سید مبارک علی شمسی سے گفتگو

سید مبارک علی شمسی ، بہاولپور

انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات ، بھاول پور

انٹرویو کنندہ : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان

سید مبارک علی شمسی صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ آپ کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولپور کی تحصیل حاصل پور کے قصبہ قائم پور سے ہے ۔
آپ نے 16 نومبر 1986ء کو سید قمر عباس اسد کے گھر آنکھ کھولی ، جنہیں پورے برصغیر میں لوگ ایک جید عالم دین اور روحانی شخصیت کے طور پر جانتے تھے ۔
سید مبارک علی شمسی صاحب کی تعلیم
آپ نے ابتدائی تعلیم وہیں مقامی اسکول سے حاصل کی اور پھر ثانوی تعلیم کے بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم اے اردو اور ایم اے جرنلزم کی ڈگری حاصل کی ۔ جب کہ خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران ملتان سے فارسی زبان و ادب اور یونیورسٹی فارطب آسٹریلیا سے”حکمت جنرل نالج” اور NlMS فیصل آباد سے ” طب اسلامی”کا ڈپلومہ حاصل کیا ۔

سید مبارک علی شمسی سے گفتگو


آپ بیک وقت شاعر ، ادیب ، محقق ، نقاد ، سینئر صحافی و سینئر کالم نگار اور روحانی سکالر ہیں ۔ اینکر پرسن اور ادبی تنظیم "بزمِ شمسی” پاکستان (رجسٹرڈ) کے مرکزی چیئرمین بھی ہیں ۔ اس پلیٹ فارم سے ادب کی خدمت کررہے ہیں ، آپ طالب علمی سے ہی دنیائے ادب میں سخن آراء ہیں ۔ اور آپ کو اردو ، فارسی ، سرائیکی ، پنجابی اور انگریزی میں سخنوری کا ملکہ حاصل ہے ۔
چند روز قبل ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے جو گفتگو ہوئی ہے وہ نذر قارئین ہے
سوال : آپ ایک کثیر الجہت شخصیت ہیں۔ چند ایک حوالوں پر روشنی ڈالئیے گا ۔؟
جواب : میں نے اردو ادب کی تقریباً ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے جس میں میں کس حد تک کامیاب رہا ہوں یہ فیصلہ تو قارئین ہی کر سکتے ہیں ، کیونکہ میں اپنے آپ کو ابھی طفلِ مکتب ہی سمجھتا ہوں – مختلف موضوعات پر میری اب تک چودہ کتب منظر عام پر آ چکی ہیں ۔
سوال : شاہ صاحب آپ اپنی کتابوں کے نام بتائیے ۔ ؟
جواب : جی ہاں
” میں دسمبر اور یہ چاند” (شعری مجموعہ)، ” سپنوں کا خون” (افسانے)،
” خواب ادھورے ہیں” (انتخاب)،
"گلدستہء شمسی” (شجرہ نسب)،
” صراطِ مودت” (نعتیہ مجموعہ کلام)، "
مسافر شب” جلد اول (اسلامی کالم)،
” مسافر شب” جلد دوم (معاشرتی و بین الاقوامی کالم)،
” اوس گرتی رہی” (نظمیں)،
” چلو یونہی سہی "(مجموعہ غزل)،
” وظائف دعاء ناد علی علیہ السلام” (وظائف)، ” تفہیم فکر و فن” (ادبی مضامین)،
” سیرت خیبر شکن” (سیرت مولا علی علیہ السلام )،
” زبان یار من فارسی” (فارسی بول چال)،
” مدینہ اداس ہے ” (سلام و منقبت) اور سوانح حیات” حضرتِ شاہ شمس الدین سبزواری تبریزی ملتانی رحمۃاللہ علیہ ” –
سوال : شمسی آپ کے نام کا حصہ ہے ۔ اس کا تعلق ایک سلسلے سے ہے ۔ اس کی وضاحت قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے۔۔۔۔؟
جواب : میرا اصل نام سید مبارک علی ثانی ہے اور ادبی دنیا میں لوگ مجھے سید مبارک علی شمسی کے نام سے جانتے ہیں ، میں چھٹے امام جعفر صادق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں یعنی جعفری سید ہوں ، جبکہ ولی کامل اعلیٰ حضرت سید شاہ شمس الدین سبزواری تبریزی ملتانی کی نسبت سے ہم شمسی سبزواری کہلاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں اپنے نام کے ساتھ شمسی لکھوانے کے ساتھ ساتھ اسے تخلص کے طور پر بھی استعمال کرتا ہوں –
سوال : شعر گوئی کی طرف توجہ کب مبذول ہوئی ۔؟
جواب : اسکول دور سے ہی شعر گوئی کا ذوق اور شوق پیدا ہو گیا تھا ، اسکول کی ہفتہ وار بزمِ ادب کی تقریب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا اور شعر کہتا تھا ، یوں شعر و شاعری کی طرف رجحان مزید بڑھتا چلا گیا –
سوال : آپ کے خاندان میں پہلے کون کون ادب سے وابستہ ہیں ۔ ؟
جواب : ہمارے خاندان میں ہمارے جد امجد حضرت شاہ شمس الدین سبزواری تبریزی ملتانی رحمۃاللہ علیہ بلند پایہ اور صاحب دیوان شاعر تھے ۔ ان کے بعد ہمارے اکثر بزرگوں کی علم و ادب اور روحانیت سے وابستگی رہی ہے –
سوال : آپ اپنی ادبی خدمات سے قارئین کو آگاہ کرنا پسند کریں گے ۔؟
جواب : ادبی تنظیم "بزمِ شمسی پاکستان” (رجسٹرڈ) اور اپنی میڈیا کے حوالے سے بنی تنظیموں کے ذریعے ادب کی خدمت میں کوشاں ہوں –
سوال : آپ کا شعر قاری کو کیا پیغام دیتا ہے ۔ ؟
جواب : میرے اشعار زیادہ تر اسلامی نقطہ نظر کے حوالے سے ہوتے ہیں جن میں قارئین کیلئے اسلامی طرز پر زندگی کی تعمیر اور نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے اقوال پر عمل کرنے کا واضح پیغام موجود ہوتا ہے تاکہ قارئین میری شاعری سے استفادہ کر سکیں –
سوال : افسانہ اور کہانی میں کیا فرق پایا جاتا ہے ۔؟
جواب : افسانہ جدید نثری ادب کی ایک اہم صنف ہے ، جسے انگلش میں "شارٹ سٹوری” کہتے ہیں ۔ اردو میں یہ صنف افسانہ ، افسانچہ اور کہانی جیسے ناموں سے مشہور ہے – اس کی اہم خصوصیت اس کا اختصار ہے ، کیونکہ یہ حکایت اور ناول کے مقابلے میں بہت ہی مختصر ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس کے مختصر ہونے کی کوئی حد مقرر نہیں ۔ ناول کے مقابلے افسانے میں بالعموم کسی ایک واقعہ کا تذکرہ ہوتا ہے اور کردار بھی کم ہوتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کے کردار ایک ہی مقصد کے تابع ہوتے ہیں ۔اس لئے اس کا پلاٹ مربوط اور جامع ہوتا ہے ۔ افسانے میں سماجی مسائل اور انسان کی ذہنی اور جذباتی الجھنوں کی ترجمانی ہوتی ہے ۔ فنی اعتبار سے افسانے کے اجزائے ترکیبی میں پلاٹ ، کردار ، زمان و مکان ، وحدت تاثر ، موضوع اور اسلوب کو خاصی اہمیت حاصل ہیں ۔ ناول زندگی کا کُل جبکہ افسانہ زندگی کا ایک جزو پیش کرتا ہے ۔ تاہم ناول اور افسانے میں طوالت کے فرق کے ساتھ ساتھ وحدت تاثر کا فرق بھی پایا جاتا ہے ۔
سوال : کہا جاتا ہے کہ صحافت اور شاعری ایک دوسرے سے جدا نہیں آپ کیا کہیں گے ۔؟
جواب : دراصل صحافت اور شاعری دو الگ الگ موضوع ہیں مگر ان دونوں میں جو چیز مشترک ہے وہ راوی کا اظہارِ بیاں ہے ، کیونکہ شاعری میں غم دوراں اور غم جاناں کے تذکرے ہوتے ہیں جبکہ صحافت میں علاقائی مسائل ، سیاسی جوڑ توڑ اور حالاتِ حاضرہ پر مختلف علاقوں کے نمائندگان کے اظہاریے شامل ہوتے ہیں –
سوال : آپ کا زیادہ تر رجحان نظم کی طرف ہے یا نثر کی طرف ۔؟
جواب : میں بنیادی طور پر تو نثر نگار ہوں مگر میرا زیادہ رجحان شاعری کی جانب ہے اور میں نظم کہنے کے ساتھ ساتھ غزل کی مشق بھی کر رہا ہوں –
سوال : ادب میں آپ کونسی شخصیت سے متاثر ہیں ۔؟
جواب : ویسے تو میں اچھا ادب تخلیق کرنے والے ہر ادیب سے متاثر ہوں مگر رثائی شاعری کرنے والے قلم کار مجھے بہت زیادہ پسند ہیں ، کیونکہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے آج بھی باطل کے خلاف جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں میر انیس ، دبیر ، غالب ، جوش ، اقبال اور محسن نقوی سمیت جدید دور کے دانش ور بھی شامل ہیں ، یہی وجہ ہے کہ میں ان سے متاثر ہوں –
سوال : نعت میں نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کم اور عقیدت کا اظہار زیادہ پایا جاتا ہے اس کی کیا وجہ ۔؟
جواب : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں ان پہ نبوت کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو گیا ہے ، ہمارے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فخر انبیاء ہیں ، وجہ تخلیق کائنات ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کے محبوب ہیں جس پر ہمیں ناز ہے – یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا ہر امتی آپ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور جہاں بھی آپ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا نام پڑھتا ، دیکھتا ، لکھتا یا سنتا ہے تو اپنے سر کو عقیدت سے جھکا لیتا ہے – یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں عقیدت کا اظہار زیادہ پایا جاتا ہے –
سوال : ادب میں درپیش مشکلات کے بارے قارئین کو آگاہ کریں ۔؟
جواب : جہاں اس بدترین مہنگائی نے اس دور کے دیگر شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا ہے وہاں ادب بھی اس سے متاثر ہوا ہے ، کاغذ مہنگا ہونے کی وجہ سے کتابوں کی اشاعت محدود ہو کر رہ گئی ہے ، رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر کے رکھ دی ہے ، جس سے کتب بینی و کتب دوستی کا رجحان ختم ہو کر رہ گیا ہے –
سوال : بزمِ شمسی کے آپ چیئرمین ہیں اس بزم کے منشور کیا ہے ۔؟
جواب : سیرت حضرت شاہ شمس الدین سبزواری تبریزی ملتانی پر تحقیقی کام کرنا –
علمی و ادبی محافل کا انعقاد کرنا –
بلا تفریق رنگ و نسل مذہب و مسلک سیاست و لسانیت ادب کے فروغ کیلئے اقدامات کرنا –
کتب بینی کے فروغ کیلئے کتب تقسم کرنا –
مرکز سے دور مضافاتی علاقوں میں لائبریریوں کا قیام عمل میں لانا –
اولیاء اللّٰہ اور بزرگانِ دین کی درگاہوں پر فرسودہ روایات اور توہم پرستی کے خاتمہ کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا –
پاکستان کے قومی اداروں میں اچھی کارکردگی دکھانے والے آفیسران کو تعریفی اسناد سے نواز کر ان کی حوصلہ افزائی کرنا –
ادبی شخصیات کو ادبی خدمات کے اعتراف میں شاہ شمس ایوارڈ سے نوازنا –
سوال : بہاولپور میں ادب میں نمایاں نام کون کون سے ہیں ۔؟
جواب : ڈاکٹر سید قاسم جلال صاحب ، ڈاکٹر سید شاہد حسن رضوی صاحب ، سید تابش الوری صاحب ، صفدر علی حیدری صاحب ، پروفیسر مسرت کلانچوی صاحبہ ، نوشی گیلانی صاحبہ ، ڈاکٹر عصمت درانی صاحبہ ، امین ساجد سعیدی صاحب ، احتشام حسن صاحب اور کریم حیدر شناس صاحب –
سوال : آخر میں اپنے بیٹے کی جدائی میں کہی گئی نظم سنانا چاہیے گے ۔؟
جواب : جی ہاں ضرور

کاش میرے زریاب تو اک دن لوٹ آئے
بن تیرے زریاب مرا دل گھبرائے

دیکھتا ہوں تصویر تمہاری جب جب میں
اشکوں سے یہ آنکھ مری بھر بھر جائے

باپ تیرا اب ہر دم روتا رہتا ہے
اس کے دل کو چین کہاں اب مل پائے

تیری جدائی خون کے اشک رلاتی ہے
تیری جدائی جان میری نہ لے جائے

بن تیرے شمسی کا جینا مشکل ہے
کاش میرے زریاب تو اک دن لوٹ آئے

maqbool

مقبول ذکی مقبول

بھکر، پنجاب، پاکستان

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

بہرائچ ایک تاریخی شہر (دوم) ایک تعارف

بدھ جنوری 11 , 2023
بہرائچ شروع سے ہی علمی ،روحانی اورادبی مرکز ہونے کے ساتھ شعر و ادب کا گہوارہ رہا ہے؛
بہرائچ ایک تاریخی شہر (دوم) ایک تعارف

مزید دلچسپ تحریریں