عاصم بخاری کی شاعری میں عصری شعور و اصلاح
محقق
(مقبول ذکی مقبول بھکر)
میرا معمول ہے جب بھی کسی شخصیت کے فن پر بات کرنے لگتا ہوں تو اسی کی بات میں سے اپنی بات کا آغاز کرتا ہوں
عاصم بخاری کے فن پر بھی ان ہی کے ایک شعر سے بات کا آغاز کرتا ہوں۔ عصری شعور کے حوالے سے ان کا ایک بہت ہی پیارا شعر
سنتے کان اور ، دیکھتی آنکھیں
تیرے عاصم کو رب نے بخشی ہیں
اگلے مرحلہ میں انھوں نے اپنی شعر گوئی کی غرض و غایت بھی بیان کر دی ہے۔دوسرے لفظوں میں اس شعر کو ہم ان کا نظریہ ء شعر کا بھی نام دے سکتے ہیں۔شعر دیکھیۓ
اصلاح کی خاطر ہی قلم ، اٹھتا ہے اپنا
مقصود نہ تذلیل ، نہ تحقیر کسی کی
جیسا کہ میں قبل ازیں متعدد آرٹیکلز میں اس بات کا تحریری اظہار کر چکا ہوں کہ میں نے عاصم بخاری کو صرف پڑھا ہی نہیں سمجھا بھی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی شخصیت پہ لکھنا یا فن کے کسی ایک پہلو پر بات کرتے وقت مجھےکوئی مشکل پیش نہیں آتی۔عاصم بخاری کثیر الجہات شاعر و ادیب ہیں۔ان کا مطالعہ و مشاہدہ ء فطرت وسیع ہے ، بیدار مغز اور اور بیدار تخیل شاعر ہیں۔ہرموضوع کے ساتھ انصاف کی صلاحیت انہیں قدرت نے ودیعت کی ہے۔رومانویت بھی ان کے ہاں ہے مقامیت بھی ہے آفاقیت بھی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ عقلیت اور مقصدیت کا دامن بھی مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔شعر براۓ شعر کے فلسفہ سے بھی آشنا ہیں اور شعر برائے مقصد سے بھی بے خبر نہیں خود احتسابی کے حوالے سےایک شعر دیکھیۓ
اوروں پہ تو انگشت نمائی سے پیش تر
اپنے بھی گریباں میں کبھی جھانک لیا کر
علم و ادب اور کتاب دوستی ہی ہمارے کمال اور عروج کا باعث رہی۔ جب سے علم و ادب اور کتاب و قلم ہمارے ہاتھ سے چھوٹا ہم زوال آمادہ ہو ئے عاصم بخاری کتاب کی وہی اہمیت و افادیت چاہتے ہیں اور ہمیں مطالعہ کی ترغیب دیتے ہیں اسی حوالے سے ایک شعر ملاحظہ ہو
بِکنے فٹ پاتھ پر نہ آتیں یہ
لوگ پڑھتے اگر ، کتابوں کو
اِسی مزاج کا ان کا ایک اور شعر دیکھیۓجس میں بہ ظاہر کتاب دوست طبقے کو جھنجھوڑا گیا ہے
الماریوں میں ہی پڑی رہتی ہیں یہ فقط
پڑھتا نہیں کتاب کوئی المیہ ہے یہ
ہمارے ہاں عملوں کا خلوص اب جانے لگا ہے جب سے یہ سوشل میڈیا اور فیس بک آئی اس نے ہمیں کچھ زیادہ ہی ریا کار بنا ڈالا جب کہ ہمارے مذہب ریا کاری کو پسند نہیں کرتا۔ یہ ہماری عادت ثانیہ بن چکی ہے اسی ضمن میں ان کا ایک حالات اور واقعات کی خوب عکاسی کرتا ہے
حسب ِ عادت استعمال ہوتی رہی
خانہ کعبہ میں بھی عاصم فیس بک
نوجوان نسل کے بارے میں علامہ اقبال اور الطاف حسین حالی کی طرح متفکر دکھائی دیتے ہیں اس کیفیت کا احاطہ کرتا ایک قطعہ جس میں وہ نوجواں کو کام اور محنت کی طرف رغبت دیتے دکھائی دیتے ہیں۔عاصم بخاری کے انداز میں الطاف حسین حالی کی سی سادگی جھلکتی ہے
شعر ملاحظہ ہو
ہماری نسل ِ نو عاصم بخاری
تَن آساں کچھ زیادہ ہو گئی ہے
مشرقیت کا دامن مشرقیوں سے چھوٹتا دکھائی دے رہا مغربی ثقافتی یلغار تلوار سے بھی تیز دھار ہے اس نے قو م کے جسم کو نہیں روح کو بھی ہلا کے کھ دیا ہے۔ہم نے بڑی تیزی کے ساتھ مغربی ثقافت کو فیشن اور جدت کے نام پر اندھا دھند اپنایا ہے ۔ذہن سوچ سے عاری ہوگئے ہیں۔اسی بات کا آئینہ کچھ اس انداز میں دکھاتے ہیں۔
شعر دیکھیں
اور بڑھا دیتے ہیں عاصم عریانی
آج کے ملبوسات نجانے کیسے ہیں
اسی مزاج سے میل کھاتا ان کا ایک اور شعر دیکھیۓ گا جس میں لباس لفظ کو کس ذو معنویت سے انہوں نے برتا ہے
کوشش کے باوجود بھی عورت کے جسم پر
ملبوس کو لباس کے معنی نہ مل سکے
ہم مسلمان ہیں اور ہماری اخلاقیات ہماری تعلیمات سے مل نہیں کھاتیں زمین آسمان کا تفاوت ہے۔ہمارا مذہب کچھ اور کہتا ہے اور ہماری خواہشات کچھ اور ہیں ۔رشوت کے بارے اسلام راشی و مرتشی دونوں کو جہنمی قرار دیتا ہے جب کہ ہمارے ہاں رشوت کی تصویر کشی انہوں نے خوب کی ہے جو کہ ہمارے لیے لمحہ ء فکریہ ہے
شعر ملاحظہ ہو
پہلے اک آدھ ، کوئی لیتا تھا
رشوت اک آدھ اب نہیں لیتا
عاصم بخاری ان شعرا میں سے نہیں جو ہمہ اوقات دنیا اور مافیہا سے بے خبر گل و بلبل اور لب و رخسار کے قصوں میں مشغول ہوں۔ان کی اپنے پس وپیش اور ارد گرد پر کڑی اور گہری نظر ہے
قطعہ ملاحظہ ہو
تِرے علم میں بات ہو یہ ، نہ شاید
فقط صبر کے گھونٹ ہی، پی رہے ہیں
نہیں ” پیناڈال ” اِن کو عاصم میسر
ترے شہر میں لوگ ، یوں جی رہے ہیں
ایسے بیسیوں اشعار سے عاصم بخاری کا گل دان ِ شاعری مزین ہے۔مگر قاری کی نازک کے پیش پیش ِ نظر چاول کی دیگ سے چند دانوں پر ہی ہم بطور نمونہ اکتفا کریں گے اس یقین کے ساتھ کہ ان کا ذائقہ تاخیر قاری کے ہاں رہے گا۔ ایسے بیسیوں اشعار سے عاصم بخاری کا گل دان ِ شاعری مزین ہے۔مگر قاری کی نازک کے پیش پیش ِ نظر چاول کی دیگ سے چند دانوں پر ہی ہم بطور نمونہ اکتفا کریں گے اس یقین کے ساتھ کہ ان کا ذائقہ تاخیر قاری کے ہاں رہے گا۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔