پاکستان میں کپاس کی کاشت اور ٹیکسٹائل صنعت
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت کی بنیاد زراعت اور اس سے منسلک صنعتوں پر استوار ہے۔ کپاس کی فصل اس ملک کی زرعی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ نہ صرف یہ لاکھوں کسانوں کا ذریعہ معاش ہے بلکہ ملکی برآمدات میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں کپاس کی کاشت اور پیداوار میں خطرناک حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے، جو ایک باعثِ تشویش امر ہے۔
پاکستان کی زرعی تاریخ میں کپاس کو ایک بنیادی فصل کے طور پر اہمیت حاصل رہی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہی یہ فصل ملکی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک برآمد کی جاتی رہی ہے۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا تھا جہاں سے معیاری کپاس عالمی مارکیٹ میں برآمد کی جاتی تھی، جس سے ملکی خزانے کو اربوں ڈالر کا زرِمبادلہ حاصل ہوتا تھا۔ کپاس سے منسلک ٹیکسٹائل صنعت پاکستانی معیشت کا سب سے بڑا برآمدی شعبہ رہی ہے۔
تاہم موجودہ منظرنامہ بالکل مختلف ہے۔ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کو اپنی صنعتی ضروریات پوری کرنے کے لیے 3 ارب ڈالر سے زائد کی کپاس درآمد کرنا پڑی۔ جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے میں کپاس کی درآمد پر 1.93 ارب ڈالر خرچ کیے گئے تھے۔ اس واضح اضافہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملکی پیداوار کس قدر کم ہو چکی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف زرِمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ ڈال رہی ہے بلکہ قومی خودکفالت کے تصور کو بھی چیلنج کر رہی ہے۔
پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت دنیا بھر میں مشہور ہے اور آج بھی اس کی برآمدات میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ رواں مالی سال میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات 13.60 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں اضافہ ظاہر کرتی ہیں۔ تاہم یہ اضافہ اس وقت غیر مستحکم اور مصنوعی محسوس ہوتا ہے جب ہم اس کے پیچھے درآمدی کپاس کے حجم کو دیکھتے ہیں۔
بدقسمتی سے ملک میں متعدد ٹیکسٹائل یونٹ بند ہو چکے ہیں، اور اس سے وابستہ ہزاروں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ اس کا سبب بجلی، گیس، خام مال کی کمی، اور حکومت کی عدم توجہ ہے۔
کپاس خریف کی فصل ہے اور اس کی کامیاب پیداوار کیلئے موسمی حالات، بیج کی کوالٹی، پانی کی دستیابی اور جدید طریقۂ کاشت نہایت اہم ہیں۔ بدقسمتی سے آج کسان مختلف مسائل جیسے جعلی بیج، کیڑوں کی بھرمار، موسمی تغیر، پانی کی قلت اور حکومتی عدم تعاون کی وجہ سے کپاس کی کاشت سے اجتناب برتنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کم رقبے پر کپاس کی کاشت کر رہے ہیں۔
پاکستان میں وفاقی و صوبائی سطح پر زرعی تحقیق اور ترقی کے لیے متعدد ادارے موجود ہیں، جیسے نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سنٹر (NARC)، مختلف زرعی یونیورسٹیاں اور صوبائی محکمہ زراعت۔ اس کے باوجود اگر زرعی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان اداروں کا استعدادِ کار یا تو ناکافی ہے یا انہیں مطلوبہ پالیسی و مالیاتی معاونت حاصل نہیں۔ اس سلسلے میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔کپاس کی بہتر اقسام، کیڑوں کے خلاف موثر اقدامات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ بیجوں کی تحقیق کو فروغ دیا جائے۔ بیج، کھاد، پانی اور دیگر سہولیات پر سبسڈی دی جائے تاکہ وہ کپاس کی جانب دوبارہ راغب ہوں۔ ایک جامع اور مربوط پالیسی کے ذریعے کپاس کی پیداوار، قیمت، خریداری، اور برآمدی میکانزم کو مربوط بنایا جائے۔ بند یونٹس کو بحال کرنے، برآمدات بڑھانے، اور روزگار فراہم کرنے کے لیے اس سیکٹر کو توانائی اور خام مال پر سہولت دی جائے۔
پاکستان کو ایک بار پھر اپنی زرعی پہچان کی طرف لوٹنا ہوگا۔ کپاس نہ صرف ایک فصل ہے بلکہ معیشت کا ستون، صنعت کی بنیاد اور لاکھوں خاندانوں کی زندگی ہے۔ اگر اس جانب سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو ملک نہ صرف اقتصادی بحران میں مزید گِھر جائے گا بلکہ عالمی مارکیٹ میں اپنی ساکھ بھی کھو دے گا۔ حکومتِ پاکستان اور متعلقہ اداروں کو اس نازک صورتحال کو لمحہ فکریہ سمجھتے ہوئے فوری اور ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔
Title Image by Hasan Oguz Altuntaş from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |