تحقیق و تحریر :
سیدزادہ سخاوت بخاری
میں ڈاکٹر ہوں نہ حکیم اور نہ ہی ماہر وبائی امراض ، بلکہ
علم الابدان ، علم الامراض اور علم الادویہ کے کبھی قریب تک نہیں گیا لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ میں طبیبوں اور دواسازوں کی تحقیق سے استفادہ نہیں کرسکتا ۔
اگر جعلی پیر ، فقیر ، باوے ، نیم حکیم ، جوگی ، سادھو ، ملنگ اور ٹھگ ، اس وباء سے چھٹکارے کے لئے دم ، تعویذ ، ٹونے ، ٹوٹکے اور باقائدہ نسخے تجویز کرسکتے ہیں تو کسی پڑھے لکھے انسان کو یہ اختیار تو حاصل ہونا چاہئیے کہ وہ خلق خدا کی بھلائی اور راہنمائی کے لئے درست معلومات اور حقائق پر مبنی تجزیاتی تحریر ہی پیش کرسکے ۔
ہوا کچھ یوں کہ اگلے روز ٹوئٹر پر مائیکروسافٹ کے مشترکہ بانی ، دنیاء کے امیرترین اور باخبر انسانوں میں سے ایک ، جناب بل گیٹس کا کورونا وباء سے متعلق ، مختصر لیکن جامع بیان پڑھنے کو ملا ۔ اب آپ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ یہ شخص تو کمپیوٹر سوفٹ ویئر کا ماہر ہے اس کا میڈیکل سے کیا تعلق ؟
کہ ہم اس کی بات پر کان دھریں ۔
بزرگوں نے کہا تھا
” یہ نہ دیکھو کون کہ رھا ہے
یہ دیکھو کیا کہ رہا ہے "
اچھی ، معلوماتی اور خیر کی بات جو بھی کرے ، اس پہ غور کرنا چاھئیے ۔ بات منطقی ( Logical ) اور مدلل ( Reasonable ) ہو تو سمجھنے اور ماننے میں دقت پیش نہیں آتی ۔
بل گیٹس کبھی دنیاء کے امیر ترین لوگوں میں سرفہرست تھے اب شاید یہ جگہ کسی نئے ارب پتی نے لے لی ہے ۔ مائیکروسافٹ کمپنی سے مستعفی ہونے کے بعد سے , ان کے دو ہی مشغلے ہیں ۔ نئی نئی کتابیں اور مضامین پڑھنا یا پھر اپنے خیراتی ادارے ( Bill Gates & Melinda Foundation ) کے پلیٹ فارم سے فلاحی کاموں میں ہاتھ بٹانا ۔
کورونا وباء کے وارد ہونے کے بعد سے اب تک ، بل گیٹس صاحب اپنے فلاحی ادارے کے توسط سے ایک اعشاریہ پچھتر ارب امریکی ڈالر (1.75bn$) جو تقریبا 208.25 ارب روپے پاکستانی کے برابر ہوتے ہیں ، اس وباء پر تحقیق ( Research ) ، دوا سازی / ویکسین کی تیاری اور غریبوں کے علاج کی مد میں دان ( Charity ) کرچکے ہیں ۔
قارئین کرام
اگر برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں ؟
کیا بل گیٹس مسلمان ہے ؟
یقینا نہیں
بلکہ ہم مسلمانوں کی اصطلاح میں
پکا کافر
چلیں اس بات کو طول نہیں دیتے ۔
یہ بتائیے
اس وباء کے دوران
ایسے کتنے مسلمان ارب پتی ہیں
کہ جنہوں نے اس مرض پر تحقیق ، دواسازی / ویکسین بنانے اور غریبوں کے علاج کی خاطر اتنی بڑی رقم خیرات میں دی ہو ؟
ہمارے امیر لوگ محلات تعمیر کرتے ہیں ۔ فارم ہاوسز بناتے ہیں ۔ ہر جمعرات کو نئی شادی کرلیتے ہیں اور اگر سیاست میں آجائیں تو قومی خزانہ لوٹ لیتے ہیں ۔
شاید ایسے ہی مسلمانوں کے لئے
علامہ اقبال نے اپنی نظم
جواب شکوہ میں کہا تھا ،
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
ہمارے ھاں اسلام اسلام کی گردان تو صبح شام سننے کو ملتی ہے لیکن اسلام کہیں نظر نہیں آتا ۔
سچ کہا کسی نے , کہ ہم ،
اسلام کے نام پر
بے گناہ افراد کا قتل کرسکتے ہیں
گاڑیاں جلا سکتے ہیں ،
سرکاری و نجی املاک تباہ کرسکتے ہیں ۔
کاروبار بند کرکے قومی خزانے کو اربوں اور کھربوں کا نقصان پہنچا سکتے ہیں
لیکن
اسلام کے احکامات پر عمل نہیں کرسکتے ۔
عام و خاص , اکثر مسلمان
نماذ ، روزہ ، حج ، ذکواة ، خمس ، عشر ، تراویح اور داڑھی بڑھانے کو ہی اسلام سمجھتے ہیں
جبکہ یہ تو اللہ کے حقوق ہیں ۔ حقوق العباد کہاں گئے ۔
اسلام کے دو بنیادی اجزاء ہیں
حقوق اللہ اور حقوق العباد
یعنی بندوں کے حق ۔
یاد رکھئیے حقوق العباد ادا کئے بغیر آپ کے تمام اعمال بیکار اور بے سود ہیں ۔ دنیاء مررہی ہے لیکن آپ اپنی اس دولت کو بچانے کے چکر میں ہیں کہ جسے یہیں رہ جانا ہے ۔
اب بتائیے اس کافر اور یہودی و نصرانی کے بارے میں کیا رائے ہے جس نے اتنی بڑی رقم انسانیت کی فلاح کے لئے خیرات کردی ۔
کیا اس کا یہ عمل حقوق العباد کے زمرے میں نہیں آتا ؟
اسی موضوع کا دوسرا پہلو بھی ہے کہ ہم مسلمان عرب حکماء الفارابی ، الھیثم اور دیگر سائینس دانوں کا ذکر تو بڑے فخر سے کرتے ہیں کہ جی یہ سب کچھ تو مسلمانوں نے ایجاد کیا لیکن مقام افسوس ہے کہ آج کورونا کی ویکسین کفار تیار کرکے ہمیں بھیج رہے ہیں اور ہم قطاروں میں کھڑے ہو ہو کر لگوارہے ہیں ۔ اقبال نے اس بات کا ادراک بھی کرلیا تھا
اسی لئے کہا ،
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
اقبال کہتے ہیں
بیشک وہ حکیم ، سائینس دان ، تاریخ دان ، جغرافیہ دان اور ماہرین فلکیات سب کے سب مسلمان ہونے کے ناطے تمہارے ہی بڑے تھے
لیکن یہ تو بتاو تم کیا ہو ،
تم تو کل کی انتظار میں بیٹھے ہو ۔ اقبال تو مسلم راہنماء تھے ۔ ایک غیرمسلم صحافی خاتون کریسٹینا لیمب نے ہم پر باقائدہ ایک کتاب لکھی
جس کا نام ہے
( Waiting for Allah )
یعنی ہم مسلمان اللہ کے انتظار میں بیٹھے ہیں ۔ خود کچھ نہیں کرنا۔
آج کافر ویکسین بنانے والے اور ہم پکے مسلمان ، ویکسین لگوانے والے ۔ یاد رکھئے زندگی عمل کا نام ہے صرف نعرے لگانے سے کام نہیں چلے گا ۔ بہت ہوگیا اب سوچ کا انداز بدلئے ۔
پاکستان کا مطلب کیا
اور
اسے اسلام کا قلعہ کہہ کہہ کر کب تک کام چلاؤ گے ۔ اسلام نے تو پوری دنیاء کو روشنی دی ۔ کبھی اندلس
( مسلم اسپین ) کی تاریخ پڑھ کر دیکھیں ۔ جب یورپ علم وہنر سے بے خبر ، جہالت میں ڈوبا ہوا تھا ،
یہ اندلس کے مسلمان سائینس دان ، ریاضی دان ، جغرافیہ دان ، حکیم اور ماہرین طب ہی تھے جن کی کتابیں پڑھ کر یورپ میں علوم و فنون کی روشنی پھیلی ۔ کتابیں ہماری تھیں فائدہ یورپ نے اٹھایا اور پھر وہاں سے یہ علوم پوری دنیاء میں پھیلے ۔ آج حالت یہ ہے کہ ہم امریکہ اور یورپ کی لیبارٹریز کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ
کب ویکسین آئیگی
کب دواء بنے گی
اور ہم اس وباء سے چھٹکارا حاصل کرینگے ۔
بات کورونا پہ ہورہی تھی نہ جانے میں کہاں سے کہاں نکل گیا ۔ بل گیٹس نے کہا کہ سن 2022 کے آخر تک دنیاء کو کورونا سے نجات مل جائیگی ۔ وہ اس طرح کہ اس سال اور اگلے سال کے آخر تک ، دنیاء کی آبادی کے بہت بڑے حصے کو ویکسین لگ جائیگی لھذا امید کی جاسکتی ہے کہ وباء کا حملہ رک جائیگا ۔ جب کسی ایک کو کورونا نہیں پکڑے گا تو یقینا پھیلاو بھی ختم ہوجائیگا ۔ دوسرا یہ کہ ویکسین کے ساتھ ساتھ ، کافروں کی دواساز کمپنیاں اس بیماری سے نجات اور شفاء حاصل کرنے کے لئے کھانے اور پینے کی دواوں ( Oral Medicines ) پہ بھی کام کررہی ہیں ۔ جب وہ دوائیں تیار ہوجائینگی تو پھر کورونا ایک عام نزلہ ، کھانسی ، زکام اور بخار کی حیثیت اختیار کرجائیگا ۔ جسے بیماری نے پکڑا فورا ڈاکٹر کے پاس گیا ، ٹیکہ لیا ، گولی اور سیرپ استعمال کئے بیماری ختم ۔ آج دنیاء اس لئے مررہی ہے کہ اس بیماری کی باقائدہ کوئی دوائی موجود نہیں ۔ اور دوسرا یہ بھی نوٹ کرلیں کہ یہ وباء ، کسی بہروپئے کی طرح شکلیں بدل بدل کر اور نئی قوت سے ظاہر ہورہی ہے ۔
اللہ معاف کرے ، ڈاکٹروں کے مطابق ہندوستان اس وقت اس نئی اور مہلک ترین لہر کا شکار ہے جو برطانیہ ، ساوتھ افریقہ ، برازیل اور خود ھندوستان کے اندر موجود وباء کی اقسام سے مل کر ظاہر ہوئی ہے ۔ پہلے والی قسم میں کچھ وقت مل جاتا تھا لیکن یہ نئی مخلوط وباء تو فورا گلا دبا کر انسان کو ھلاک کردیتی ہے اور یہی کچھ وہاں ہورہا ہے ۔
اس موقع پر میں یہ اپیل کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جبتک بیماری موجود ہے مکمل حفاظتی تدابیر اختیار کریں ۔ جاہلوں کی باتوں پہ کان نہ دھریں ۔ جن افراد کو ویکسین لگ سکتی ہے وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاکر ٹیکہ لگوالیں اس سے قوت مدافعت بڑھتی ہے لیکن نقصان کوئی بھی نہیں ۔ زندگی اور موت بیشک اللہ کے ھاتھ میں ہے لیکن تدبیر تو ہم خود کرسکتے ہیں ۔
آخر میں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ یہ بل گیٹس کی اور میری رائے ہے اگر آپ اس میں کوئی ترمیم ، تصحیح یا اضافہ کرنا چاھیں تو مجھے خوشی ہوگی ۔
مضمون پسند آئے تو آگے شئیر کرنا مت بھولیئے ۔
سیّدزادہ سخاوت بخاری
سرپرست
اٹک ویب میگزین
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔