ،پائے ،پوٹا ،کلیجی ،لیگ پیس  سب اکٹھے پکائے جاتے ۔

 امی جان سالن ڈالتے وقت اعلان کرتی تھیں "لا  لا  کے  کھاؤ ۔.

اس چار لفظی فرمان کی آسان اردو میں تشریح یہ ہے۔۔دوبارہ بوٹی تو درکنار  شوربہ بھی نہیں ملے گا ۔ سالن کفایت شعاری سے کھائیں ۔دوبارہ مانگ کر شرمندہ نہ ہوں ۔

سلسلہ خوراکاں کاچھتا مضمون

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

منفرد شاعری " کرچی کرچی"

جمعہ نومبر 18 , 2022
عاصم بخاری ، قاری کے نبض شناس اور خوب مزاج آشنا ہیں۔سوچتا ہوں اس ہشت پہلو شعری مجموعہ کا نفسیاتی پہلو سے جائزہ لوں ،
منفرد شاعری ” کرچی کرچی”

مزید دلچسپ تحریریں