انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات، ملتان
ڈاکٹر مختار ظفر صاحب، ملتان
انٹرویو کنندہ:مقبول ذکی مقبول، بھکر
سوال: آپ کا مختصر تعارف۔۔۔۔۔؟
جواب : پورا نام مختار احمد ظفر ہے۔ پیدائش مشرقی پنجاب کی تحصیل نکودر ضلع جالندھرکے معروف قصبے چک مغلانی کی ذیلی بستی میں ہوئی۔ قائداعظمؒ کے معالجِ خاص ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش اسی قصبے کے رہائشی تھے۔ انہی کی کوٹھی کے سامنے میرے والد کی زمین تھی اور میل ملاپ بھی۔ تقسیم ہند کے بعد والدین پہلے شیخوپورہ اور پھر بہاول پور کی تحصیل حاصل پور کے ایک معروف گاؤں چک 88/F میں آباد ہوئے۔ یہیں کے مڈل سکول سے تعلیم حاصل کی۔ میں ذہین اور محنتی طالب علم تھا۔ ہر کلاس میں Top کرتا رہا۔ یہیں Extensive Study بھی بہت کی۔ روزنامہ نوائے وقت، زمیندار، قندیل، چٹان، نقاد کراچی، شمع دہلی، لیل و نہار، مزاحیہ رسالہ ’’چاند‘‘ اور نصرت جیسے رسائل کا مطالعہ کیا۔ نسیم حجازی، عبدالحلیم شرر اور اے آر خاتون کے ناول اور افسانے پڑھے۔ ’’معارف‘‘ اعظم گڈھ کا تواتر سے مطالعہ کیا۔میں نے آٹھویں کلاس میں ڈاکٹرغلام جیلانی برق کی ’’دو قرآن اور دو اسلام‘‘ بھی پڑھ لی تھیں۔ اس کتاب نے میرے فکرونظر کو بہت متاثر کیا۔ میٹرک کے لئے گورنمنٹ حاصل پور میں داخلہ لیا۔ یہاں کے تعلیمی امور کو سیاسی مداخلت نے خراب کررکھا تھا۔ دسویں کلاس کے اواخر میں، ضلع بہاول نگر کے معروف سرکاری ہائی سکول ڈاہرانوالہ میں شفٹ ہوگیا۔ وہاں طلبہ کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ پھر بھی میں نے دسویں کے لاہور بورڈ کے امتحان میں سکول میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ حاصل کردہ نمبروں کا پرانا ریکارڈ بھی توڑا اور ضلع میں بھی پوزیشن لی۔
سوال:مزید اعلیٰ تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
جواب:مالی حالات کے موانعات نے کالج میں داخل نہ ہونے دیا۔ گورنمنٹ H/S ڈاہرانوالہ کے ہیڈ ماسٹر چودھری غلام قادر نے مجھے ساتھ لے جاکر بہت تاخیر سے، 22اکتوبرکو SE کالج بہاول پور میں داخل کروادیا۔ ٹیوشن سے اخراجات پورے کرتا۔ FSc (نان میڈیکل) میں کوئی نمایاں کارکردگی نہ دکھاسکا۔ FScکے بعد پہلے بلدیاتی H/S گگو میں بطورسائنس ٹیچر تعیناتی ہوئی وہاں سے بنگلہ جملیرا کی طرف جانے والی سڑک پر تھانہ احمد یار کے قریب میرا ٹرانسفر ہوا۔ پرائیویٹ امیدوارکی حیثیت سے بہت اچھے نمبروں میں B.A کیا۔ ایم اے صحافت کرنے کے لئے کراچی گیا مگر وہاں داخلے 15اگست تک مکمل ہوچکے تھے۔ میں اکتوبرکے مہینے کے آخرمیں پہنچا تھا۔ Excise & texation کے محکمے میں سب انسپکٹر کی جاب تو مل گئی مگر یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملنے پر واپس 127/EB میں سکول سروس کو جاری رکھا۔ ایم اے (اردو) پرائیویٹ امیدوارکی حیثیت سے کیا لیکن تب سرکاری سروس پر ban لگا ہوا تھا۔ میں نے 127/EB کے H/S کوچھوڑ کر ننگل انبیاء اسلامیہ H/S ساہیوال میں جائن کرلیا۔
سوال : مزید اعلیٰ تعلیم کہاں کہاں سے حاصل کی؟
جواب : مزید اعلیٰ تعلیم کے دو مرحلے تھے، پہلا B.Ed کا، دوسرا Ph.D کا۔ B.Ed میں نے گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن سے کیا اور پورے پنجاب میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یہ اس کالج کی بھی پہلی پوزیشن تھی۔ حسن اتفاق سے ban ختم ہوا اور بطور ایڈہاک لیکچرار تعیناتی بھی اسی کالج میں ہوئی۔یہاں سے گورنمنٹ کالج سول لائنز میں بھی ٹرانسفر ہوا۔ بطور اسسٹنٹ پروفیسر ترقی ہوئی تو گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن ملتان میں تھا۔ یہیں سے پی ایچ ڈی میں رجسٹریشن ہوئی۔ میرا موضوع تھا ’’ملتان کی شاعری روایت بحوالہ علامہ طالوت، راجہ عبداللہ نیاز، اسد ملتانی، کشفی ملتانی، کیفی جام پوری اور شفقت کاظمی‘‘۔
Ph.D کے بعد پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈائریکٹ سلیکشن ہوئی تو گورنمنٹ کالج آف سائنس میں تعیناتی ہوئی۔ یہیں سے کنٹرولرامتحانات ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ ملتان تقرر ہوا۔ تین ماہ کے بعد چیئرمین کا چارج بھی ملا۔ تب سندھ اور آزاد کشمیر کے صوبوں کی طرح باقی صوبوں (پنجاب، KPK اور بلوچستان) میں ثانوی سطح (نویں اور دسویں جماعت) کے الگ الگ امتحان کے لئے Bifircation میری صدارت میں ہوئی کیونکہ اس کے لئے بارہ بورڈز کے چیئرمینوں کی جو کمیٹی تشکیل ہوئی تھی، ملتان بورڈ اس کا کنوینر تھا۔ ایک غلط فہمی کی بنا پر یہ کیس آٹھ سال سے لٹکا ہوا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بیکن ہاؤس سکول سسٹم کے فرنچائزی سسٹم کے تحت ملتان میں نئے کھلنے والے دو ایجوکیٹرز کالجز (بوائز اور گرلز) کا پرنسپل منتخب ہوا۔ میرے زمانے میں ہمارے انٹر کے سٹوڈنٹ نے پورے پاکستان میں اول پوزیشن حاصل کی۔ تین سال کے بعد استعفیٰ دیا تو سنٹرل فار گرلز نے بطور پرنسپل خیر مقدم کیا۔ وہاں سے دی نوبلز (Nobles) کالج فار گرلز مخدوم رشید کے ملتان کیمپس نے خدمات حاصل کیں جہاں 2014ء تا 2017ء بطورHOD اورپروفیسر فرائض انجام دیئے۔ آج کل بھی Times Institute کے پیر خورشید کیمپس میں ایم فل اور Ph.D کلاسز (اردو) کے لئے HOD تعینات ہوں لیکن وہاں کلاسز شروع نہیں ہوئیں۔
روزنامہ ’’خبریں‘‘ ملتان کے ادبی ایڈیشن کے انچارج کی حیثیت سے 2018ء تک تیرہ/ چودہ سال خدمات انجام دیں اور خطے کی تحقیقی و تنقیدی اور ادبی فعالیتوں (Potentials) کو اجاگر کیا۔ملتان بورڈ میںبورڈ آف گورنرز کی حیثیت سے چھ سال میں بہت سی اصطلاحات کروائیں۔
سوال: آپ ادبی میدان میں کس طرح وارد ہوئے؟
جواب: یہ حسنِ اتفاق ہے کہ میں ادبی میدان میں آیا اور خدمات انجام دیں، اس لئے کہ ہمارے خان دان میں ایسے کوئی رجحانات نہ تھے تاہم کچھ عوامل ضرور موثر ہوئے۔ مثلاً مجھے Extensive Study کا بڑا شوق تھا۔ جب کوئی پیسے ملتے، میں کوئی نہ کوئی رسالہ جاری کروالیتا… پھر لائبریری میں موجود کتابوں کا مطالعہ۔ اس سے تصنیفات کے ساتھ تخلیقات سے بھی لگن پید ہوئی۔ آٹھویں جماعت میں تھا کہ میرا ایک مضمون ’’کتاب میری بہترین دوست‘‘ نوائے وقت میں شائع ہوا اس سے حوصلہ افزائی ہوئی۔ آٹھویں جماعت میں ہمارے ایک ادب دوست استاد، اسلم صاحب نے مجھے ’’جہاں پھول کھلتے ہیں‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھنے کوکہا۔ وہ اس قدر انھیں پسند آیا، پھر اسی موضوع پر افسانہ لکھنے کی ترغیب دی۔ وہ کہانی بھی انھیں پسند آئی اور انھیں میرے اندر ایک اچھے افسانہ نگار کے آثار نظرآئے مگر ہمارے مڈل سکول کے اعلیٰ عربی استاد علامہ محمد عبداللہ نظامی نے سختی سے منع کردیا۔ انھیں خدشہ تھا کہ میں اپنی اصل تعلیم سے ہٹ جاؤں گا اور میری صلاحیتیں محور سے ہٹنے کے بعد،میرے کیریئر میں کام نہ آسکیں گی۔ اس کے باوجود شعروادب سے لگاؤ رہا۔
سوال: آپ کی نثری خدمات کیا ہیں؟
جواب: میں نے کم عرصے میں لکھا ہے۔ بہت سے مضامین اور آرٹیکلز مختلف رسائل و جرائد کی طباعتوں میں شامل ہوئے۔ کچھ کتابوں کی صورت میں منظرعام پر آئے۔ چنانچہ اب تک میری چودہ تصانیف ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔
سوال : ڈاکٹر صاحب آپ کی کتابوں کے نام کیا ہیں ؟
جواب : ٭ علامہ طالوت … خطہ ملتان کی علمی و ادبی اور تحقیقی روایت کا معتبر حوالہ
شعبہ ٔ اردو : بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ٗملتان 2002ء
٭ اسدؔ ملتانی… فکرِ اقبال کا نمائندہ شاعر ٗبیکن بکس گلگشت کالونی ملتان 2007ء
٭ محمد عبداللہ نیازؔ…خطۂ ملتان کی تحقیقی اور قومی شعری روایت کا منفرد حوالہ
شعبۂ اردو: بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ٗملتان ٗ 2009ء
٭ ملتان کی اردو شعری روایت (مقالہ پی ایچ ڈی)بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان ٗ جنوری 2014ء
٭ شاعرانِ خوش نوا (تحقیق و تنقید) بیکن بکس لاہور 2015ء
٭ آفاقی و سرمدی سرائیکی شاعر: خواجہ غلام فرید ٗ جھوک پبلشرز ٗدولت گیٹ ٗملتان 2015ء
٭ نگارش کدہ… تبصرے ٗتجزیئے (کتابوں اور مجلّوں کے) ٗبیکن بکس ٗلاہور / ملتان ٗجنوری 2016ء
٭ پاکستانیات ٗبیکن بکس لاہور /ملتان 2017ء
٭ ملتان ٗادب اور تصوف ٗالکتاب گرافکس وحید پلازہ ٗحسن پروانہ روڈ ٗملتان 2018ء
٭ ابوالکلام آزاد… متاعِ گم گشتہ، فکشن ہاؤس لاہور 2019ء
٭ شعروادب کی محفلیں …ملتان کی، فکشن ہاؤس لاہور 2020ء
٭ سفرنامے :سوئے حرم لے چل اور کیوں نہ ہم بھی سیر کریں ساؤتھ کوریا کی، فکشن ہاؤس لاہور 2020ء
آئینہ خانہ۔ نقاد و نظر، بکس اینڈ ریڈرز ملتان،2021ء
مقدمے اور ابتدایئے (نامور اہل قلم کی چند کتابوں کے)
بکس اینڈ ریڈرز ملتان، 2021ء
پندرھویں تصنیف ’’قلمی چہرے اور شخصی مضامین‘‘ اس وقت فکشن ہاؤس لاہور میں زیرِطباعت ہے،اس انٹرویو کی اشاعت سے پہلے وہ بھی منظرعام پر آجائے گی۔
سوال: آپ شعروسخن کی طرف کیوں نہیں آئے؟
جواب:شعروسخن کی طرف میلان تھا اوراس کے محرکات بھی تھے۔ ہمارے گاؤں چک نمبر 88/F (تحصیل حاصل پور) میں، علاقے کے ایک بڑے زمیندار حاجی سلیمان صاحب نے اپنے مرشد اور پیر سید محمد حنیف صاحب کو ایک مربع قطعہ اراضی الاٹ کروایا تھا۔ سید صاحب گرمیوںسے پہلے یا بعد کے معتدل موسم میں، یہاں قیام کرتے۔ تقسیم ہند سے پہلے ضلع جالندھر کی تحصیل نکودر کی کسی جامع مسجد میں خطیب رہے تھے۔ میرے والدِ گرامی نے بھی ان کی اقتداء میں جمعہ کی کچھ نمازیں پڑھیں تھیں اس لئے شناسائی تھی۔ میںجب بھی ان کے پاس جاتا، تو وہ اپنے شعر سناتے۔ 1915ء میں جب علامہ اقبال کی اسرارِ خودی کے خلاف صوفیائے کرام کے حلقے سے شدید ردعمل ہوا تو سید صاحب خواجہ حسن نظامی کے گروپ میںتھے۔ اس حوالے سے ان کی جو شاعری ’’پیسہ‘‘ اخبارمیں شائع ہوتی رہیں،وہ سنایاکرتے تھے۔وہ اکثر اپنی غزلیں بھی سنایا کرتے تھے جس سے مجھے بھی شعر کہنے کی ترغیب ہوئی۔ ہمارے مڈل سکول کے اساتذہ بھی کسی بات کی توضیح کے لئے یا کسی طالب علم پر طنز کے لئے شعر کا ذریعہ اختیار کرتے اس کے بھی اثرات ہوئے۔ میں نے ساتویں جماعت میں ’’صبح کی سیر‘‘ پر کچھ شعر کہے، مثلاً:
کیا بتاؤں صبح کا کیا حسیں سماں ہے آج
باغِ ارض کی ہر چیز مانندِ جناں ہے آج
تو بھی اے مختار چل اور سیر کر بوستان کی
دیکھا نہیں ہر چیز سے نورِ خدا عیاں ہے آج
ہمارے احاطے میں ’’رحمان‘‘ نام کا اٹھوال (اونٹ والا) رہتا تھا، وہ اپنے اونٹ سے باربرداری کا کام لیتا تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ میری زندگی پر ایک قصہ لکھو تو میں بہت خوش ہوں گا۔ صرف چند شعر کہے تھے، کچھ شعر اس قصے کے اب بھی یاد ہیں، مثلاً:
صفت سنانواں قادر تے قدیر دی
روزی جیہدے اتھ شاہ تے فقیر دی
مزیدار اک میں قصہ سناونداں
ساڈے پنڈ وچ اک رحمان نام دا
جائیداد ساری اوہدی بوتی اک سی
پاڑھا ٹوہندا رہندا اوہدے اُتے نت سی
دراصل اس زمانے میں شعری ماحول بھی تھا۔ گرمیوںمیں دوپہر کے وقت فارغ وقت میں درختوں کے نیچے بیٹھ کر قصے کہانیوں پر مشتمل، خوش الحان افراد، شاعری سنایا کرتے تھے۔ چنانچہ کہیں یوسف زلیخا پڑھی جارہی ہے ، کہیں ہیر رانجھا اور کہیں سیف الملوک یا سوہنی مہینوال۔ خوش مذاق شعر بھی کہتے۔ اس لئے شاعری کچھ عجوبہ نہیں تھی۔ اس ضمن میں میری طبع رواں ہوئی، تو مجھے اساتذہ نے روک دیا کہ پہلے زندگی بناؤ، پھر شعر کہو۔ اس پر تعطل جو ہوا ، تحرک سے بے گانہ رہا۔ بعد میں زندگی کے جھمیلوں نے فرصت ہی نہ دی اور نہ ضرورت محسوس کی اور نہ کوئی ایسی صحبت میسر آئی اور نہ ہی کوئی ایسی صورتِ حال بنی کہ :
کچھ تمھارے گیسوؤں کی برہمی نے کردیئے
کچھ اندھیرے میرے گھر میں روشنی سے ہوگئے
سوال: آپ کی کسی ادبی تنظیم سے وابستگی؟
جواب: طبعاً گھریلو آدمی ہوں، روزمرہ زندگی کے مسائل و معاملات سے سروکار رکھتا ہوں۔ دوستوں کے ساتھ کمپنی کرنا، گپ شپ میرا مزاج نہیں۔ اس لئے ادبی تنظیموں میں شرکت نہ ہوسکی۔ بعض اوقات اردواکیڈمی کے اجلاس میں شرکت کرتا رہا۔ فاران اکیڈمی بنی تو اس میں مضمون پڑھنے کے لئے شرکت کرتا مگر باقاعدگی نہ رہی۔ ملتان آرٹس فورم کی ادبی بیٹھک میں کافی شمولیت کی ہے۔ ملتان آرٹس فورم کے پروگراموں میں شرکت کی۔ اس وقت پاکستان رائٹرز فورم کا چیئرمین ہوں مگر اس کا اجلاس بھی دیر ہوئی، نہیں ہوا۔
سوال: اعزازات؟
o نشانِ ملتان (چوتھی ریشم دلان کانفرنس 2020ء)
o اعزازِ ملتان ، 2019ء
o جنوبی پنجاب لٹریری فیسٹیول 2019ء
o ادبی ایوارڈ ، فروغِ ادب و فروغِ زبان ملتان 2019ء
o احمد خان طارق ایوارڈ از نقیبی ہاؤس کارروانِ ادب فیصل آباد2019ء
o جنوبی پنجاب لٹریری فیسٹیول2019ء
o ادبی ایوارڈ، علامہ اقبال کانفرنس 2016ء ،
o سپیشل ایوارڈ از لالہ صحرائی فاؤنڈیشن 23فروری2014ء
o شیلڈ ا ز روزنامہ خبریں ملتان 5جون 2007ء
o سپیشل ایوار ڈاز دی ایجوکیٹرز پنجاب 2006ء
سوال: حضرت علامہ اقبالؒ پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں، آپ کچھ کہنا پسند کریں گے؟
جواب:حضرتِ اقبالؒ پر بے شمارکتابیں لکھنے کا جواز تھا اور ہے اور وہ یہ کہ یہ جہانِ معنی ایسا تازہ کار ہے کہ اس کی حکمت، بصیرت، فن اور اسرار کے نو بہ نو گلزار ان اہلِ فکرونظر کو دعوتِ نظارگی اور فکری تحریک دیتے ہیں جن کا علمی و ادبی پس منظر وسیع اور تنقیدی و تحقیقی وژن دوررس ہے اور وہ اپنی ژرف نگاہی اور بصیرت کی بدولت، اس بحرِ عمیق کی تہہ سے نئے لولوئے لالہ چن لیتے ہیں۔ خود میں نے بھی ان کے فکرونظر اور شاعری پر کئی مضمون لکھے ہیں جو میری تصانیف میں شامل ہیں۔ یہ سلسلہ تھمے گا بھی نہیں۔ بین الاقوامی سطح پر بھی جاری ہے۔ یوں خیالات در خیالات نئے جہانِ معنی کا ذریعہ بنتے رہتے ہیں اور بنتے رہیں گے۔ خود حضرتِ اقبال نے اپنی شاعری کے بارے میں اسی لئے کہا ہے:
شعر را مقصود اگر آدمی گر یست
شاعری ہم وارثِ پیعمبر یست
(شعر کا مقصد اگر آدمیت سازی یا انسانیت سازی ہے، تو شاعری پیعمبری کی وارث ہے)
سوال:جدید ادب کے بارے میں آپ کی رائے
جواب: جدید ادب کے بارے میں میری رائے مثبت اور موید ہے، ادب کسی عہد میں بند رہتا ہے اور نہ رہا ہے۔ یہ تو زندگی کا ترجمان بھی ہے اور اس کا رہبر بھی۔ جب زندگی بدلتی رہتی ہے تو اس کی ترجمانی کرنے والا ادب کیسے جامد یا Static رہ سکتا ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم کلاسیکل ادب کو ہی سرمایۂ تخلیق سمجھتے ہیں مگر یہ کلاسیکل ادب تبھی تازہ کار رہے گا جب تک اس میں جدت کے نئے گلزار کھلتے رہیںگے۔ اردو ادب کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے۔ دیکھئے زبان کا ابتدائیہ کیا تھا،اس کے موضوعات کیا تھے اورکیا ہیں… گجری ادب، کبھی بہمنی دور، کبھی بیجابور اور گولکنڈہ کی خدمات، پھر دلی کی مرکزیت، دہلوی دبستان، لکھنوی دبستان، فورٹ ولیم کالج کے اثرات، مرثیہ نگاری، سرسید تحریک،غالب کی عظمتیں، اقبال کی شاعری کے نئے رنگ، فیض احمد فیض کے اثرات، ترقی پسند تحریک کے برگ و بار، حلقۂ اربابِ ذوق کی سرگرمیاں، جدیدیت کی تحریک، مابعد الجدیدیت اور پسِ جدیدیت، گویا ہر’’لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی‘‘ والا معاملہ ہے اور رہے گا۔
سوال:ڈاکٹرصاحب!آپ اپنی زندگی کی غالباً پون صدی کے قریب بہاریں دیکھ چکے ہوں گے بتائیے کہ آپ نے زندگی کو کیسے پایا؟
جواب:تلخیوں نازسائیوں اور نامرادیوں کے باوجود زندگی کو جمیل وحسین پایا …دلکش بھی اور دل فریب بھی…دکھ اور کرب توزندگی کا لازمہ ہے ہرکوئی اس سے گزرتا ہے بلکہ بقول شاعر
جس کو دیکھو درد مجسم‘جس سے ملو وہ گریباں چاک
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ اس دکھ اور کرب سے گزرے کیسے‘روتے روتے‘آہ وزاری کرتے یا حوصلے اور جی داری کے ساتھ‘ہنستے مسکراتے …میں نے جب ہوش سنبھالا توہمارے مالی حالات خراب تھے۔محرومیاں تھیں‘مایوسیوں کے ڈیرے تھے مگرمیرے والدین حوصلہ مند تھے اس لئے ہم بھی حوصلہ مندی سے رہے۔انھوں نے ہماری خواہشوں کو جس ممکن حد تک پورا کرنے کی کوشش کی وہ ہماری خوشیوں کا سامان بن گئیں…میں بہت اچھا طالب علم تھا پھر خصلیں اور عادتیں بھی والدین کی تربیت یافتہ تھیں اس لئے اپنے گاؤں کے لوگوں سے شفقت اور محبت ملی۔یہی شفقت اور شاباش میرے حوصلے کو مہمیز کرتی اور خوشیاں بھی سلام کرتیں۔اس صورت حال میں زندگی دلکش بھی رہی‘لطف افزا اورمسرت آمیز بھی۔
سوال:جیسا کہ آپ بتارہے کہ مالی حالات خستہ تھے اس صورتحال میں ضروریات زندگی توکسی نہ کسی حد تک پوری ہوسکتی ہیں مگرشوق توترستے رہتے ہیں …آپ کاکیا حال رہا ؟
جواب:دیکھے!خوشی اور لطف کے احساس سے کوئی شخص محروم نہیں خواہ وہ غریب اور مفلوک الحال ہویا امیروصاحب استطاعت۔ بلکہ میرے مشاہدے اور تجربے کے مطابق خوشی اور لطف فطری ہے۔کسی بات یا حرکت پہ ہرکوئی خوش ہوسکتا ہے مسکرااٹھتا ہے قہقے لگالیتا ہے۔اسی طرح لذت ولطف کا معاملہ ہے اوریہ بھی ذوقی ہے۔ہوسکتا ہے کہ امیر آدمی کو پرتکلف کھانے میں وہ لطف نہ ملے جو غریب آدمی کو محض چپڑی روٹی اور اچار سے مل جاتا ہے۔ سوخوشی اور لذت ولطف ہرایک کے مزاج کا خاصہ اور لازمہ ہے اس لیے یہ ہرکسی کا حصہ ہے یہ کٹیا میں بھی رنگ بکھیرتی ہے اورایوانوں میں اپنے گجرے دکھاتی ہے۔
سوال:شعروادب سے آپ کا تعلق کیسا رہا اورآپ نے اسے کیسا پایا؟
جواب:شعروادب سے تعلق بچپن سے رہا ۔میری والدہ کو یوسف زلیخا جیسے قصے سننے کا شوق تھا میں الحان سے انھیں مولوی غلام رسول کی یوسف زلیخا سناتا۔مجھے ہمہ قسم کا ترنم بھاتا۔اسے سن کر دل میں خوشیوں کے نغمے پھوٹتے۔ایک دفعہ گاؤں میں کوئی سارنگی نواز گھر گھر خیرات لینے جاتا اورسارنگی کے ساز کے ساتھ گاتا کہ
لوری دیندی مائی حلیمہ پاک محمدؐ سرور نوں
تومجھے اتنا لطف آیا کہ پورے گاؤں میں اس کے پیچھے پیچھے چلتا اور ہرگھر کے سامنے اُسے سنتا رہا۔ اس کی لذت تادیر دل ودماغ پر چھائی رہی۔اس دور میں کسی نہ کسی گاؤں میں میلے ٹھیلے ہوتے۔وہاں قوالیاں سنتے ۔گاؤں کے کسی چو ک میں کوئی ہیرانجھا پڑھتا‘کوئی یوسف زلیخا‘کوئی سوہنی مہینوال‘سیف المکوک ‘ان کے ترنم کی لہریں فضاؤں کو بھی نغمہ بار کردیتیں۔ سکولوں میں اساتذہ بھی کسی نہ کسی بات پر شعر کا استعمال کرتے طنز یا تعریف کا کام لینے کے لئے۔ہماری تیسری کلاس کے استاد سید دوالفقار علی شاہ نظم یاشعر ترنم سے پڑھتے‘ہمیں بہت لطف آتا۔ پیرسید محمدحنیف کی صحبت سے شعروادب سے دلچسپی کو فروغ ملا رسائل وجرائد کے مطالعے سے بھی شعری وادبی ذوق کو جلاملی۔
ہمارے دور میں نہ میٹرک میں اُردو لازمی تھی اورنہ انٹر میں‘ اس لئے تعلیمی دورانیے میں اُردو بطور مضمون نہیں پڑھی۔BAمیں بھی اُردو مضمون کا انتخاب نہیں کیا۔اس میں صرف ایم اے کیا۔وہ بھی پرائیویٹ طور پر کیونکہ میری خواہش انگریزی میں ماسٹر کرنے کی تھی اور وہ بھی یونیورسٹی میں داخل ہوکر‘مگراس کیلئے وسائل میسر نہ تھے سو اُردو کے مضمون کو اختیار کرنا پڑا۔اس کی ایک وجہ اس مضمون کی ہمارے تعلیمی نظام میں حیثیت تھی کیونکہ یہ انٹر تک لازمی تھا۔
سوال:شعروادب کے علاوہ فنون لطیفہ کے دیگرفنون میں کون سے فن پسند ہیں؟
جواب:موسیقی بہت پسند ہے بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ یہی سب سے زیادہ پسند ہے ۔خوش آواز اور نغمہ وساز دل کو بہت بھاتے ہیں لڑکپن میں ان سے بہت لطف اٹھایا ۔ریڈیوسیلون اور آل انڈیا سے نغمے سننا بہت فیورٹ رہا۔ نغموں میں موسیقاروں کے ابتدائی سازوں کے رنگ اور انداز سے اندازہ ہوجاتا تھا کہ گانے کی دھن ‘کس موسیقار نے بنائی ہے۔ شنکرجے کشن۔نوشاد‘ہمنیت کمار‘کھیم چند پرکاش‘مدن موہن‘سی رام چندر ‘روشن جب کہ پاکستان کے خورشید انور‘جی اے چشتی‘ رشید عطرے اور فیروز نظامی پسند تھے مگر نوشاد سب سے زیادہ فیورٹ رہے نئے موسیقاروںنے زیادہ ترپرانی دھنوں سے زیادہ استفادہ کیا تخلیقی محنت کم رہی…حسن قرأت بھی دل کو بہت بھاتی ہے قاری عبدالباسط‘عبدالصمد کی قرأت میں ہوش وحواس گم ہوجاتے ہیں۔
سوال:فنون لطیفہ کے ضمن میں ایک عمومی رجحان مخالفت کا ہے کہ اس سے اخلاقیات منفی طور پر متاثرہوتی ہیں لہذا موسیقی ہویا مصوری یا سنگ تراشی یا رقص وغیرہ ‘بچوں کو ان سے دور رکھاجاتا ہے آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:زندگی میں کوئی فن‘خوبی یا جوہرایسا نہیں جوزندگی کیلئے کار آمد نہ ہو‘فنون لطیفہ کا ہررنگ زندگی کو حسن بخشتا اور اسے تابندگی دیتا ہے۔
کوئی بھی معاشرہ اچھی قدروں(Values)پرصحیح چلتا ہے اچھی قدروں میں سچ بولنا‘جھوٹ سے نفرت‘اخلاص وہمدردی‘اخوت ومحبت‘امدادباہمی‘انصاف پسندی ‘رواداری اورفراخ دلی وغیرہ شامل ہیں یہ جب تک صحت مند رہتی ہیں معاشرے میں صحت مندی رہتی ہے اور وہ مثالی رہتا ہے مگرجب ظاہروباطن کا تضاد ہوجاتا ہے تویہ قدریں کھوکھلی ہوجاتی ہیں۔جھوٹ‘تنگ نظری اورنمودونمائش کے سلسلے عام ہوجاتے ہیں۔ انھیں صحت مند کرنے کیلئے فنون لطیفہ کا سب سے زیادہ رول ہے یہ غم والم کو بشاشت اور جی داری میں بدل دیتے ہیں۔ تعصب اور تنگ نظری کے رنگ پھیکے ہوجاتے ہیں اورظاہروباطن کے تضادات ختم ہوجاتے ہیں سوفنون لطیفہ کا وجود بھی لازمی ہے اوراس کی عمل داری بھی ضروری ۔
سوال:آپ وطن عزیز میں شعروادب کا کیا مستقبل دیکھ رہے ہیں؟
جواب:دیکھئے تخلیقی صلاحیتیں توخداداد ہیں اورشعروادب کی روایت بھی بہت پرانی ہے اور مضبوط بھی مگراب اظہار کے نئے وسائل کے آنے سے اسے نئی راہ اختیار کرنی پڑے گی۔کتاب دوستی موجود ہے مگر کتاب کی طلب کم ہورہی ہے۔اس لئے اظہار وتخلیق کے انداز بھی نئے اپنانے پڑیں گے اوریوں شعروادب کا سلسلہ’’ چلنا چلنا مدام چلنا‘‘ کی طرح رواں دواں رہے گا۔
ڈاکٹرصاحب بہت شکریہ۔آپ نے ہماری خواہش کا احساس کیا اوراپنے قیمتی خیالات سے آگاہ کیا۔
مقبول ذکی مقبول
بھکر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔