کتابوں "چشم نم” اور "واپسی” پر تبصرے
دنیا بھر میں کتابوں کے مترجمین کو بدیسی زبانوں کی کتب کا ترجمہ کرتے وقت متن کا اصل مفہوم و لطف برقرار رکھنے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ کسی بھی کتاب، مقالے یا مضمون کا اپنی ملکی زبان میں ترجمہ تو آسانی سے کیا جا سکتا ہے مگر تحریر کی بنیادی روانی اور سلاست کو قائم رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔ گزشتہ ہفتے دو کتابیں زیر مطالعہ رہیں اور یہ کتابیں انگریزی زبان میں ہیں۔ حسن اتفاق ہے کہ یہ دونوں کتب مصنفین کے انڈیا یاترا کے تاثرات ہیں۔ پہلے پہل سفرنامے بڑے شوق سے لکھے اور پڑھے جاتے تھے جن میں مستنصر حسین تارڈ کی سفری رودادِیں "ٹاپ آف دی لسٹ” ہیں۔ تارڈ صاحب زود لکھاری ہیں۔ ان کے بارے میں ازراہ تفنن کہا جاتا ہے کہ وہ غیرملکی سیروسیاحت کے دوران کسی ہوٹل میں ایک رات گزارتے ہیں تو وہ اس کا احوال بیان کرنے میں ایک پوری کتاب مکمل کر لیتے ہیں۔ لیکن تارڈ صاحب کی خوبی یہ ہے کہ ان کے سارے سفرنامے سلیس اردو زبان میں ہیں۔ ان دونوں کتابوں کو پڑھنے سے ہندوستان، وہاں کے مقامی کلچر، لوگوں کی عادات، رویوں اور سیرگاہوں وغیرہ کے بارے میں میری معلومات میں تو کافی اضافہ ہوا ہے مگر سچی بات ہے کہ ان انگریزی زبان میں لکھی کتب پر اردو میں تبصرہ کرنا میرے لیئے کافی مشکل تجربہ رہا۔
ایک کتاب کا اردو سے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ اردو میں اس کتاب کا نام "چشم نم” ہے جس کا انگریزی ٹائیٹل "موئسٹ آئیڈ” Moist-Eyed ہے۔ حالانکہ چشم نم کا انگریزی ترجمہ "برننگ آئیز” Burning-Eyes بھی کیا جا سکتا تھا۔ اردو زبان کے عظیم انشاءپرداز مولانا محمد حسین آزاد آنسوؤں کو "آب حیات” کہا کرتے تھے اور پھر اسی کو عنوان بنا کر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔ یہ کتاب (آب حیات) مولانا محمد حسین آزاد کی وہ تصنیف ہے جسے کلاسیکی شاعروں کا جدید تذکرہ شمار کیا جاتا ہے۔ چشم نم کی مصنفہ پروفیسر نوشابہ صدیقی ہیں اور اس کے مترجمین نثار اختر اور اشعر نور ہیں۔ موصوف مصنفہ ابھی نوعمر تھیں جب قیام پاکستان کے وقت الگ اور آزاد وطن کی محبت میں (اور یتیمی کی حالت میں) وہ زندگی کا سب کچھ بھارت چھوڑ کر پاکستان آ گئیں جہاں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے اکنامکس، ماس کمیونیکیشن اور اردو میں تین ماسٹر ڈگریز حاصل کرنے سے اپنی تعلیم مکمل کی اور پھر درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہو گئیں۔ وہ ایک کالج کی پرنسپل کے طور پر فرائض انجام دیتی رہیں۔ انہوں نے پاکستان کراچی میں بطور پروفیسر اور پرنسپل پوری تین نسلوں کو تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کیا۔ وہ متعدد دیگر کتابوں کی مصنف ہیں، بہت سے ایوارڈز حاصل کیئے اور پاکستان ریڈیو و قومی ٹیلی ویژن پر سینکڑوں پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی۔ موصوفہ مرنجان مرجان شخصیت ہیں اور استادوں کی استاد ہیں۔ ایک استاد جب طلباء کو لیکچر دیتا ہے تو خود اس کا علم اور یادداشت بھی بڑھتی ہے۔ دراصل تعلیم و تربیت ایک ایسا تخلیقی عمل ہے کہ انسان کا علم جوں جوں بڑھتا ہے اس کی علمی تشنگی میں بھی توں توں اضافہ ہوتا ہے۔ انسان میں جتنی بھی علمی و ادبی وسعت آ جائے وہ احساس تشکر کی وجہ سے اپنی مٹی یعنی "جنم بھومی” کو کبھی نہیں بھولتا ہے۔ نوشابہ صدیقی کو واپس بھارت جا کر اپنی آبائی پیدائش کو دیکھنے کے لیئے چھ دہائیوں یعنی 60سال کا عرصہ لگا۔ اس کے بعد سنہ 2014ء میں وہ دن آیا جب نوشابہ صاحبہ کو دو ہفتوں کے لیئے انڈیا جانے کا موقعہ ملا۔ یہ لمحہ کتنا عجیب و غریب اور کیسی جذباتی کیفیات سے بھرپور ہو گا جب انہوں نے پاکستان و بھارت کی تقسیم اور ہجرت کے 60برس بعد دوبارہ ان بازاروں، گلیوں اور مکانوں کو دیکھا ہو گا، جہاں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بالخصوص ان کے بیٹے اشعر نور نے کیا ہے جس میں وہ کتاب کے تعارف میں ایک جگہ لکھتے ہیں جس کا ترجمہ ہے کہ، "یہ ایک یتیم لڑکی کے سفر کی سچی کہانی ہے جس نے اپنے آباء و اجداد کی یادیں کریدنے کے لیئے چھ دہائیوں تک انتظار کیا تاکہ تقسیم کے دوران جو نقصان ہوا، جو قربانیاں دی گئیں اور اس دوران جو درد محسوس کیا گیا اسے یاد رکھا جا سکے۔”
اس حوالے سے یہ کتاب یادگار ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو اندازہ ہو سکے کہ قیام پاکستان کے وقت آزادی کی خاطر جو لازوال قربانیاں خود ہمارے بزرگوں نے دیں انہیں بھلا دیا جائے تو آزادی کی معنویت مرجھا جاتی ہے۔ چہ جائیکہ تقسیم کے وقت جو ٹرینیں بھارت سے آئی تھیں ان کی تقریبا ساری بوگیاں مہاجرین کی لاشوں اور خون سے لت پت ہوتی تھیں۔ اس متاثرکن کتاب میں بڑی خوبصورتی سے قیام پاکستان کے دوران اٹھائی گئیں تکالیف اور قربانیوں کو قیام پاکستان کی صورت میں فتح کے انداز میں پیش کیا گیا۔ اس کتاب کو آسٹریلیا ملبورن سے "کلارک اینڈ میکے پبلشرز” نے شائع کیا ہے جو 9 ابواب اور 170 صفحات پر مشتمل ہے جس کے اہم عنوانات میں کراچی سے علی گڑھ تک، غالب کا شہر دلی، آگرہ کے دو کالج اور تاج محل، میری جائے پیدائش حسن منزل غازی پور اور دہلی سے کراچی کو واپسی وغیرہ شامل ہیں۔ پوری کتاب ادبی حسن کا بہترین نمونہ ہے جس میں اردو اشعار اور ان کا انگریزی ترجمہ بھی شامل کیا گیا ہے۔
کتاب کے پہلے مترجم اشعر نور صاحب آسٹریلیا ملبورن اور کراچی میں اپنے فیملی کاروبار کے بانی اور چیف ایگزیکٹو ہیں۔ اس سے قبل وہ دو دہائیوں تک مڈل ایسٹ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے طور پر کام کرتے رہے، وہ آرٹس کونسل آف پاکستان کے تاحیات ممبر ہیں کئی دیگر کتابوں کے مصنف ہیں اور انہیں 50 سے زیادہ عالمی کانفرنسوں میں مختلف موضوعات پر خطاب کرنے کا اعزاز حاصل ہے جبکہ دوسرے مترجم نثار اختر صاحب ان کے والد گرامی ہیں یعنی باپ بیٹے نے مل کر اس کتاب کا انگریزی ترجمہ کیا ہے۔ نثار اختر 1941 میں پیدا ہوئے اور انہوں نے معاشیات اور شماریات میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ماسٹر کیا۔ انہوں نے ایک اور مضمون میں سٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک سے بھی ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ وہ سٹیٹ بنک آف پاکستان میں ایڈیشنل ڈائریکٹر کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ادبی سرگرمیاں شروع کیں۔ نثار اختر صاحب بھی آرٹس کونسل پاکستان کراچی کے تاحیات ممبر ہیں اور اس وقت وہ کراچی یونیورسٹی میں جمیل جالبی ریسرچ لائبریری کے کنوینر ہیں۔
دوسری کتاب کا عنوان "واپسی” (Coming Back) ہے جو کہ انگریزی زبان ہی میں لکھی گئی ہے، جس کے مصنف شعیب گنڈا پور ہیں۔ یہ کتاب بھی ہندوستان کے بارے ایک جدید سیاح کی سفری روداد ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب کسی اخبار کے لیئے اپنا سفر نامہ قسط وار شائع کرنے کے لیئے لکھی گئی تھی۔ لیکن اس کتاب کو اتنا دلچسپ اور خوبصورت ادبی زبان میں لکھا گیا ہے کہ قاری کو اسے ایک ہی نشست میں مکمل کرنے کو جی چاہتا ہے۔ مصنف گنڈا پور نے انڈیا کے سفر کے دوران جو نوٹس لیئے اور معلومات اکٹھی کیں وہ اتنی دلچسپ اور سنسنی خیز تھیں کہ خود مصنف انہیں کتاب کے طور پر شائع کرنے پر مجبور ہو گیا۔
"کمنگ بیک” Coming Back کا پہلا ایڈیشن انگلینڈ سے کنتارا پریس (Kantara Press) نے جنوری 2025ء میں چھاپا جبکہ دوسرا ایڈیشن پاکستان میں "جہلم بک کارنر” نے مارچ 2025ء میں شائع کیا۔ کتاب کے ابواب پر ایک نظر ہی سے قاری کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ کتاب کو کتنی عرق ریزی، محنت اور خوبصورتی سے لکھا گیا جس میں 143 صفحات پر مبنی 22 ابواب ہیں جس میں چیدہ چیدہ ابواب کے عنوانات انڈیا جانے کی وجہ، جس کا انتخاب کریں اس میں احتیاط کریں، منتخب ہندوستانی شہروں کی دریافت، پرانی دلی، نیو دہلی کے اطوار، شادی کے جلوس میں قطب اور فرید کی آمد، کھڑکیاں بیل سنیاسی اور سیڑھیاں، اترپریش کے دل میں، مغلوں کی شہنشاہت سے راجپوتوں کی عظمت تک، وہ اپنے ہمسایوں کے بارے کیا سوچتے ہیں، انڈیا کے مسلمانوں کی زندگی اور حالات، میرے ہیرو کا مقبرہ، اردو کہانی، ڈیرہ اسماعیل خان کی جاری تحقیق، دودھ کے کپ پر تیرتے گلاب کے پھول اور واپس آنے پر عرصہ لگا وغیرہ شامل ہیں۔ فہرست میں شامل ان عنوانات کا حسن اور سرسراہٹ اس کتاب کو شروع کرتے ہی قاری کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔
یہ کتاب سفر نامہ یا آپ بیتی سے زیادہ ایک انوکھے سفری ناول کا اندازہ لیئے ہوئے ہے جسے قاری بھی مصنف کی طرح مزے لے لے کر پڑھ سکتا ہے۔ اس کتاب میں انڈیا کے سیاحتی مقامات کی ذاتی پروفیشنل کیمرہ سے لی گئی فور کلر خوبصورت تصاویر، اعلی کوالٹی کا کاغذ، فرنٹ و بیک پیج کی ڈیزائنگ اور دیدہ زیب چھپائی اس کتاب کی کشش کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ قاری کو یہ کتاب پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ وہ اکتا دینے والا سفرنامہ نہیں بلکہ سحر زدہ کر دینے والی کوئی رومانوی کہانی پڑھ رہا یے۔
انڈیا سے بھی وہ مہاجرین پاکستان آتے رہتے ہیں جن کی پیدائش متحدہ ہندوستان کے پاکستانی حصے میں ہوئی تھی اور جو پاکستان بننے پر ہندوستان چلے گئے تھے۔ پاکستان آنے والی ان بڑی شخصیات میں دلیپ کمار بھی شامل ہیں جن کا اصل نام یوسف خان تھا اور جو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ اس حوالے سے سرحدوں کی روایت کے خلاف کتاب کے بیک ٹائیٹل پر رضا رومی کے انگریزی زبان میں یہ الفاظ لکھے نظر آتے ہیں:
"…An important addition to texts that defy borders guarded by nationalism…”

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |