ظلم پھر ظلم ہے
تحریر: ایم یوسف بھٹی
ہمارے ہاں کچھ واقعات ایسے بھی پیش آ جاتے ہیں کہ اپنے پاکستانی ہونے پر شرم محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس میں وطن کی مٹی کا کوئی قصور ہے۔ یہ معاملہ بھی نہیں ہے کہ پاکستانی قوم محب وطن نہیں ہے۔ بلکہ المیہ یہ ہے کہ ایسے شرمناک واقعات پیش آنے پر ظالم، مگر طاقتور مجرمان ہر بار سزا سے بچ جاتے ہیں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ نبی رحمت العالمین ﷺ کے پاس ایک چوری کا مقدمہ لایا گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد باری کے مطابق چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا اور جب کچھ معزز صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ سزا میں کمی کی سفارش لے کر آئے تو آپ نبی آخرالزماں ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ، "خدا کی قسم اگر یہ جرم میری بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا بھی کرتیں تو سزا میں کمی کبھی بھی نہ کی جاتی۔” اس واقعہ کا لب لباب اور سند یہ ہے کہ جب مجرمان کو معاف کرنے سے ظلم کے حد سے زیادہ بڑھنے کا امکان ہو تو معافی کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچتی ہے۔ پنجاب کالج میں معصوم بچی کے ساتھ زیادتی کا جو گھناونا واقعہ پیش آیا، اگر پاکستان میں اس نوع کے پیش آنے والے پہلے واقعات مثلا بہاولپور وغیرہ کے واقعات کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جاتی تو یہ واقعہ کبھی پیش نہ آتا۔ لیکن ہمارے ملک کے قوانین میں ایسی پیچیدگیاں ہیں یا ارباب اختیار اتنے کمزور ہیں کہ اس قدر شدید ظالمانہ واقعات کے طاقتور مجرمین بھی سزاؤں سے نہ صرف بچ جاتے ہیں بلکہ سرعام دندناتے بھی پھرتے ہیں۔ چونکہ اس تعلیمی ادارے کے مالکان میاں عامر جیسے لوگ بھی انتہائی طاقتور ہیں، اس لیئے اس واقعہ کی مذمت میں جب کالج کے طلباء نے احتجاج کیا تو نہ صرف طلباء پر پولیس نے دھاوا بول دیا بلکہ احتجاج کے خلاف حکومت اور پولیس نے یہ موقف اختیار کیا کہ اس قسم کا سرے سے کوئی واقعہ ہی پیش نہیں آیا ہے۔
پنجاب لاہور کے علاقہ گلبرگ میں سنہ 1978ء میں اداکارہ شبنم کے ساتھ بھی ڈکیتی اور جنسی زیادتی کا ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق جو خود کو بڑے نمازی پرہیزی ثابت کرتے تھے انہوں نے ان رائیس زادوں کی سزائے موت کو پہلے عمر قید میں بدلہ اور کچھ عرصہ بعد نہ صرف پانچوں مجرموں کو رہائی ملی۔ بلکہ ان میں سے میلسی سے تعلق رکھنے والے سردار خان کھچی جو 150 مربع زمین کے مالک تھے اور جو سزا سے بچ نکلے تھے، وہ دو بار پنجاب اسمبلی کے رکن بنے۔ میں ان دنوں ایف سی کالج لاہور کا طالب علم تھا۔ شبنم کیس کے ان مجرموں میں شامل ایک نام فاروق بندیال کا بھی تھا جن کے ماموں فتح خان بندیال تھے جو ایف کے بندیل کے نام سے مشہور تھے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں خیبرپختونخوا کے چیف سیکرٹری تھے اور بعد میں پنجاب کے چیف سکریٹری بھی رہے۔ جب سنہ 1991ء میں احقر نے امور سرحدی علاقہ جات اسلام آباد میں سرکاری نوکری شروع کی تو اس وقت یہی ایف کے بندیال صاحب اس ڈویژن کے وفاقی سیکرٹری تھے۔
پاکستان میں امیر مجرموں کو نوازنا ایک روایت ہے اور ایک تلخ اور بدترین روایت ہے۔ بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی میں بھی قارئین کو یاد ہو گا ایک واقعہ پیش آیا تھا جس کے مطابق خود پولیس کا دعوی تھا کہ یونیورسٹی ھذا کے ایک اہلکار کے موبائل فون سے لڑکیوں کی کم و بیش 400 فحش ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہوئی تھیں۔ تب پولیس یونیورسٹی کے 3 اہلکاروں کے خلاف آئس رکھنے کے الزام میں تین مقدمات درج کیئے گئے تھے۔ تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں ایک "منظم سازش” اور "انتظامی کاروائی” قرار دیا تھا جس کی وجہ بھی اس سکینڈل میں بڑے گھروں کے بچوں کا ملوث ہونا تھا۔ اسی طرح سنہ 2018ء میں قصور کی آٹھ سالہ زینب کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے اور قتل کرنے کے مجرم عمران کو تو لاہور میں تختہ دار پر لٹکایا گیا مگر کیا وجہ ہے کہ بچوں سے جنسی زیادتی اور کالج یونیورسٹی میں لڑکیوں سے ایسے غیر انسانی واقعات میں کمی آنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ شائد اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جب ایسے واقعات میں امراء ملوث ہوں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے جس میں پنجاب کالج کا حالیہ واقعہ ایک اور تلخ ترین اضافہ ہے۔
اب جبکہ پنجاب میں خاتون وزیراعلٰی مریم نواز شریف صاحبہ ہیں اور جنہوں نے عورتوں کے حقوق اور عزت و وقار کا الم بھی اٹھا رکھا ہے، وہ حوا کی اس بیٹی کے خلاف ہونے والی زیادتی پر کیوں خاموش ہیں، کیا اس لیئے کہ وہ اس تعلیمی درسگاہ کے مالکان سے قربت کا لحاظ رکھنا چاہتی ہیں۔ واضح طور پر اس بچی کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو اس سے قبل پیش آنے والے جنسی واقعات میں ہوا۔ اگر قانون اب بھی حرکت میں نہیں آتا اور اس مقدمے کو بھی اقرباء پروری کی آڑ میں دبا دیا گیا اور جیسا کہ کوشش کی گئی ہے تو پھر تعلیمی اداروں میں شرفاء کی عزت محفوظ نہیں رہے گی۔ میاں عامر آسمان سے اتری مخلوق نہیں ہے کہ اس کے کسی تعلیمی ادارے میں ایسا کوئی مجرمانہ واقعہ پیش آئے تو اس کے خلاف احتجاج کو رکوانے کے لیئے پولیس کو بلا لیا جائے، والدین کو دھمکیاں دی جائیں اور حتی کہ خود پرنسپل اور عملے کی طرف سے بھی اس واقعہ کی پردہ پوشی شروع ہو جائے۔
ایسا کوئی واقعہ تہذیب یافتہ معاشروں میں پیش آئے تو بعض اوقات خود مجرمان پیشمانی سے خود کشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی ایک مثال نوے کی دہائی میں انگلینڈ میں پیش آنے والا دو لڑکیوں ڈولی اور پولی کے ریپ اور قتل کا واقعہ ہے جس کے لیئے برطانوی پارلیمنٹ میں مجرم کو سزائے موت دینے کے لیئے خصوصی بحث چھڑ گئی تھی مگر مجرم نے جیل ہی میں شرمندگی کی وجہ سے خود کشی کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن ایک ہم ہیں کہ اس نوع کے ظالمانہ واقعات کو الٹا دبانے کی کوشش کرتے ہیں، بالخصوص تب جب اس میں امراء کے بچے ملوث ہوں۔ اس نوع کے واقعات میں مجرمانہ غفلت بعض دفعہ اقتدار کے ایوانوں کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ ایسے ہی نہیں کہا جاتا ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو ختم ہو جاتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ناانصافی کے عہد میں بھی انصاف آسمان سے خود بخود نازل ہونا شروع ہو جاتا ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس طرح کے واقعات پر اگر حکومت وقت خاموشی اختیار کرے تو اس کے خلاف عوام میں نفرت اور بغاوت پیدا ہوتی ہے اور بالآخر ایسی حکومت کا خاتمہ نوشتہ دیوار بن جاتا ہے:
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے،
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا۔
اس واقعہ پر سابق نون لیگی ممبر قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکرٹری دفاع چوہدری محمد خورشید زمان کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں انہوں نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے پنجاب کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ حکومت نے اس واقعہ کو سرے ہی سے ختم کر دیا۔ حالانکہ اس واقعہ کے خلاف ہزاروں طلباء احتجاج کے لیئے نکلے تھے۔ چوہدری محمد خورشید زمان "پاکستان اور پاکستانی بچاؤ تحریک” کے بانی ہیں۔ انہوں نے عافیہ صدیقی اور ریمنڈ ڈیوس کی امریکہ کو حوالگی پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ریمنڈ ڈیوس نے ہزاروں لوگوں کے سامنے لاہور میں پاکستانیوں کو قتل کیا مگر حکومت نے اسے بےعزت امریکہ بھیج دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہزاروں طلباء احتجاج کے لیئے نکلے تھے مگر پنجاب حکومت نے اس معاملہ کو طاقت کے زور پر دبا دیا۔
چوہدری خورشید زمان نے اپنے پیغام میں یاد کرایا کہ ہمارے نظام کی اصل شکل یہ ہے کہ شراب شہد میں بدل جاتی ہے، میڈیکل رپورٹس اپنی مرضی سے بنوا کر مقدمے بنتے ہیں اور خارج ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ ایک من پسند تعلیمی ادارے کے کاروبار کو تحفظ دینے کے لیئے کیا گیا۔ ایسے واقعات ہر ملک اور معاشرے میں پیش آتے ہیں مگر وہاں قانون اور ادارے حرکت میں آتے ہیں، مجرموں کو سزا اور مظلوموں کو تحفظ ملتا ہے جس سے عوام میں احساس تحفظ پیدا ہوتا ہے اور وہ سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں مگر ہمارے معاشرے میں گنگا الٹی بہتی ہے۔ ہمارے ہاں اللہ اور رسول ﷺ کے احکامات کے برعکس جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔ ہمارے معاشرے میں ظالم کو بچانا اور مظلوم کو سزا دینا ہمارے معاشرے کا تاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں رہنا پسند کرتا ہے۔ اللہ یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ چوہدری خورشید زمان نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ظلم کرنا اور ظلم سہنا دونوں جرم ہیں۔
Title Image by Gerd Altmann from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔