معمہ پی آئی اے کی نجکاری کا
تحریر: جوسف علی
اچھا ہوا پی آئی اے کی نجکاری کا عمل ناکام ہو گیا۔ پی آئی اے کی بدانتظامی کا معاملہ اس سے بڑھ کر کیا بدتر ہو سکتا ہے کہ اس کے اثاثوں کی کل مالیت 153 ارب روپے ہے جبکہ اس کے 60فیصد حصص کی فروخت کے لیئے سرکاری بولی کا آغاز صرف 85ارب 3کروڑ روپے سے ہوا۔ اس پر مستزاد بولی کھولنے کے وقت یہ لطیفہ پیش آیا ہے کہ نجکاری کمیشن نے ابتدائی طور پر جن 6کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کیا تھا ان میں سے نیلامی میں صرف ایک کمپنی کی بولی سامنے آئی جبکہ باقی 5کمپنیوں نے بولی میں حصہ ہی نہیں لیا۔
اس سے قبل 9سال پہلے بھی پی آئی اے کی نجکاری کا ڈھونگ رچایا گیا تھا جو ناکام ہو گیا تھا اور اس بار بھی پی آئی اے کی نجکاری کا ڈرامہ فلاپ ہو گیا ہے۔
اس مرتبہ پی آئی اے کی بولی صرف 10ارب روپے کی صورت میں سامنے آئی جو کہ حکومت کی مقررکردہ کم از کم قیمت 85ارب روپے سے 75ارب روپے کم ہے۔ کیا یہ تو نہیں کہ پی آئی کی قیمت گرا کر حکومت کسی ایسی خریدار پارٹی کو کم قیمت پر بیچ کر "کک بیکس” چاہتی ہے یا کسی بزنس پارٹنر کو نوازنا چاہتی ہے؟ حکومت کو چایئے کہ اس معاملے میں پیدا ہونے والے ان سوالات کے جواب تلاش کرے اور ان اسباب کو دور کرے جو اس دفعہ اتنی کم قیمت پر بیچنے کے باوجود نیلامی کی بولی کے وقت رکاوٹ بن کر سامنے آئے۔
قبل ازیں پی آئی اے کے 51فیصد شیئر کو فروخت کرنے کا منصوبہ تھا مگر نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس کی طرف سے 60فیصد حصص فروخت کرنے کی منظوری دی گئی۔ تاہم جو صورتحال سامنے آئی اس میں نجکاری کا عمل موخر ہو گیا۔ ترجمان قومی ایئر لائن کے مطابق پی آئی اے منافع بخش ادارہ ہے، اس کے صرف لندن ہیتھرو روٹ کی قدر ہی 100ملین ڈالر ہے جو کہ 30ارب روپے کے مساوی ہے۔ اس ادارے کے پاس سترہ A320 طیارے ہیں جن میں سے ہر ایک کی قیمت 120 سے 150ملین ڈالر ہے۔ نیا A-320 جہاز ہو تو اس کی قیمت 30ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔ پرانے جہازوں پر تھوڑی کم قیمت بھی لگائی جا سکتی ہے۔ ادارے کے کھاتوں میں موجود اثاثوں کی مجموعی مالیت 165ارب روپے ہے جسکے ساٹھ فیصد، جو نجکاری کیلئے پیش کئے گئے 99ارب روپے مالیت کے حامل ہیں۔
پی آئی اے کے 60 فیصد حصص کی فروخت کے لیئے بلیو ورلڈ سٹی کنسورشیم کی طرف سے بولی موصول ہوئی تھی۔ پی آئی اے کے کل 152 ارب روپے کے اثاثہ جات ہیں جن میں مسافر جہاز، سلاٹ، روٹس اور دیگر شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پی آئی کی ملکیت میں ایک مغربی ملک میں واقع ایک ہوٹل بھی شامل ہے جسے ایک وقت میں موجودہ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے بھی خریدنے کی کوشش کی تھی مگر وہ ناکام رہے تھے۔ پی آئی اے کی مجموعی رویلٹی 202 ارب روپے ہے جس میں سی اے اے اور پی ایس او بھی شامل ہیں۔ پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد 7100 ہے۔ آج نیلامی پر لگی یہ وہی پاکستان ائیر لائن PIA ہے جو کبھی دنیا کی نمبر ون ائیر لائن تھی اور جس نے آج کی نمبر ون ائیر لائن ایمریٹس ائیر لائن کو کامیاب کروایا تھا۔ یہاں تک کہ ایمریٹس ایئر لائن نے پاکستان سے جہاز اور پائلٹس دونوں مستعار لئے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کے ادارے کو کرپشن اور اقرباء پروری نے تباہ کر دیا۔ یہ ایک کھلا راز ہے جسے سب جانتے ہیں کہ پی آئی اے کے چیئرمین مسلم لیگ نون کے رہنما شاہد خاقان عباسی بھی رہے جنہوں نے پی آئی اے کے مدمقابل اپنی ائیر لائن "ائیر بلیو” Air Blue لانچ کی جس وجہ سے ایئر بلیو تو منافع میں چلتی رہی مگر پی آئی کو اوسطا روزانہ 50کروڑ روپے کا خسارہ ہوتا رہا جس کا اب مجموعی نقصان 713 ارب روپے تک جا پہنچا ہے، اس کے جہازوں اور عملے کی خستہ حالت ہے، جہاز فنی خرابیوں کا شکار ہیں، آئے روز پی آئی اے کو بدنام کیا جاتا ہے، اس وقت بھی پی آئی اے کے 265ارب روپے کے قرضوں کی حکومت نے گارنٹی دے رکھی ہے جن میں 22ارب کے قرضے وہ ہیں جن پر پی آئی اے نے اپنے اثاثے گروی رکھے ہوئے ہیں۔
پی آئی اے کے طیاروں کو ایندھن کی عدم فراہمی کے بحران کا بھی سامنا رہا ہے۔ گزشتہ برس پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن ایندھن کی عدم فراہمی کے باعث معطل ہوا تھا جس کے بعد اسے جزوی طور پر بحال کیا گیا ہے۔ 2023 میں کئی روز سے پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) سے ایندھن کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے پی آئی اے کی اندرون و بیرون ملک پروازوں کو منسوخ کیا گیا تھا۔ اس وقت پی آئی اے کے ترجمان نے تصدیق کی تھی کہ مالی بحران اور ایندھن کی عدم فراہمی فلائٹ آپریشن کی معطلی کا باعث بنی تھی۔ ترجمان پی آئی اے نے بتایا تھا کہ ایندھن کی عدم دستیابی کے باعث 17 اکتوبر کو اندروں ملک 13 پروازیں جبکہ 11 بین الاقوامی پروازیں منسوخ ہوئی تھیں جبکہ 12 پروازوں کی روانگی میں تاخیر ہوئی تھی۔
کیا وجہ ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کو سرمایہ کار پرکھ نہیں سکے اور انہیں اندازہ نہیں ہو سکا کہ اس کے اثاثے کتنی مالیت کے ہیں۔ پی آئی اے کے عملے کی بھرتی میں ہر دور میں بے ایمانی ہوتی رہی ہے۔ترجمان کی بیان کردہ دیگر حکومتی ترغیبات کی موجودگی میں بھی اگر نجکاری کی کوشش ناکام ہو گئی ہے تو ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال میں حکومت نجکاری کے تمام پہلوؤں کا دوبارہ تفصیلی جائزہ لے اور اعلی سطحی مشاورت کے بعد ہی کوئی حکمت عملی ترتیب دی جائے کیونکہ اس کی نجکاری کے لیئے بھی اتنی بڑی انویسٹمنٹ کی ضرورت ہے کہ اس کی نیلامی کی تیسری کوشش کے ناکام ہونے کا بھی امکان موجود ہے۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز یعنی پی آئی اے PIA پاکستان کا سب سے بڑا اور قومی فضائی ادارہ ہے جو تقریباً 23 اندرون ملک اور 30 سے زائد بیرون ممالک پروازیں چلاتا ہے جو ایشیا، یورپ اورجنوبی امریکا تک جاتی ہیں۔ یہ ایشیا کی پہلی ایئر لائن ہے جس نے جیٹ انجن والے بوئنگ 737 جہاز چلائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دنیا کی پہلی ایئر لائن ہے جس نے بوئنگ 777-200 ایل آر جہاز حاصل کئے اور کامیابی سے چلائے۔ لیکن آج یہی ائیرلائن تقریبا کنگال ہو چکی ہے اور حکومتی پالیسی کے ماتحت یہ کمپنی آج کل اپنی نجکاری کے مراحل سے گذر رہی ہے جس میں اسے "کارپوریشن” سے ایک "لمیٹڈ کمپنی” میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
ایسی صورتحال میں پی آئی اے کی دوبارہ نیلامی کرنے کی کوشش کرنا بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ لھذا بہتر ہے کہ حکومت ان وجوہات کو دور کرنے کی کوشش کرے جن کی بناء پر اسے نیلام کرنے کی نوبت آئی ہے۔ مسئلے کے حل کی طرف توجہ دینی چاہئے ناکہ اس سے جان چھڑانی چایئے۔
Image Courtesy PIA
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔