قنبر نقوی صاحب، لیہ
انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات،لیہ
انٹرویو کنندہ: مقبول ذکی مقبول، بھکر
سوال : آپ سادات خاندان (نقوی) سے ہیں ۔ مختصر تعارف کرائیں ۔؟
جواب : جی ہاں نقویہ سلسلہ اولاد حضرت امام علی نقی علیہ السلام سے معروف ہے ۔ ہمارے مورث اعلیٰ سید محمد شجاع طوسی رحمت اللّٰہ دسویں پشت سے حضرت امام علی نقی علیہ السلام سے ملتے ہیں۔ آپ کم بیش 644 ھجری میں سندھ کے شہر سکھر کے قریب قصبہ بکھر میں آ کر مسکن پزیر ہوئے ۔ اس طرح آپ بھاکری النقوی کہلائے بعد میں آپ کی اولاد اچ شریف میں آ کر آباد ہوتی گئی ۔ اس سلسلے میں بہت سے اولیائے اللّٰہ پیدا ہوئے جن میں سید ہارون سرمست، سرکار صدر دین خطیب سرکار بدرالدین، سید سردار رحمت اللہ المعروف شاہ اویس، سید سرکار شیر شاہ نقوی، سید اللہ بندہ شاہ، سید احمد کبیر اول بھاکری النقوی، سرکار علی راجن سدابھاگ ، جنکا مزار تحصیل کروڑ ضلع لیہ
سوال : آپ کا شہر لیہ ہے؟ اس کی وجہء تسمیمہ کیاہے؟
جواب : تاریخ لیہ لکھنے والوں نے اس کی وجہ تسمیہ دو طرح کی لکھی ہیں ۔ پہلی یہ کہ یہ شہر دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد ہوا چونکہ دریا کے کنارے لایاں بہت ہوتی ہیں ۔ لوگوں نے لائیاں کاٹ کر مکان بنائے ۔ اس طرح لیہ مشہور ہوا ۔
دوسری روایت یہ بھی ہے کہ سولویں صدی میں سردار کمال خان کے دو بیٹے تھے ایک کا نام لیئو خان تھا ۔ دوسرے کا نام میئو خان تھا ۔ لیئو خان نے لیہ شہر کے بنیاد رکھی اور میئو خان نے میانوالی شہر کی بنیاد رکھی اور وہاں آباد ہوا ۔ اس طرح لیئو خان سے لیہ مشہور ہوا ۔
سوال : لیہ کی ادبی فضا کیسی ہے؟
جواب : کسی زمانہ میں لیہ ادب کا لکھنؤ مانا جاتا تھا ۔ لیہ میں بہت بڑے نامور ادیب شاعر پیدا کیئے بہرحال اب بھی لیہ اپنے اس مقام پر قائم ہے ۔ کچھ عرصے سے ادبی دھڑے بندیاں قائم ہو چکی ہیں ۔ اس روایت کے اثرات مستبقل میں اچھے نہیں ہوں گے ۔
سوال : آپ ادب کی طرف کیسے راغب ہوئے؟
جواب : میں بچپن ہی سے شعر و ادب کا دیوانہ تھا اور اب بھی ہوں۔ یہ رغبت فطری ہے ۔
سوال : اس مشکل ترین دور میں آپ ادبی شوق کاچراغ کیسے جلائے ہوئے ہیں ؟
جواب : اس مشکل ترین دور میں ادب کا چراغ جلانا یقنا مشکل ہو گیا ہے ۔ ادب سے وابستگی عشق کی حدتک ہو تو حالات جیسے بھی ہوں چراغ ادب جلایا جا سکتا ہے ۔
سوال : کیا یہ علم وادب دوستی آپ کو وراثت میں ملی ہے؟
جواب : ہاں اس میں شک نہیں ہمارے خاندان میں علم ادب سے دوستی رہی ہے ۔ اس طرح اس کو وراثتی رغبت کہا جا سکتا ہے ۔
سوال : آپ کے نام میں قنبر ہے۔ قنبر کا کیا مطلب ہے؟
جواب : میرے قلمی نام قنبر جو ہے قنبر مولا علی علیہ السلام کے غلام قنبر سے مشتق ہے ۔
سوال : آپ کی مصروفیت ۔؟
جواب : دینی کتب ، ادبی لٹریچر کا مطالعہ ، اشعار کہنا اشعار پڑھنا میری مصروفیات ہیں ۔
سوال : آپ کی کتابوں کے نام کیا ہیں۔؟
جواب : میری پہلی کتاب جو غزل اور نظم پر مشتمل ہے ۔ اس کا نام اجاں کجھ دیر باقی ہے ۔
دوسری کتاب حمد و نعت اور منقبت پہ ہے ۔ معراج عقیدت
تیسری کتاب حمد ، منقبت اور مرثیہ اس کا نام ہے دشت میں بکھرا ہے لہو
ویسے تو نعت منقبت پہلے سے لکھ رہا تھا مرثیہ کی ابتدا ۔
جب میں 1993ء میں کربلا پہنچا تو کی میرا پہلا مجموعہ 2010ء کے سیلابی ریلے میں بہت سی قیمتی کتابوں کے ساتھ ضائع ہو چکا مجھے بہت دکھ ہوا ۔
سوال : آپ چار دہائیاں سے اشعار کہے رہے ہیں۔ یہ ادبی زندگی کیسی لگی۔؟
جواب : میں چار دہائیاں سے شعر کہہ رہا ہوں ۔ یہ زندگی اچھی لگی
سوال : آپ کے نزدیک کون سی صنفِ سخن نازک ہے۔؟
جواب : حمد و نعت کے بعد غزل وہ صنفِ سخن ہے جو نازک ہے ۔
سوال : آپ نے ادب میں کون سا منفرد کام کیا ۔؟
جواب : میرے نزدیک منفرد کام جو کیا ہو مجھے نظر نہیں آتا ۔ سوائے اس کے شوگر ملز لیہ کے شمالی گیٹ پر 14سال مسلسل آل پاکستان مشاعرے کرائے ۔ نادر سرائیکی سنگت کے بعد لجپال سنگت لیہ میں بانی کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں ۔ میری تین کتابیں شائع ہوئیں ہیں ۔ یہ تمام کام میری ادنی ادبی خدمات ہیں کوئی منفرد کام نہ نہیں۔
سوال : مشاعرہ کی تاریخ دم توڑتی نظر آرہی ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں۔؟
جواب : جب سے ملک میں دشت گردی نے جڑ پکڑی تب سے لوگوں نے عوامی اجتماع کرانا یا اس میں شرکت کرنے سے اجتناب کرنا شروع کیا ۔ پھر بعد میں جدید ٹیکنالوجی نے نوجوان نسل کو مصروف کیا لیکن لوگ اب بھی مشاعروں کے مشتاق ہیں ۔ مخیر حضرات ادبی تنظمیں مشاعروں کا انعقاد کرائیں تو عوام میں شوق مشاعرہ ابھی باقی ہے۔
سوال : شاہ صاحب درویش منش اور سادگی پسند ہیں۔ کیا یہ آپ کو وراثت میں ملی یا شعوری کوشش ہے۔؟
جواب : درویشی تو بہت دور کی بات ہے البتہ سادگی وراثت میں ملی ہے ۔
سوال : آپ کا ذوقِ مطالعہ۔؟
جواب : ہاں میرا ذوقِ مطالعہ بہت زیادہ ہے جس میں سیرت ، تاریخ اور ادب کی کتابوں کا مطالعہ میرا پسندیدہ شوق ہے ۔
سوال : آپ کی کسی ادبی تنظیم سے وابستگی۔؟
جواب : فی الحال تو کسی ادبی تنظیم سے وابستہ نہیں ہوں ۔
سوال : آپ کے اعزازات ۔؟
جواب :ہاں میرے ادبی خدمات کے اعتراف میں ۔
1 ایوارڈ، منجانب فدایان ادب ملتان، 11 اکتوبر 2019ء
2 ایوارڈ ، منجانب فیوچئر کئیر اکیڈمی ، لیہ، یکم دسمبر 2019ء
3 ایوارڈ برائے بہترین تصنیف ۔ منجانب انٹرنیشنل رائٹرز فورم پاکستان راولپنڈی ۔ 26جولائی 2021ء
4 گولڈ میڈل ،سند ، کیش اور دیگر تحائف۔ منجانب تنظیم کارخیر گوجرانولہ 21 نومبر 2021ء
5 حسن کارکردگی ایوارڈ، منجانب ماہنامہ اوج ڈائجسٹ، ملتان 16 جنوری 2022ء
سوال : آخر میں آپ کوئی پیغام دینا چاہیں گے ۔؟
جواب : جی ہاں تمام پڑھنے والوں سے عرض کروں گا کہ آپ ادب کا ساتھ دیں ۔ جس طرح علم انسان کا محافظ ہے ۔ اس طرح ادب علم کا محافظ و معاون ہے علم ادب کی زندگی پرا من زندگی ہے پرامن زندگی میں انسان ملک و قوم کے لئے بہتر سوچ سکتا ہے
مقبول ذکی مقبول
بھکر، پنجاب، پاکستان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔