انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات، سرگودھا
ڈاکٹر مشرف حسین انجم صاحب، سرگودھا
انٹرویو کنندہ : مقبول ذکی مقبول، بھکر
سوال : آپ کا نام پیدائش اور بچپن کے بارے میں معلومات دیں۔۔۔۔۔؟
جواب : میرا نام مشرف حسین انجم ہے۔ ادب کی دنیا میں ڈاکٹر محمد مشرف حسین انجم کے نام سے معروف ہوں۔ 17 مئی 1969ء کو تحصیل شاہپور ضلع سرگودھا کے ایک گاؤں ٹھٹھی ڈھکواں میں عبدالحق راجپوت کے گھر میری پیدائش ہوئی۔
میرے والد محترم اپنے علاقے کے معروف زمین دار اور کاروباری شخصیت کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے۔
سوال : ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کہاں کہاں سے حاصل کی۔۔۔۔۔؟
جواب : ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے پرائمری اسکول بونگہ بلوچاں میں حاصل کی۔ میٹرک تک گورنمنٹ ہائی اسکول جیون گوندل سے تعلیم مکمل کی۔ ایف اے، بی اے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور ایم اے وفاقی اردو یونیورسٹی سے کرنے کے بعد زمیندارہ اور کاروباری معاملات میں مصروف ہو گیا۔
دورانِ کاروبار میں نے 4 سالہ ہومیوپیتھک کورس (ڈی ایچ ایم ایس) اور 4 سالہ فاضل طب کورس کی ڈگریاں بھی حاصل کیں اور ان میں گولڈ میڈلسٹ کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
سوال : آپ نے ملازمت کی یا نہیں۔۔۔۔۔؟
جواب : میں نے اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن میں بطور سلیکشن آفیسر کام کیا ہے اور اس شعبہ میں بھی اپنی کارکردگی کی خوب دھوم مچائی۔
سوال : آپ حمد و نعت گو شاعر ہیں۔ اس میدان میں کس طرح وارد ہوئے۔۔۔۔۔؟
جواب : الحمدللہ حمد و نعت نگاری کی حیثیت سے پورے ملک میں میری ایک پہچان ہے۔
اس میدان میں میری آ مد گھر کے مذہبی ماحول اور دل میں عشقِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خوشبو کی وجہ سے ہے۔ یوں سمجھئے کہ نعت میری کائنات ہے، نعت میری زندگی ہے، نعت میری دھڑکنوں اور میری سانسوں میں اس طرح رواں دواں رہتی ہے کہ جیسے بدن میں لہو گردش کرتا ہے۔
سوال : نعت کے حوالے سے آپ کی سوچ یا نظریہ کیا ہے۔۔۔۔۔؟
جواب : نعت کا تعلق حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے ہے۔ نعت ایک خوشبو ہے۔ جو قلب و ذہن کے نگر کو معطر رکھتی ہے۔ نعت ہماری زندگی پر وارد ہو کر تن من دھن کو سنوارتی ہے۔ نعت ایک قابلِ قدر تخلیقی عمل تو ہے ہی لیکن اس کی اہمیت و عظمت یہ ہے کہ ایک مسلمان کے لئے یہ عمل ایک فریضے کی حیثیت رکھتا ہے اور ایسے میں نعت گوئی محض شاعری نہیں رہتی بلکہ ارشاد خداوندی کی تعمیل اور اس کی عبدیت کی تکمیل قرار پاتی ہے۔
نعت سنت خداوندی ہے۔ جس کی اتباع میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں عجز و عاجزی کے ساتھ محبت و عقیدت کے پھول پیش کیے جاتے ہیں۔
سوال : آپ کی شعری و نثری خدمات کیا ہیں۔۔۔۔۔؟
جواب : الحمدللہ میرے 30 سے زائد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ جو کہ حمد و نعت و منقبت اور غزل نظم پر مشتمل ہیں۔ میں نے حمد و نعت کی صنف میں بے شمار تجربے کیے ہیں اور نئی نئی ہیئتوں اور نئے نئے رنگوں میں اس کا اظہار کیا ہے۔ ایک ایک بحر میں پانچ پانچ سو سے لیکر ایک ایک ہزار اشعار پر مشتمل کٸی مجموعے شائع ہو کر منظر عام پر آ چکے ہیں اور اپنی حیثیت مشاہیر سے منوا چکے ہیں۔ بے شمار اسناد و ایوارڈز اس کا واضع ثبوت ہیں۔
سوال : یونیورسٹی سطح پر آپ کے فن پر کوئی مقالہ لکھا گیا ہے۔۔۔۔۔؟
جواب : جی ہاں منہاج یونیورسٹی لاہور کی طرف سے میرے فن اور شخصیت پر ایم فل کا مقالہ لکھوایا گیا ہے۔ محترمہ نواب بی بی نے یہ مقالہ لکھا ہے۔ اس کی نگران ڈاکٹر فضیلت بانو ہیں( جو کہ منہاج یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو ہیں۔ )اس کا دورانیہ 2018ء سے 2020ء تھا۔ مقالے کا عنوان ہے ۔ ڈاکٹر محمد مشرف حسین انجم کی حمدیہ و نعتیہ شاعری کا تحقیقی جائزہ۔
سوال : نعت میں سیرت نگاری دو اہم موضوع ہیں۔ آپ دونوں میں کس کے حق میں ہیں۔۔۔۔۔؟
جواب : میں سیرت نگاری و سراپا نگاری دونوں کے حق میں ہوں۔ یہ دونوں موضوع مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ کیونکہ ان کا تعلق حضور کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے ہے۔ یہ دونوں موضوع اپنے اندر لطف وکرم اور بخشش و عطا کا ایک وسیع جہاں لیے ہوئے ہیں۔
جس موضوع پر بھی قلم اٹھے گا وہ برکتوں سے مالا مال ہوکر نورانیت سے معمور ہو جائے گا۔اور اس کی خوشبو سے مشامِ جاں معطر ومعنبر ہوں گے
سوال : صنفِ تروینی آپ کا پسندیدہ موضوع ہے ۔ کچھ اس پر روشنی ڈالیں۔۔۔۔۔؟
جواب : جی ہاں تروینی میرا پسندیدہ موضوع ہے۔ میں نے اس صنف کو حمد و نعت کا پیراہن اوڑھا دیا ہے۔ نعتیہ اور حمدیہ تروینیوں پر مشتمل میرےکٸی مجموعے شائع ہو کر منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ہیٸتی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ صنف تین مصرعوں پر مشتمل ہے۔
پہلے دو مصرعے مل کر ایک شعر مکمل کر تے ہیں (یہ مطلع بھی ہو سکتا ہے) اور تیسرا مصرعہ قارئین کو نئے رخ پر سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ ایک کسی بند کمرے میں موجود ہیں۔ اچانک اس کا روشندان کھلتا ہے۔ اس روشن دان کے کھلنے سے جو تازگی وشگفتگی کا تائثر پیدا ہوتا ہے۔ اسی قسم کا تائثر اس صنف میں تیسرا مصرعہ پیدا کرتا ہے۔ یاد رہے یہ ثلاثی، ہائیکو اور ماہیے سے مختلف چیز ہے۔ مشکل صنف ضرور ہے۔ مگر دلچسپی سے خالی نہیں۔
سوال : کچھ مرثیہ پر روشنی ڈالیں۔۔۔۔۔؟
جواب : شاعری کی اصطلاح میں مرثیہ وہ صنف ہے جس میں کسی کے وفات پاجانے کی صورت میں اس کی تعریف وتوصیف بہ صورتِ حسرت و غم بیان کی جاتی ہے اور روایتی معنوں میں اس سے مراد وہ نظم ہے۔ جس میں حضرت امام حسین علیہ السلام و دیگر شہیدائے کربلا کے فضائل و مصائب کا پُرسوز تذکرہ ہو۔ مرثیہ زیادہ تر مسدسِ کی ہیئت میں ہی تخلیق کیا جاتا ہے۔ مرثیہ کی چار قسمیں ہیں۔
1رسمی مرثیہ
2 قومی مرثیہ
3 شخصی مرثیہ
4 مذہبی مرثیہ
سوال : آپ کی بیوی بھی نعت گو ہے۔ ان کا جذبہ ایمانی کس طرح وارد ہوا۔۔۔۔۔؟
جواب : الحمدللہ میری اہلیہ بھی نعت گو شاعرہ ہیں۔ ان کے دو نعتیہ مجموعے” آقا دا کرم ہوسی :اور” مہکار مدینے کی” شائع ہو چکے ہیں۔
ادب میں صائمہ یاسمین کے نام سے معروف ہیں۔ ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ فاضلہ عربی ہیں۔ ایک عالمہ فاضلہ ہیں۔ پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللّٰہ علیہ کی شاگردہ ہیں۔ ان کے فن اور شخصیت پر ایم فل کے ایک مقالے” خواتین کی اردو نعتیہ شاعری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ” میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ یہ مقالہ مشہورماہرِ تعلیم محترمہ رضوانہ رضی نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے مکمل کیا ہے۔
سوال : آپ کی کسی ادبی تنظیم سے وابستگی۔۔۔۔۔؟
جواب : میری پاکستان بھر میں پھیلی ہوئی بے شمار ادبی تنظیموں سے مدتوں سے وابستگی ہے۔ ملک بھر کے بیشتر مشہور ادبی جرائد میں میرا کلام ایک تسلسل کے ساتھ چھپ رہا ہے۔ مجلہ” خوشبوئے نعت سرگودھا” سمیت کئی مجلہ جات میں بحثیت مدیر کام کررہا ہوں۔ جن میں مجلہ "قلم و قرطاس "سر فہرست ہے۔ مجھے "فروغِ حمد و نعت کونسل پاکستان :اور” عبدالحق نعت فاؤنڈیشن انٹر نیشنل "کا چیئرمین ہو نے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
ان تنظیموں کے پلیٹ فارم سے میں شعراء و ادباء کو "خوشبوئے نعت ایوارڈ "بھی پیش کرتا رہتا ہوں۔ مجھ پر کئی خصوصی نمبرز بھی شائع ہو چکے ہیں۔ میرے فن و شخصیت پر محترم زاہد اقبال بھیل ایک کتاب "ادبی ستارے شخصیت وفن ڈاکٹر محمد مشرف حسین انجم "بھی لکھ چکے ہیں۔ "راوی لہر ڈاکٹر محمد مشرف حسین انجم نمبر” کے علاوہ جہانِ نعت کراچی کا میری کتاب نقشِ نعلینِ حضور پر خصوصی نمبر بھی شاٸع ہو چکا ہے
سوال : آپ سرگودھا میں ادبی ماحول کیسا پاتے ہیں۔۔۔۔۔؟
جواب : ضلع سرگودھا کا ادبی ماحول خاصا خوشگوار ہے۔ یہاں کے شعراء و ادباء اپنی صلاحیتوں کے حوالے سے پورے ملک میں اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں۔ سرگودھاکی مردم خیز دھرتی علم و ادب کا گہوارہ ہے۔ یہاں کا دبستان خاص شہرت کا حامل ہے۔ یہ امر باعث مسرت ہے کہ ضلع سرگودھا میں معیاری ادب تخلیق ہو رہا ہےاور اس کی خوشبو پوری دنیا میں پھیل رہی ہے
سوال :موجودہ ادب کے حوالے سے آپ کی رائے۔۔۔۔۔؟
جواب : ہر شاعر و ادیب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنے فکر و فن کی خوشبوئیں بکھرانے میں منہمک ہے۔ میرے لیے ہر شاعر اور ہر ادیب کی تخلیق و تصنیف دلکشی سے معمور ہے۔ ایک کتاب کو منظر عام پر لانے کے لئے قلم کار کو کتنے کٹھن اورمشکل مراحل سے گزر نا پڑتا ہے۔ تنقید برائے تنقید کی پالیسی سے گریز کیا جائے تو موجودہ ادب میں بھی گل ھائے رنگارنگ کوباآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔
سوال : نعت گوئی تلوار کی تیز دھار پر چلنا ہے۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔۔۔۔۔؟
جواب : نعت گوئی یقیناً تلوار کی تیز دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ ایک نعت گو حضور ﷺ کی توصیف و تعریف میں اتنا آگے نہ نکل جائے کہ وہ توحید کی حدود کو پھلانگنے لگے اور آپ ﷺ کی توصیف میں اتنی کمزوری بھی نہ دکھائے کہ بے ادبی و گستاخی اس کا
نامہ ء اعمال سیاہ کر ڈالے
سوال : قارئین کیلئے کوئی پیغام۔۔۔۔۔؟
جواب : جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے۔ جو تمام بیماریوں کی جڑ ہے۔ میرا پیغام ہے کہ دروغ گوئی کی عادت جو ہمارے معاشرے میں زہر کی طرح سرایت کر چکی ہے۔ اس سے پرہیز کیا جائے۔ بات بات پر جھوٹ ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ ہمارا دین اسلام صداقتوں کی خوشبوؤں سے آراستہ و پیراستہ ہے۔ ہمیں آپس کے معاملات میں سچ کی عادت کو فروغ دینے کی اشدضرورت ہے۔ اسی میں ہماری شان ہے اور اسی میں ہماری بقا کا راز بھی پوشیدہ ہے۔اللہ کریم اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے طفیل ہم سب پر اپنی رحمتوں کی بارش برساتا رہے آمین
مقبول ذکی مقبول
بھکر ،پنجاب، پاکستان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔