تحریر و تحقیق: شاندار بخاری
مقیم مسقط
ڈاکٹر علی شریعتی نے کہا تھا کہ ” لباس وہ ہے جس نے آپ کے آدمی ہونے کی حقیقت کو اپنے اندر چھپا لیا ہے ، کیونکہ لباس آدمی کو پہنتا ہے اور یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے کہ آدمی لباس کو پہنتا ہے "
کپڑے جو تن ڈھانپنے کیلئیے تھے آج ان کا مقام یہ ہے کہ ہم اس شخص کو معتبر نہیں سمجھتے اس کو ساتھ بٹھانے کے لائق نہیں سمجھتے عہدے اور وقار کے اہل نہیں سمجھتے جس نے برینڈ یا قیمتی مخمل نہ پہنا ہو ، یہ ایک ذہنی مرض ہے جو کہ احساس کمتری کی ایک جڑ ہے اور اکثر کیا بلکہ بیشتر لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں اور ہر وقت اسی سوچ میں گم رہتے ہیں کہ کل کیا پہنوں ! کسی زمانے میں سفید پوش کا لفظ استعمال ہوتا تھا جو کہ اب صرف قصے کہانیوں اور محاوروں کی حد تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ، کوئی سیاست دان ہو یا مولوی آج کل سب ہی زرق برق اور میچنگ لباس پہن کر ہی جلوہ افروز ہوتے ہیں پھر لوگ ان کو کاپی کرتے ہیں آج کل تو کپڑوں کیساتھ میچنگ جوتے اور فیس ماسک بھی دستیاب ہیں۔
اسلام عمل کا نام تھا آجکل جب تک کوئی اچھے کپڑے نہ پہنے خواہ وہ کتنا بڑا عالم کیوں نا ہو اپنی جانب لوگوں کو متوجہ نہیں کر سکتا یقین نا آئے تو مارکیٹ میں دیکھ لیں اکثر کپڑوں کے برینڈ مولویوں کے ہی ہیں۔ ( کہیں پڑا تھا اور اب یاد آ گیا غالبا اشفاق احمد صاحب نے لکھا تھا کہ مرد کے دل میں ۔۔۔ اور عورتوں کی الماری میں نئے جوڑے کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے ۔۔۔ بات کیونکہ کپڑوں کی ہو رئی ہے اس لئیے مرد کے دل کا معاملہ پھر کبھی )
ایک بزرگ اور اپنے وقت کے جلیل القدر عالم ( مجھے اس وقت نام یاد نہیں آ رہا ) کسی محفل میں مدعو تھے جب وہاں پہنچے تو دربان نے ان کے سادہ لباسی کو دیکھ کر انہیں اندر نہیں جانے دیا اور وجہ معلوم کی تو پتا چلا کہ یہ رئیسوں اور امراء کی دعوت ہے آپ تو فقیر معلوم ہوتے ہیں یہ سن کر آپ مسکرائے اور وہاں سے لوٹ رہے گھر آ کر لباس فاخرہ زیب تن کیا اور پھر اسی محفل میں گئے تو اب کہ مرتبہ دربان نے جھک جھک کر سلام کیا اور پرتپاک استقبال کیا گیا جب کھانا لگا تو آپ اپنے کرتے کو سالن میں ڈبوتے اور کہتے کہ کھاؤ کھاؤ یہ سب تمہارے لئیے ہی تو ہے ، یہ ماجرا دیکھ کر لوگ حیران ہوئے اور میزبان نے پوچھا کہ حضرت آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں تو انہوں نے کچھ دیر پہلے کا سارا ماجرا سنایا اور کہا کہ اگر عزت میری ہوتی تو جس حال میں بھی آتا قبول ہوتا مگر یہاں تو عزت صرف لباس کی ہے تو کیوں نا اسے کھلاؤں ، اپنے اس عمل سے انہوں نے اس محفل کے شرکاء اور ہم سب کیلئیے ایک بہت بڑا نصیحت آموز سبق چھوڑا ہے میانہ روی اختیا کرو ، اپنے کردار کو مضبوط کرو اور دکھائے پر مت جاؤ۔
زمانہ قدیم میں اور خاص طور پر اسلام کے ابتدائی دور میں زمانہ ترقی یافتہ نہیں تھا غلہ ، اناج اور کپڑے عام دستیاب نہیں تھے نہ ہی ہر کوئی لے یا بنا سکتا تھا۔ کھجور کے پتوں ، بھیڑ بکریوں کی کھال سے اور اونٹ کے چمڑے سے ہی بنتا تھا جو پہنا جاتا تھا علاقے ، موسم اور استعمال کے مطابق ، ایک راوی کا ذکر تھا جو کہ میں نے مرحوم جسٹس جاوید اقبال ( فرزند علامہ محمد اقبالؒ) کی ایک ریکارڈنگ میں سنا تھا کہ رسولﷺ کے زمانے میں غربت ایسی تھی کے تن ڈھانپنے کیلئیے پورا کپڑا میسر نہیں تھا کوئی نماز میں رکوع میں جاتا تو ستر پورا نا رہتا تھا ایک اور واقع یاد آیا جو کہ حضرت عمر ؓ کے ساتھ پیش آیا ایک مرتبہ وہ مسجد میں منبر رسول ﷺپر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہو گیا اور کہا کہ اے عمر ؓ ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ بیت المال سے لوگوں میں تقسیم ہونے والے اس حصے سے زیادہ ہے جو دوسروں کو ملا تھا۔ تو عمر فاروق ؓنے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبد اللّٰہ موجود ہے، عبداللّٰہ ابن عمر کھڑے ہو گئے۔ عمر فاروق ؓ نے کہا کہ بیٹا بتاؤ کہ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہوں ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ عبداللّٰہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لیے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔ایک طرف تو یہ حساب کتاب کے معاملات اور دوسری طرف روایات میں ملتا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے وسعت دی ہو اُسے چاہیے کہ شکر کے جذبات اور اعتدال کے ساتھ اللہ کی دی ہوئی نعمت کو استعمال کرے، چناں چہ اسے ریا ونمود ، خود پسندی اور دوسروں کی تحقیر کے جذبات سے بچتے ہوئے خوش لباس ہونا چاہیے۔ بعض صحابہ کرام ؓ سے نماز اور دیگر عبادات میں مستقل الگ اور قیمتی لباس کا استعمال اور بعض تابعین ، تبع تابعین ؒ سے روزانہ ہر درسِ حدیث سے پہلے نیا اور قیمتی لباس استعمال کرنا اور پھر اسے صدقہ کرنا منقول ہے۔ بعض مواقع پر نبی کریم ﷺسے بہت قیمتی چادر کا استعمال بھی ثابت ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے:
"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآلہ وسلم: ” إن الله عز وجل إذا أنعم على عبد نعمة يحب أن يرى أثر النعمة عليه”.
اب ہم اپنے موضوع کے دوسرے حصے ‘چہرے ‘ کے بارے میں بات کریں گے اللہ تعالی نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہمارے خوبصورت سانچے میں ڈھالا ہے تو ہم پر بھی واجب ہے کہ ہم اپنے عمل اور کردار سے ظاہری طور پر ویسے ہی نظر آہیں جیسے کہ ہم باطنی طور پر ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ بنا بولے ہم کیسے اپنے مذہب کا پرچار کر سکتے ہیں تو حضور ﷺنے کہا کہ اپنے کردار سے جیسے چہرہ ہماری شخصیت کا نمایاں جز ہے ویسے ہی کردار۔
اکثر لوگ اپنے کسی مقصد کے حصول کیلئیے بہت میٹھے اور مخلص بن کر ملتے ہیں اور مطلب نکل جانے کے بعد ایسے آنکھیں بدلتے ہیں کہ جیسے کبھی آشنا تھے ہی نہیں ہم سب نے کبھی نا کبھی ایسے لوگوں اور معاملات کا بزات خود تجربہ کیا ہوا ہے کوہ وہ بچپن میں تھا یہ اب ہماری عملی زندگی میں ہو ، شاعر کہتا ہے ” ایک چہرے سے اترتی ہیں نقابیں کتنی ، لوگ کتنے ہمیں اک شخص میں مل جاتے ہیں ” ( شاعر کا نام قارئین مجھے بتائیں گے تاکہ مجھے بھی پتہ چلے کے کیا واقعی آپ نے میری یہ تحریر پڑھی ہے )
چہرے بدلنا شیطانی فعل ہے جو کہ ہزاروں سے گزر جانے کے بعد آج بھی کسی نا کسی روپ میں انسانوں کو اپنے بس میں کر کے ورغلا کر ان سے یہ کام کرواتا ہے جس کا احساس ہونے پر لوگ وقت گزرنے کے بعد شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔ اور آپ تاریِخ کا مطالع کریں تو قصص الانبیاء میں ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقع بھی ملتا ہے جب وہ خواب کی تعبیر اور اللہ سے کئیے وعدے کو نبھانے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے لے جا رہے تھے تو راستے میں چہرہ بدل کر تین مقامات پر شیطان نے انہیں بہکانے کی کوشش کی اور ہر مرتبہ آپ علیہ السلام نے انہیں کنکریان مار کر بھگایا جس کی سنے آج بھی ماسک حج کو دوران منی کے مقام پر جمرات کرنے سے ادا ہوتی ہے۔
یک دن جناب رسول اللہﷺنے فرمایا ’’اَلا اُخبرکم بخیارکم‘‘ کہ کیا میں تمہیں تمہارے اچھے لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ صحابہ ؓنے عرض کیا یا رسول اللہ! ضرور آگاہ فرمائیں۔ جناب نبی اکرم نے فرمایا ’’الذین اذا رأو اذکر اللّٰہ‘‘ وہ لوگ جنہیں دیکھا جائے تو خدا یاد آجائے۔ یعنی جن لوگوں کو دیکھ کر خدا یاد آئے وہ تم میں سے اچھے لوگ ہیں۔ اس کی دو صورتیں بیان کی جاتی ہیں:
ایک یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے جن کی عبادت، نیکی اور تقویٰ کی جھلک ان کے چہروں پر نور کی صورت میں دکھائی دیتی ہے اور انہیں دیکھ کر دل میں خیال آتا ہے کہ اس قدر با رونق اور پر نور چہرہ کسی اللہ والے کا ہی ہو سکتا ہے۔ عام طور پر انسان کے اندر کی کیفیات کا اس کے چہرے سے اندازہ ہو جاتا ہے اور چہرہ انسان کی باطنی حالت کا عکاس ہوتا ہے۔ غصہ ہو یا خوشی، غم ہو یا راحت، ناراضگی ہو یا رضا مندی، انسان کے چہرے سے اس کا پتہ چل جاتا ہے۔ اسی طرح انسان کے نیک اعمال اور برے اعمال کے اثرات بھی چہرے سے ظاہر ہوتے ہیں۔
بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق آنحضرت ﷺ نے اپنے ایک خواب کا منظر بیان فرمایا کہ میں نے ایسے لوگوں کا ایک ہجوم دیکھا جن کے چہروں کی کیفیت یہ تھی کہ چہرے کا نصف حصہ خوبصورت اور باقی نصف حصہ بد صورت تھا۔ فرشتوں سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو ’’خلطوا عملاً صالحا وآخر سیئًا‘‘ اچھے اور برے اعمال خلط ملط کرتے رہے ہیں۔ اعمال صالحہ بھی انہوں نے کیے ہیں اور اعمال سیۂ میں بھی پیچھے نہیں رہے۔ ان کے نیک اعمال ان کے چہروں پر حسن کی صورت میں نظر آرہے ہیں اور برے اعمال چہروں پر بد صورتی کے طور پر نمایاں ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے نیک اور مخلص بندوں کے چہروں پر ان کے خلوص اور نیک اعمال کا نور ہوتا ہے اور ان کے بارونق اور نورانی چہروں کو دیکھ کر خدا کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
اس کا ایک معنیٰ یہ بھی اخذ کیا جاتا ہے کہ وہ لوگ جن کے اعمال و حرکات، ان کا اٹھنا بیٹھنا، لین دین، عبادات و معمولات اور اخلاق و معاملات اللہ تعالیٰ اور رسول خدا ص۔ع کے احکام کے مطابق ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر ایک مسلمان کی عملی زندگی کا نقشہ سامنے آجاتا ہے اور خدا یاد آتا ہے۔ بہر حال جناب نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ تم میں سے اچھے لوگ وہ ہیں جنہیں دیکھ کر خدا یا د آجائے۔ آج کی اس بحث کو سمیٹتے ہوئے میں اپنے معزز قارئین سے سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ خرابیاں کوہ وہ لباس کے معاملہ میں اصراف ہو یا دنیاوی اور غلط مقاصد کے حصول کیلئیے چہرے بدل کر ملنا ہو یہ خرابیاں آج ہمارے درمیان موجود ہیں اور چونکہ ہم ان کے عادی ہو گئے ہیں، اس لیے ہمیں یہ محسوس نہیں ہوتیں اور ہم بلا تکلف یہ حرکتیں کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں جناب نبی اکرم ﷺ کے ارشادات اور اسلامی تعلیمات کا بار بار مطالعہ کرنا چاہیے، اس پر غور کرنا چاہیے اور پھر اپنے معمولات اور مزاج و عادات پر نظر ڈال کر اپنی کمزوریوں کو محسوس کرتے ہوئے اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
سیّد شاندار بخاری
مدیر سلطنت آف عمان
اٹک ویب میگزین
مسقط، سلطنت عمان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔