کرکٹ ورلڈ کپ:پاکستان کی شکست کی وجوہات کا ذمہ دار کون؟
کرکٹ ورلڈ کپ ایک چار سالہ بین الاقوامی میچ ہے جسے دنیا بھر کے لاکھوں شائقین دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ اس کھیل کی تاریخ 48 سال پر محیط ہے، اس ٹورنامنٹ میں پاکستان نے کرکٹ کے کھیل کے عروج و زوال کا مشاہدہ کیا ہے، اور ہندوستان میں جاری 13 واں ورلڈ کپ ٹورنامنٹ بھی پاکستان کے لیے نیگ شگون ثابت نہیں ہوا۔ تاریخی پس منظر کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ آسٹریلیا پانچ ٹائٹلز کے ساتھ غیر متنازعہ چیمپئن بن کر ابھرے گا اس کے بعد ویسٹ انڈیز اور بھارت دو دو کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں اور پاکستان اور سری لنکا نے ایک ایک بار میچ جیت چکے ہیں۔
ورلڈ کپ ٹورنامنٹ شائقین کے لیے ایک دم توڑ دینے والے لمحات سے کم نہیں ہیں، اس میں حریفوں سے مقابلہ اور غیر متوقع نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کرکٹ میچ میں ہر ٹیم اپنی ماضی کی ہار جیت سے قطع نظر اس عظیم الشان کرکٹ ٹورنامنٹ میں جیت اور ہار کا تجربہ کرتی ہے۔ جیسا کہ ہم ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کی تاریخوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کرکٹ کھیل کی غیر متوقع نوعیت میں ہار جیت کا ایک بار بار چلنے والا موضوع سامنے آتا ہے۔
کرکٹ ورلڈ کپ کے موجودہ ٹورنامنٹ میں پاکستان کا کرکٹ کا سفر کسی کھٹارہ گاڑی کی سواری سے کم نہیں رہا۔ ٹیم کو سیمی فائنل تک پہنچنے سے پہلے ٹورنامنٹ سے غیر متوقع طور پر باہر ہونے کا سامنا کرنا پڑا، جس سے شائقین اور کرکٹ کے مبصرین حیران رہ گئے۔ تاہم یہ مایوسی پاکستان کے لیے بہت بڑی بدنامی بھی ہے، جس کا ازالہ بہت ضروری ہے۔
نیوزی لینڈ کے خلاف فیصلہ کن فتح کے بعد پاکستانی ٹیم نے اپنی ورلڈ کپ مہم کو بحال کرتے ہوئے انگلینڈ کو شکست دے کر سیمی فائنل میں جگہ پکی کرلی تھی۔ پچ اگرچہ رکاوٹوں کے بغیر نہیں تھی اور پاکستان کرکٹ ٹیم کو تین اہم میچ جیت کر اعلیٰ رن ریٹ برقرار رکھنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی لیکن بدقسمتی سے 9ویں میچ میں انگلینڈ نے پاکستان کو 93 رنز سے شکست دے کر ورلڈ کپ سے باہر کردیا۔ پاکستانی ٹیم کا یہ ہار ٹورنامنٹ میں بابر الیون کی پانچویں شکست ہے، جس میں افغانستان کے خلاف غیر متوقع شکست بھی شامل ہے۔ نو میچوں میں سے صرف چار جیت اور 0.19% کے رن ریٹ کے ساتھ شائقین اور کرکٹ کے لیجنڈز کی جانب سے پاکستان کی شکست پر سوالات کی بھرمار ہو رہی ہے۔
کرکٹ کے مایہ ناز کھلاڑی بشمول وسیم اکرم اور پی سی بی کے سابق چیئرمین رمیز راجہ جیسی قابل احترام شخصیات نے پاکستانی کرکٹ ٹیم انتظامیہ کے خلاف مایوسی اور تنقید کا اظہار کیا ہے۔ جب کہ مبصرین کی طرف سے یہ آراء بھی گردش کرتی ہیں، کہ کرکٹ انتظامیہ کا ردعمل پاکستان کی اس ہار کے معاملے میں مضحکہ خیز رہا ہے۔
پاکستان میں کرکٹ صرف ایک کھیل ہی نہیں بلکہ یہ پاکستانی قوم کی ثقافت میں جڑا ہوا ایک جذبہ بھی ہے۔ جسے پاکستانی بڑی شوق سے دیکھتے ہیں، حالیہ ورلڈ کپ میں پاکستان کی شکست منصوبہ بندی اور بہترین انتظام کی ضرورت پر زور دیتا ہے گوکہ جیت اور ہار کھیل میں شامل ہے لیکن موثر انتظام اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ عالمی افق پر چمکتی رہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کا از سر نو جائزہ لے، کرکٹ کے کھیل میں موجود کمزوریوں کو دور کرے اور مستقبل کے ٹورنامنٹس میں مسلسل کامیابی کے لیے اپنے راستے کا تعین کرے۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔