انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات ڈیرہ غازی خان
بشیر جاوید (ریٹائرڈ ٹیچر) ڈیرہ غازی خان
انٹرویو کنندہ :۔ مقبول ذکی مقبول ، بھکر
بشیر احمد جو کہ دنیائے ادب میں بشیر جاوید کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں ۔ 5 مارچ 1969ء کو دامان کی دھرتی "قصبہ کالا "ضلع ڈیرہ غازی خان میں غلام حسن بھٹی کے گھر آنکھ کھولی ۔ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں میں حاصل کی میٹرک کے بعد ڈگری کالج ڈیرہ غازی خان میں بی اے کیا ۔ طالب علمی کے زمانے میں اشعار کہنے شروع کر دیئے تھے ۔ 1987ء میں پی ٹی سی کورس کر کے تعلیم و تدریس سے منسلک ہو گئے ۔ 26 سال سروس کی اور ریٹائرمنٹ لے لی ۔ غلام حسن بھٹی کی اولاد میں کل نو بچے ہیں ۔ چار بیٹے پانچ بیٹیاں بشیر جاوید کا چھیواں نمبر ہے ۔ بشیر جاوید من کا سچا انسان ہے ۔ دوستوں سے پیار محبت کرنے والا ہے ۔ درمیانہ قد ہلکا سانولہ رنگ تھوڑا بھاری جسم کشادہ چہرہ پیاری سی موٹی موٹی آنکھیں اور چھوٹی چھوٹی داڑھی جو کہ خوبصورتی میں اضافے کا باعث بنتی ہے ۔ ارشاد ڈیروی سے ان کو خاص انس ہے اور خود بھی کہتے ہیں میرے لیئے اعزاز کی بات ہے کہ ارشاد ڈیروی میرا دوست ہے ۔ دونوں ایسے لگتے ہیں جیسے جڑواں بھائی ہوں ۔ بشیر جاوید کے کل بچے سات ہیں ۔ چار بیٹے تین بیٹیاں پہلا بچہ سات سال کی عمر میں اللّٰہ کو پیارا ہو گیا تھا ۔ بشیر جاوید کی شاعری خوبصورت پیغام کی حامل ہے ۔ جس میں ہر طرح کے پاک و پاکیزہ جذبات پائے جاتے ہیں ۔ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور عمل کرنے پر فائدہ مند ثابت ہوتی ہے ۔ ایسے ہی شاعر معاشرے کا آئینہ ہوا کرتے ہیں ۔
گزشتہ دنوں بشیر جاوید سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ جو علمی و ادبی گفتگو ہوئی وہ نذر ِ قارئین ہے ۔
سوال : تاریخ کائنات میں سب سے پہلے اشعار کس نے کہے تھے ۔ ؟
جواب : حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے ۔ ایک نام ہابیل اور دوسرے کا نام قابیل تھا ۔ ہابیل اللّٰہ پاک کی عبادت کیا کرتا تھا ۔ نیک ہونے کی وجہ سے قابیل حسد کیا کرتا تھا ۔ اس حسد کی وجہ سے ایک دن قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا ۔ ہابیل کے غم میں بابا آدم علیہ السلام نے ایک مرثیہ لکھا اور ہابیل کو یاد کر کے وہ مرثیہ پڑھتا تھا اور گریہ و ماتم بھی کرتا تھا ۔ مرثیہ ، نوحہ ، سوز و سلام اور سلام ان سب میں اشعار ہی ہوا کرتے ہیں ۔
سوال : آپ کا ادبی سرمایہ ۔ ؟
جواب : میرا ادبی سرمایہ تین شعری مجموعے ہیں ۔ میرا پہلا سرائیکی شعری مجموعہ” کوثر کنارے "ہے ۔ یہ 2010ء کو شائع ہوا تھا ۔ دوسرا سرائیکی شعری مجموعہ "سخن سہارے” ۔ یہ 2014ء کو شائع ہوا تھا ۔ تیسرا اور آخری” وندلاوے” ہے یہ 2021ء کو شائع ہوا تھا ۔
3 کتابوں کا میٹر موجود ہے اللّٰہ پاک کرم کرے گا وہ بھی شائع ہو جائیں گے ۔
سوال : آپ نے اردو زبان کو اپنی شاعری کے اظہار کا ذریعہ کیوں نہیں بنایا ۔؟
جواب : دنیا میں 300 زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ اللّٰہ پاک کی نشانیوں میں سے ایک نشانی لوگوں کا مختلف زبانیں بولنا بھی ہے ۔ پہلے نمبر پر انگریزی زبان دوسرے نمبر پر چینی زبان اور تیسرے نمبر پر اردو بولی جاتی ہے ۔ میرا کسی زبان سے کوئی اختلافات نہیں ۔ میں سرائیکی زبان میں اشعار کہتے ہوئے بہت تسکین محسوس کرتا ہوں اور کسی زبان میں اشعار کہنے کی کوشش بھی نہیں کی آپ کو یہ بھی بتادوں کہ دنیا میں جتنی بھی زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ سب پیاری ہیں ہاں اللّٰہ پاک کی پسندیدہ زبان عربی ہے ۔ انگریزی زبان سب سے چھوٹی ہے مگر ہے انٹرنیشنل انگریزی کے چھوٹے ہونے کی دلیل یہ ہے کہ چاچو ، ماموں ، خالو ، سب کو انکل کہتے ہیں ۔ اسی طرح آنٹی اور کزن بھی کہتے ہیں ۔ پشتو اور سرائیکی یہ دونوں بڑی زبانیں ہیں ۔ سرائیکی چاچا ، چاچی ، ماما ، ممانی ، ماسڑ ، ماسی ، پتریر ، مسات ، ملویر ، سب رشتے الگ الگ بولے جاتے ہیں ۔
سوال : بھٹی صاحب یہ بتائیں کہ سرائیکی زبان کون کون سے علاقوں میں بولی جاتی ہے ؟
جواب : رحیم یار خان سے لے کر میانوالی تک جس کو کچھ لوگ سرائیکستان بھی بھی کہتے ہیں ۔ بولی جاتی ہے ۔ سندھ ، روہی ، چولستان ، بلوچستان ، کے پی کے اور بھی پاکستان کے کچھ کچھ علاقوں میں بولی جاتی ہے ۔ ہاں یاد آیا ۔ بھارت کے بھی کچھ علاقوں میں بولی جاتی ہے ۔ تقسیم پاکستان جو لوگ یہاں سے گے تھے ۔ ان میں کافی تعداد میں سرائیکی زبان بولنے والوں کی تھی ۔ وہ اب بھی وہاں سرائیکی بولتے ہیں ۔
سوال : آپ کے اعزازات ۔ ؟
جواب :
1 بھیل ادبی ایوارڈ ، منجانب ، بھیل ادبی سنگت انٹرنیشنل ، ننکانہ صاحب 2 اگست 2020ء
2 ایوارڈ برائے بہترین تصنیف "وندلاوے” ۔ منجانب انٹرنیشنل رائٹر فورم پاکستان راولپنڈی 26 جولائی 2021ء
3 بھیل ادبی ایوارڈ سند امتیاز اور کتب کے تحفے ۔ منجانب بھیل ادبی سنگت انٹرنیشنل ننکانہ صاحب 28 مارچ 2021ء
4 گولڈ میڈل ، ایوارڈ ، کیش اور دیگر تحائف ۔ منجانب تنظیم کار خیر ، گوجرانولہ 21 نومبر 2021ء
5 ایوارڈ خدمات ادب اور سند ۔ منجانب کھرل ادبی سنگت پچیکی ۔17 مارچ 2022ء
6 سردار ایوارڈ اور سند ۔ منجانب بزمِ ذوقِ ادب جامکے چیمہ ۔ سیالکوٹ 13 مارچ 2022ء
7 الوکیل کتاب ایوارڈ ۔ منجانب عاشق میموریل ٹرسٹ ۔ حاصل پور ، بہاولپور 15 مئی 2022ء
سوال : آج کےکربلائی ادب کے بارے آپ کیا کہیں گے ۔ ؟
جواب : آج کربلائی ادب کل کے مقابلے میں زیادہ چھپ رہا ہے اور چھپ رہا ہے۔یعنی کتابیں زیادہ چھپ رہی ہیں مگر پڑھی نہیں جارہیں ۔بلکہ اس موقعہ پر پروفیسر عاصم بخاری کا شعر زیادہ فائق آۓ گا ۔
الماریوں میں ہی سجی رہتی ہیں یہ فقط
پڑھتا نہیں کتاب کوئی المیہ یہ ہے۔
مطلب کربلا کو پڑھا بھی جاۓ۔اور سمجھا بھی جائے
سوال : محسن نقوی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ۔ ؟
جواب : محسن نقوی ایک عہد کا نام ہے ۔ محسن نقوی کی ادبی خدمات لازوال ہیں ۔ محسن نقوی کے میرے خیال میں گیارہ مجموعے ہیں ۔ سات مجموعے غزل و نظم کے ہیں اور چار مجموعے اسلامی و کربلائی شاعری کے ہیں ۔ ہاں یاد آیا ایک نثر پر مشتمل کتاب بھی ہے ۔ محسن نقوی کو بہت شہرت ملی ہے ۔ انٹرنیشنل شہرت یافتہ لیکن جس کا وہ حق رکھتے تھے ۔ وہ نہیں ملا خاص طور پر تحقیقی کام میں کام ہوا تو ہے ۔ مگر اتنا نہیں جتنا ان کا حق بنتا تھا ۔ بہرکیف اللّٰہ پاک محسن نقوی کے درجات بلند فرمائے آمین
محسن نقوی کا ایک شعر بھی سن لیں
سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے
چلیں گے ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے
ذکی صاحب ! مجھے یاد آ گیا ۔ سرائیکی دا محسن چند صفحات پر مشتمل کتابچہ ہے ۔ اس کے مرتب احسان اعوان ہیں ۔ جنوری 2017ء کو جھوک پبلیکشنز ملتان نے شائع کیا ہے ۔ اس سے دو شعر سناتا ہوں ۔
کیا خبر ہئی وفا دی وستی وچ
پیار جھیں شے وی عام تھی ویسی
توں اشارہ تاں کر محبت دا
ساری دنیا غلام تھی ویسی
سوال : آپ کچھ عرصہ کراچی میں رہے ہیں ۔ وہاں ادبی فضا کیسی ہے ۔ ؟
جواب : یہ پیٹ کا دوزخ بھرنا بھی بہت مشکل ہے ۔ وہاں میرے بھائی غلام شبیر طاہر مرحوم کا میڈیکل سٹور تھا ۔ میں وہاں کام کرنے کے لئے گیا تھا ۔ کبھی بھی فرصت ہی نہیں ملی جو کسی ادبی نشست یا پروگرام یا مشاعرہ میں چلا جاؤں ۔ میرے بھائی غلام شبیر طاہر مرحوم مرحوم اردو کے بہت اچھے شاعر تھے ۔ اللّٰہ پاک ان کی عالم برزخ کی منازل آسان فرمائے آمین ۔
بھائی کے ساتھ ادبی گفتگو ہوتی رہتی تھی ۔ میرے بھائی کی خواہش تھی کہ میری کتاب” وندلاوے” بہت جلد شائع ہو جائے مگر ۔۔۔۔
افسوس ۔۔۔۔
مالی حالات کی وجہ سے اس وقت شائع نہ ہو سکی ۔
ان کی خواہش حسرت میں تبدیل ہوئی ۔ جس کا ملال مجھے مرتے دم تک رہے گا مگر کیا کیا جائے ۔ بقول شاعر
انسان کے نصیب میں مجبوریاں بھی ہیں ۔
سوال آخر میں اپنی ایک غزل سنانا پسند کریں گے ۔ ؟
جواب : جی ہاں ضرور
غزل
اساں کجھ وقت کوں بدلیے اوویلھے گئین خانیں دے
اساڈے ہتھ انھاں دے پیریں ، ہتھیں تے نین خانیں دے
اساڈے غرض کوں ویکھا کہیں وی گیٹ نئیں بخشتا
انھاں دے در انھاں وانگوں کرسے تھئین خانیں دے
اساڈیں سینیں آ ہیں کوں سدا صبریں سنبھالیا ہے
اساڈے صبر ہک ڈینہ تاں لٹیسن چین خانیں دے
پیرو آدھی اکھیں چاتے تونے کھر کھوہ وچالے گئے
ایہ ہی گالھ اے لکئی پئے ہیں اوپیرے پئین خانیں دے
تیڈے شکوے لکھن بیٹھاں تیڈی تعریف تھیںدی گئی
کیندی زپ ہے زبانیں تے کتھاں ہن بین خانیں دے
اساں جاوید جل بل تے پڑھیے ہن حال حشریں دے
تھیسی ہل ہل ہلاری وی ایہ جیڈے کین خانیں دے
مقبول ذکی مقبول
بھکر، پنجاب، پاکستان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔