عاصم بخاری کی شاعری میں شہر اور گاؤں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجزیاتی مطالعہ
مقبول ذکی مقبول ، بھکر
قطعہ
۔۔۔۔۔۔۔
اس پہ قربان شہری سب سج دھج
قدرتی جو سکون ، گاؤں میں
شہروں میں کاروں کوٹھیوں میں کب
فطرتی جو سکون ، گاؤں میں
عاصم بخاری ایک زود گو اور بسیار نویس شاعر ہیں ۔ لیکن اس بسیار نویسی اور زود گوئی کے باوجود ان کی ریاضت و مہارت باعث کلام میں سطحیت نہیں آتی ، بل کہ اپنے مشاہدے اور بیدار تخیل کے زور پر نت نئے زمینی اور حقیقی موضوعات کے ساتھ آتے رہتے ہیں ۔ ان کی شاعری کا اگر بہ غور مطالعہ کیا جائے تو ان کے ہاں موضوعاتی وسعت اور تنوع ملتا ہے ۔ دیگر موضوعات کی طرح شہری اور دیہاتی زندگی بھی ان کی شاعری کا مرغوب موضوع رہا ہے جسے انھوں نے بڑی خوب صورتی سے نبھایا ہے ۔ ان کے ہاں جدت و قدامت کا حسیں امتزاج ملتا ہے ۔ ان پر صرف قدامت پسندی یا قدامت پرستی کا لیبل نہیں لگایا جا سکتا کیوں کہ ان کی شاعری میں صرف ماضی کے تذکرے نہیں حال پر غور اور مستقبل کی فکر کے زاویے بھی ملتے ہیں ۔
ایک قطعہ
جس میں شہری اور دیہاتی طرز کا موازنہ پیش کیا گیا ہے ۔
آپ ایمان سے سے بتائیں خود
کیا یہی ہے مقام ، عورت کا
کس کو عاصم بخاری کہتے ہو
شہر میں احترام ، عورت کا
شہری زندگی میں بظاہر بڑی چمک دمک اور دل کشی پائی جاتی ہے ۔ جو کہ خصوصاً نوجوان نسل کو اپنی جانب بڑی تیزی سے راغب کرتی ہے ۔ انہی انتظامات کا حقیقت پسندی سے اعتراف شعر میں یوں کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
شعر
۔۔۔۔۔۔
دیکھ تو اہتمام ، شہروں میں
کیا سے کیا انتظام شہروں میں
عاصم بخاری کو قدرت نے دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والا دماغ عطا کیا ہے ۔ جس سے وہ حالات و واقعات پر غور کرتے ہیں ۔ اندھا دھند ترقی اور راتوں رات امیر ہونے کی ہوس ، حرص اور خواہش نے انسان سے انسانیت اور آدمیت چھین کے اسے بھیڑیا صفت بنا دیا جو کہ بظاہر انسانی روپ اور اجلے لباس میں دکھائی دیتا ہے
قابلِ غور اور لائقِ داد
قطعہ
زندوں کو نوچتے ، ہوۓ ہر پل
جابجا اور عام ، شہروں میں
ڈر نہ جنگل میں اب رہا کوئی
بھیڑیے ہیں تمام ، شہروں میں
اسی طرح ان کی شاعری کے مختلف زاویے اور انداز ہیں ۔شہری زندگی کے مقابل ان کا لگاؤ اور جھکاو دیہاتی زندگی کی طرف زیادہ ہے ۔ گاؤں کے حسن کا بیان دیکھیں ۔
قطعہ
یہ تو گاؤں کا حسن ، ہے سارا
کون کرتا سلام ، شہروں میں
پیسے کیسے کی دوڑ ، ہے جاری
اور سا ہے نظام ، شہروں میں
واقعی شہری زندگی کے بارے سب گواہی دیں گے کہ ہر کوئی پیسہ پیسہ کر رہا ہے ۔حتی کہ اس جنون میں دنیا میں آنے کے مقصد تک کو بھلا بیٹھے ہیں ۔
حقیقت کی عینک لگا کر اگر دیکھا جاۓ تو شہروں میں صحت تعلیم روزگار اور کاروبار کے بہت مواقع ہیں ۔ اگر کوئی دنیاوی ترقی چاہتا ہے تو شہر سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔
شعر ملاحظہ ہو ۔
ملتی ہیں دولتیں ، بھی شہرت بھی
خوب بنتا ہے نام ، شہروں میں
عاصم بخاری شہری زندگی میں عورت کے بارے متفکر دکھائی دیتے ہیں ۔ کہ تکلفاتی اور صنعتی و دفتری ماحول اور فضا میں عورت کو وہ مشرقی مقام کم اور شاید مل پاتا ہو ۔جس کی وہ حق دار ہے مگر اس حوالے سے دیہات عورت کو احترام و مقام دینے میں کہیں آگے ہے ۔
شعر دیکھیں
جو کہ عورت کو گاؤں میں ملتا
وہ کہاں احترام شہروں میں
یہ تو گاؤں کی سب ، کہانی ہے
کب کہاں احترام ، شہروں میں
شہری زندگی پر کڑی تنقید بھی ان کی شاعری میں ملتی ہے لوگ دولت کی خاطر تمام انسانی اور اخلاقی اقدار کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے خود غرضی کی انتہاؤں کو چھونے لگتے ہیں ۔
پوچھنے والا ہی ، نہیں۔جب کہ انہیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ۔ اس شعر میں اِسی بات کی عکاسی دیکھیں۔
روکنے والا ہی ، نہیں کوئی
ہر کوئی بے لگام ، شہروں میں
عاصم بخاری کی شاعری میں گاؤں کے حسن سے متاثر ہونے کی خوبی موجود ہے جس سے وہ بہت زیادہ متاثر دکھائی دیتے ہیں۔
شعر دیکھیں
یہ تو گاؤں کا حسن ، ہے سارا
کون کرتا سلام ، شہروں میں
دولت کی حرص و ہوس کی منظر کشی دیکھیے۔
شعر
پیسے کیسے کی دوڑ، ہے جاری
اور سا ہے نظام ، شہروں میں
شہری زندگی میں مواقع ہر لحاظ سے بہت ملتے ہیں ۔ ان سہولیات کا حقیقت پسندانہ اعتراف کا انداز دیکھیں۔
ملتی ہیں دولتیں ، بھی شہرت بھی
خوب بنتا ہے نام ، شہروں میں
عورت کے احترام اور مقام کے بارے ان کا نظریہ و خیال یہ ہے کہ عورت کی پاس داری لحاظ اور حیا شہروں کے مقابل دیہات میں زیادہ ہے ۔
دو شعر دیکھیں۔
جو کہ عورت کو گاؤں میں ملتا
وہ کہاں احترام شہروں میں
یہ تو گاؤں کی سب ، کہانی ہے
کب کہاں احترام ، شہروں میں
شہری زندگی میں مصروفیت حد سے بڑھ جانے کے باعث شہری بے مروت ہو جاتے ہیں ۔وہ صرف مفاد پر نظر رکھتے ہیں۔ اس سوچ کی غمازی اس شعر میں کچھ ایسے کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
اشعار دیکھیں
وہ بھی ان جان اجنبی کا ہو
کون سنتا ہے فون شہروں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔
نفسا نفسی کا دور دورہ ہے
پیسے کا ہے جنون شہروں میں
سکون پیار محبت کے بارے ان کا خیال ہے کہ وہ صرف اور صرف دیہات اور گاؤں کی فطرتی و قدرتی فضا میں ممکن ہے ۔
ایک ضرب المثل شعر
گاؤں کی چیز ہے مرے بھائی
ڈھونڈتے ہو سکون شہروں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فکر و خیال انگیز شعر جس میں شہری زندگی پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں تو سختی ہوتی اس کے باوجود جرائم کیوں سر زد ہوتے ہیں ۔
شعر ملاحظہ ہو
پھر بھی محفوظ تو نہیں کوئی
سخت گرچہ قنون شہروں میں
شہروں میں کوئی کسی کو نہیں جانتا ۔سال ہا سال تک پڑوس میں رہنے والے کی کوئی خبر نہیں ہوتی ۔ جب کہ دیہات کے سارے لوگ ایک گھر کی مثال رہتے ہیں ۔ یہی دیہات کی بہت بڑی خوب صورتی ہے ۔ دیہاتوں میں رشتہ داریاں اور ان کا پاس ہوتا ہے ۔ سب اپنوں طرح رہتے ہیں۔
اجنبیت کا دور دورہ ہے
کام آتا نہ خون شہروں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔
دیہات سے لگاؤ کی مثال ان کی اپنے گاؤں سے محبت کے اظہار کا انداز حب الوطنی کے روپ میں دیکھیں ۔
گاؤں ۔۔۔
پکی شاہِ مردان کے نام
ہے گویا کہ یہ ارضی جنت کا پارا
کھلی ان فضاؤں میں اپنا گزارا
پہاڑوں کا دامن غموں کا اتارا
ہے فطرت سے قدرت نے جس کو سنوارا
کہ ہے سندھو بابا کا شرقی کنارا
دل و جان سے ہم کو عاصم پیارا
ہے دھڑکن دلوں کی یہ مسکن ہمارا
اِسی بارے مردان شہ نے پکارا
ہے پکی یہ پکی یہ پکی ، اشارا
یہی اپنی دِلی ، یہی ہے بخارا
آخر میں بس اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ بخاری کے ہاں شہری زندگی کی اہمیت و افادیت سے بھی انکار نہیں ملتا مگر سچ تو یہ ہے کہ ان کا دل دیہات اور گاؤں کی پرسکون فضاؤں میں دھڑکتا ہے ۔ پروفیسر عاصم بخاری کا خوب صورت قطعہ
قدرتی حسن
۔۔۔۔۔۔۔
مجھ کو جانے کہیں نہیں دیتا
فطرتی حسن میرے گاؤں کا
چین ، آرام اور سکوں جس میں
قدرتی حسن ، میرے گاؤں کا
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔