حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃاللہ علیہ نے کہیں فرمایا ہے کہ ’’کتاب کی تصنیف و تالیف کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا کہ مصنف کا نام زندہ رہے اور اس سے روشنی و علم پانے والے اس کے لیے دعا کرتے رہیں‘‘ ظاہر ہے کسی کتاب سے جو روشنی، علم، فلاح اور راہنمائی حاصل ہوتی ہے اُس سے صاحبِ تصنیف کو نہ صرف دعائیں ملتی ہیں بلکہ انسانیت کا وقار قائم ہوتا ہے اور علم کی شمع سدا کے لیے روشن ہو جاتی ہے۔
ایک طویل زمانے سے میرے ذہن میں بلکہ اکثر ذہنوں میں یہ سوال اُٹھتا تھا کہ ہمارے شہر کیمپبلپور کے دل کے اندر ایک ایسی بستی آباد ہے جسے سب لوگ (گراں یا گاؤں) کہتے ہیں یہ کب وجود میں آئی؟ اور اس کے باسی کیا پس منظر رکھتے ہیں؟ میں اور شہر کے سب لوگ انہیں,, شاہ جی،، کہا کرتے ہیں اس بستی کے بچے میرے پاس پڑھا کرتے، ان میں کچھ ایسی خصوصیات ہوتی تھیں جو شہر یا آس پاس سے آنے والے دوسرے بچوں سے قطعی مختلف تھیں مثلاً وہ بولنے میں بے باک اور پوچھے گئے کسی بھی سوال کا نہایت صاف اور عمدہ زبان میں جواب دیتے، کسی موضوع پر چند فقرے روانی سے کہہ لیتے تھے، قدرتی طور پر تجسس ہوتا کہ ایسا کیوں کر ہے جبکہ یہ بھی اپنے آپ کو,, گراں،، سے وابستہ کہتے ہیں، اس گراں سے وابستہ بزرگوں سے بھی میرا تعلق رہا لیکن اس سوال کا جواب مجھے تسلی بخش نہ مل سکا، یہاں کے بچے سب اساتذہ کی نسبت میرے پاس زیادہ تعداد میں پڑھے، پھر میرے ہم جماعتوں میں سے میرے قریب ترین لڑکے اسی ’’گراں‘‘ کے تھے بلکہ لڑکپن سے جوانی تک میرے ’’شاہ جی‘‘ حضرات سے نہ ٹوٹنے والے تعلقات رہے اور ہیں، کالج میں شروع سے آخر تک میرے بہترین دوست سید سیفی احمد نقوی تھے، سید محمد حسنین شاہ، سید ذوالفقار علی شاہ، سید یاور شاہ اور بے شمار سید برادران ہم نوالہ و ہم پیالہ رہے، میں سیفی احمد کے گھر اکثر جایا کرتا وہاں سیفی کی بیٹھک میں بیٹھے اکثر اُن کے والد میر صاحب احمد علی شاہ (خُدا اُن پر اپنی رحمتیں نازل کرتا رہے) سے ملاقات ہوتی کیا ہی رعب دار شخصیت تھی، میری سیفی احمد سے زندگی بھر مذہب پر بات نہ ہوئی۔
لیکن سوال اُسی طرح ذہن میں رہا کہ یہ ’’گراں‘‘ کیسے آباد ہوا؟ اس کا احسن اور مدلل جواب جنابِ مونس رضا نے (ہجرتوں کی داستاں) میں تفصیل سے دیا ہے، انہوں نے اس جواب کے لیے بہت تگ و دَو کی ہے اور کہاں کہاں سرگرداں رہے لیکن خوشی یہ ہے کہ انہیں اپنے سوال کا پہلا جواب گورنمنٹ کالج کیمپبل پور کے درویش صفت لائبریرین نذر صابریؒ کے تحقیقی مقالے ’’حضرت سخی سلطان اٹکیؒ‘‘ سے ملا ان کی مزید جستجو کی داستان علیحدہ ہے۔
اس سے پہلے مونس رضا نے اس طرح کی کوئی تحریر نہیں لکھی نہ ہی گفتگو میں اشارتاً کبھی اپنے پس منظر کا ذکر کیا جبکہ میرے ان سے برسوں پر محیط تعلقات تھے اور میں جانتا ہوں کہ وہ علم و ادب اور شعر و شاعری کے رسیا ہیں انہوں نے سکول و کالج کے بچوں کے لیے اعلیٰ اور معیاری تقاریر لکھیں، تیار کروائیں مگر ان کی تحقیق کی جستجو سے ناواقف تھا ۔
جب یہ کتاب مجھے ملی تو بے حد دلچسپی سے میں نے ایک ہی نشست میں اسے پڑھ ڈالا، پھر کئی دن بار بار پڑھتا رہا بعض حصے تو میں نے یوں پڑھے کہ زبانی یاد ہو گئے، یہ وہ کتاب ہے جس سے میری حکمت و دانش، رشد و ہدایت، علم و فضل اور معلومات میں بیش بہا اضافہ ہوا،یہ ایک انقلاب کی داستان ہے جو صدیوں پرانی ہے لیکن ہنوز تازہ ہے، امید، عمل، بیداری، خود شناسی، جنون اور لہو سے مزیّن داستانِ انقلاب کبھی پرانی نہیں ہو سکتی، اس انقلاب کو دائمی حیثیت حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے عظیم ساتھیوں کے پاکیزہ لہو نے بخشی۔
جنابِ مونس رضا کی کتاب دائمی سچائیوں سے بھری پڑی ہے، اس سچائی کے سارے باب بہت روشن تھے، لیکن (ہجرتوں کی داستاں) میں آ کر اس کے کئی نئے پرت کھلے، شاہ صاحب کو مدتوں مختلف علاقوں میں بھٹکنا پڑا ایک پاکیزہ اور وسیع و عریض ورقِ تاریخ جو صدیوں پہلے کہیں رونما ہوا اُس میں ہر دور کے آئمہ کرام اپنے دینی فریضے، حق پرستی اور علم و ہنر کی تلاش میں سرگرداں رہے، یہ طاغُوتی قوتیں تھیں جو اقتدار اور ملوکیت کے زُعم میں آئمہ کرام کو صرف اس لیے ظُلم و ستم کا نشانہ بناتیں کہ وہ زُہد و تقویٰ، حُسن اخلاق اور غُرباء و مساکین کی خدمت کے سبب مقبولیتِ عام حاصل کر لیتے اور یہ دنیاوی حکمرانوں کو کسی صورت منظور نہ تھا پس ایک طرف دنیاوی جاہ و حشمت تھی اور زیادہ سے زیادہ مال کی ہوس جبرو استبداد پر مجبور کرتی تھی تو دوسری طرف صبر و برداشت، فقیری و درویشی، اعلیٰ ترین حُسنِ اخلاق، حلم و حُسنِ سلوک کا مظاہرہ تھا یہ سلسلہ ازل سے آج تک بغیر کسی فرق کے جاری و ساری ہے اسی لیے حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مُصطفوی سے شرارِ بُو لَہبی
میں نے پوری تاریخ میں دیکھا کہ بنو امیہ ہوں یا بنو عباس، ہر ایک ظلم کی مٹی سے بنا تھا آئمہ کرام کو دیکھتے ہوئے مجھے اُن کی بہادری اور صبر کی انتہا پر بار بار وہ پرانا مصرعہ یاد آتا رہا ’’تو تیر آزما میں جگر آزماؤں‘‘ جس طرح مشہور فلسفی ’’کانت‘‘ نے مابعدالطبیعات میں ایک تہلکہ خیز انقلاب برپا کر دیا تھا اسی طرح آئمہ کرام نے تاریخ انسانیت میں قدم بہ قدم، زمانہ بہ زمانہ تہذیب و تمدن کو علمی و فکری نکھار بخشا حضرت علی کی نہج البلاغہ کو ہی دیکھ لیجیے کوئی نظیر مل سکتی ہے؟ حق گوئی اور حقیقت شناسی اسی کو ہی تو کہتے ہیں ان کی درویش صفت اولادیں بھی علم و حکمت کے چراغ لے کر ایک علاقہ سے دوسرے علاقے میں روشنی پھیلاتے رہے دشوار گزار پہاڑی راستے اور صحرا ان کے قدموں کی دھول بنتے رہے جب ایک علاقے کے لوگوں تک پیغامِ حق پہنچا دیتے تو نئے علاقوں کی طرف نکل پڑتے اور پھر انہی بزرگوں کی اولاد سفر کرتے ہوئے مرزا اور کامل پور سیداں تک آ پہنچے ۔
کتاب کا آخری حصہ خاص طور پر لائقِ مطالعہ ہے جس سے تمام سوالات کے جوابات مل جاتے ہیں، مونس رضا نے شروع سے آخر تک اُمتِ مسلمہ کو جوڑنے کی سعی کی ہے انہوں نے کسی قسم کے متنازعہ امور کو چھیڑنے سے گریز کیا ہے میں جانتا ہوں کہ وہ اس حقیقت سے کماحقہ، واقف ہیں کہ مذہبی اور مسلکی فرق کو کوئی کتنا ہی باعلم کیوں نہ ہو نہیں مٹا سکتا بالآخر ربِ کائنات خود ہی حق و باطل کا فیصلہ فرمائے گا جب ہم فیصلہ کر نہیں سکتے تو نزاع کیوں پیدا کیا جائے، مونس رضا نے جس مہارت سے نزاعی معاملات سے پہلو تہی کی ہے کہ مجھے ساحر لدھیانوی کی وہ نظم یاد آتی رہی جس کا نکتہئِ آغاز ہے ’’چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں‘‘ جس میں شاعر آگے چل کر ایک معرکۃ الآراء شعر کہتا ہے کہ
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خُوبصُورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
سو مونس رضا نے ہر ایسا موڑ ایسی مشاقی سے مڑا کہ داد دینا بنتی ہے، یہ پہلی تصنیف ہے جس میں کاملپور سیداں کیمپبلپور (جسے بعد میں بدقسمتی سے اٹک کے نام سے موسوم کر دیا گیا) کے لوگوں کے آباء و اجداد اور دیگر بزرگوں کا تذکرہ ملتا ہے، جن بزرگوں کا میرے زمانے سے تعلق ہے اور میں ان سے ملا ہوں وہ سبھی نہایت علم دوست، وسیع النظر، اعلیٰ ظرف اور بااخلاق لوگ تھے ہمارے بزرگوں کے بھی کامل پور سیداں کے بزرگوں سے بہترین تعلقات تھے کاش میں سب کا ذکر کر سکتا مگر بابو سید تصدق حُسین کربلائی صاحب؛ الحاج محبت حسین شاہ صاحب، بہترین شاعر اور نستعلیق شخصیات سید مشتاق حسین فیضی اور سید محمد عباس نقوی صاحب، حاجی مختیار حسین شاہ صاحب ایسے مہربان نام ہیں جنہیں ہمیشہ یاد رکھتا ہوں ۔
اللہ تعالیٰ ہمارے کیمپبلپور کے باسیوں کے درمیان یہ محبت، یہ ہم آہنگی ہمیشہ قائم رکھے اور اہلبیت سے محبت انہیں آپس میں شیر و شکر رکھے، آمین
انور جلال ملک
پرفیسر ریٹائرڈ
گورنمنٹ پوسٹ گریجوئیٹ کالج اٹک
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔